Monday, January 8, 2018

Jan 2018: Transgender community of KP, looking a head with a hope for 2018!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ہم زمین: اِنسان!
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ’خواجہ سرا‘ پراُمید ہے کہ ’دوہزار اٹھارہ‘ اُن کے لئے گذشتہ سال کے مقابلے زیادہ محفوظ ثابت ہوگا اُور اُنہیں ماضی کے مقابلے ’نئے سال‘ کے دوران ملکی و بین الاقوامی سطح پر اِنسانی حقوق کے علمبرداروں اُور بالخصوص ذرائع ابلاغ کی حمایت و توجہ حاصل رہے گی۔ 

خواجہ سراؤں کی نمائندہ تنظیم کی جانب سے نئے سال کے آغاز پر مبارک باد اور نیک خواہشات کے اظہار پر مبنی ’برقی مکتوب (اِی میل)‘ میں اُن چند مسائل (چیلنجز) کا بطور خاص ذکر کیا گیا ہے جن سے یہ کیمونٹی نبردآزما ہے اور قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے علاؤہ‘ ہر طبقے اُور ہر مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی توجہ و تعاون کی متمنی ہے۔ جائز و منطقی مطالبہ ہے کہ ’’خواجہ سراؤں کو بھی ہم زمین اور اِنسان سمجھا جائے۔ اِن کی جملہ ضروریات‘ مسائل‘ درپیش مشکلات کے حل اور اِن سے متعلق عمومی رائے کو تبدیل کرنے کے لئے متعلقہ حکومتی ادارے اپنا اپنا کردار ادا کریں اور معاشرہ اِنہیں حقیر سمجھنے کی بجائے خصوصی سمجھ کر حساسیت سے معاملہ کرے کہ جس طرح آمدن کے پائیدار اور باعزت ذرائع کی ضرورت دیگر طبقات کو ہے اِسی طرح خواجہ سراؤں کے لئے بھی تعلیم‘ ہنرمندی‘ روزگار کے مواقع‘ سہولیات اُور رہنمائی کا بندوبست ہونا چاہئے۔‘‘

سالانہ جرائم سے متعلق پولیس کے مرتب کردہ اعدادوشمار گواہ ہیں کہ ’’سال دوہزار سترہ کے دوران خیبرپختونخوا کے طول و عرض (زیادہ تر پشاور) میں خواجہ سراؤں پر حملوں کے 208 مقدمات (ایف آئی آرز) درج ہوئے جبکہ اِس عرصے میں پانچ خواجہ سراؤں کو قتل بھی کیا گیا۔‘‘ جن دوسو سے زائد حملوں کی رپورٹ تھانہ جات میں درج کرائی گئیں وہ چند ایک ہیں اور بیشتر واقعات پولیس کو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ خواجہ سراؤں کو دھمکیاں ملنے یا معاشرے میں کمزور مالی و سماجی حیثیت ہونے کی وجہ سے یہ اکثر زیادتیوں پر چپ سادھ لیتے ہیں اور یہی اِن کی کمزوری ہے کہ ظلم سہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ بہرحال جس طرح مردم شماری میں خواجہ سراؤں کی درست تعداد معلوم نہیں ہو سکی بالکل اِسی طرح اِن کے خلاف ہونے والے پرتشدد اور ناقابل بیان جرائم کی حقیقی (اصل) تعداد کے بارے میں بھی کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی۔ 

خواجہ سراؤں کے لئے باعزت روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور اِس کیمونٹی کے لوگ جس قسم کی اجتماعی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اُس میں بھیک مانگ کر گزر بسر کرنا ہی زیادہ مقبول (سہل) ہے۔ رقص‘ گلوکاری اور موسیقی کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے والے خواجہ سراؤں کو جرائم پیشہ عناصر سے مستقل واسطہ رہتا ہے اور یہی اُن کے لئے سب سے زیادہ پریشانی کا باعث امر ہے۔
سال دوہزار پندرہ سے دوہزار سترہ تک خیبرپختونخوا میں ’’54 خواجہ سراء‘‘ قتل کئے جا چکے ہیں۔ اِن اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ دوہزار سترہ نسبتاً ’’کم خونی سال‘‘ تھا اُور اِس کی وجہ بڑے پیمانے پر معاشرتی شعور میں اضافہ اور ذرائع ابلاغ کی گہری نظر ہے جس کی موجودگی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے خواجہ سراؤں پرحملہ آوروں کو معاف نہیں کرتے اور اب خواجہ سراؤں پر جسمانی حملوں یا اُن کی تضحیک کو ہنسی مذاق بھی نہیں سمجھا جاتا۔ المیہ ہے کہ خواجہ سراؤں کی آبروریزی‘ حبس بیجا‘ تشدد اور اغواء برائے تاوان جیسی وارداتیں اب بھی ایک تواتر سے رونما ہو رہی ہیں لیکن خوش آئند ہے کہ آج ’خواجہ سراء‘ تنہا نہیں اور کئی غیرسرکاری تنظیمیں (این جی اُوز) اُن کے حقوق کے تحفظ کے لئے فعال ہیں۔ 

خیبرپختونخوا کے پچیس میں سے پانچ اضلاع خواجہ سراؤں کے لئے انتہائی حساس قرار دیئے جا سکتے ہیں کیونکہ رپورٹ ہونے والے دوسوآٹھ واقعات اور قتل کی وارداتیں اِنہی پانچ اضلاع (پشاور‘ بنوں‘ سوات‘ مردان اُور نوشہرہ) میں پیش آئی ہیں۔ اِن پانچ اضلاع سے خواجہ سراؤں کی ایک تعداد دیگر اضلاع اُور صوبوں کو منتقل ہوئی ہے تاہم خطرات کم نہیں ہوئے۔ 

تجویز ہے کہ وفاقی یا صوبائی حکومتیں (اگر چاہیں تو) خواجہ سراؤں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ’’جی ایس ایم (جی پی ایس)‘‘ الیکٹرانک آلات کا استعمال کرسکتی ہیں‘ جن سے چوبیس گھنٹے نگرانی اُور جیوفینسنگ بھی ممکن ہے۔ 

خیبرپختونخوا کے جن اضلاع میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات رپورٹ نہیں ہوئے‘ اِس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ وہاں خواجہ سراؤں کو معاشرے نے سرآنکھوں پر بٹھا رکھا ہے یا اُن کے وجود کو قبول کر لیا گیا ہے بلکہ اصل مسئلہ اِن واقعات کا رپورٹ نہ ہونا ہے۔ اِس صورتحال سے نمٹنے کے لئے موبائل فون ایپ (app) بھی جاری (لانچ) کی جا چکی ہے‘ تاکہ اِس موبائل فون سافٹ وئر کے ذریعے ’خواجہ سراء‘ اپنے خلاف ہونے والے کسی چھوٹے بڑے مخالفانہ رویئے (واقعات) مقامی ’این جی اُو‘ کو رپورٹ کر سکیں۔

خواجہ سراؤں کو صرف اُن کے مداح یا جرائم پیشہ عناصر یا پیشہ ورانہ مخالفین ہی سے خطرات لاحق نہیں بلکہ اُن کے اہل خانہ ’غیرت‘ کے نام پر بھی نشانہ بنانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ سال دوہزار سترہ میں قتل ہونے والے پانچ خواجہ سراؤں میں سے دو کو اُن کے اہل خانہ ہی نے قتل کیا کیونکہ وہ ناچ گانے سے اپنا گزر اُوقات کرتے تھے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق ’’دوسو آٹھ‘‘ رجسٹرڈ کیسیز میں 46 آبروریزی اور اجتماعی آبروریزی کے ہیں۔ جرائم کے لحاظ سے خواجہ سراؤں کے لئے سب سے ناموافق ضلع پشاور جبکہ دیگر اَضلاع میں بالترتیب مردان‘ نوشہرہ‘ صوابی اور بنوں شامل ہیں لیکن انہیں زیادہ تشویش صحت اور علاج معالجے کے حوالے سے ہے کیونکہ قوت مدافعت ختم کرنے والی بیماری ’ایڈز (ایچ آئی وی)‘ کا غیرمحتاط جنسی تعلقات اور غیرصحتمند طرز زندگی کی وجہ سے لاحق ہونے کا امکان رہتا ہے۔ 

پاکستان میں 39 ہزار خواجہ سراء ’اَیچ آئی وی‘ (جرثومے) سے متاثر ہیں‘ جو اِس مرض کے مجموعی متاثرین کی تعداد کا قریب آٹھ فیصد بتائے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال کافی سنگین ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں پشاور (دَلہ زاک روڈ‘ ملک پلازہ) اُور اِس کے اَطراف میں رہائش پذیر 38 خواجہ سراؤں کے خون کی جانچ کی گئی‘ جن میں سے 21 ’ایچ آئی وی‘ سے متاثر پائے گئے اور یہ جرثومہ انتقال خون یا پھر متاثرہ شخص کے زیراستعمال رہنے والی ٹوتھ برش‘ تولیے‘ بلیڈ‘ ریزر وغیرہ کے استعمال سے بھی پھیل سکتا ہے۔ 

خواجہ سراؤں کے بارے میں معاشرتی رویئے تبدیلی چاہتے ہیں۔ اِنتہائی کم تعداد میں اِن مظلوموں کے لئے تعلیم و ہنرمندی کے ذریعے روزگار کے پائیدار مواقع اور سماجی قبولیت و سرپرستی ہو تو اِنہیں معاشرے کا فعال و کارآمد جز بنایا جاسکتا ہے۔
۔

No comments:

Post a Comment