Tuesday, January 9, 2018

Jan 2018: Inside Iran - embedded lessons for Pakistan

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اِیران: ماجرا کیا ہے!؟
سال دوہزارنو میں ’’گرین موومنٹ‘‘ کے بعد ’دسمبر دوہزار سترہ کے آخری ہفتے‘ سے ’مہنگائی و بیروزگاری‘ کے خلاف جمہوری اسلامی ایران کے مختلف شہروں میں جاری احتجاج پر حکومت نے قابو پانے کا دعویٰ تو کیا ہے لیکن چنگاڑی ایک مرتبہ پھر راکھ میں دبا دی گئی ہے۔ ماضی کے سیاسی مظاہروں اُور حالیہ اِحتجاجی تحریک کے مقاصد اور عوامل مختلف ہیں‘ جن سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے اور پاکستان کے تناظر میں بھی اِن مظاہروں کی اہمیت‘ خاص ترتیب اور سب سے بڑھ کر وقت (ٹائمنگ) کو سمجھنا ضروری ہے۔

اِیران میں ’اصلاح پسند (جنہیں مغربی حکومتوں کی غیرمشروط حمایت حاصل ہے)‘ اُور ’قدامت پسند (جو شریعت کے نفاذ کے معاملے میں سخت گیر مؤقف رکھتے ہیں)‘ ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ ماضی کی امریکی حکومتیں ایران کے داخلی معاملات میں کھل کر مداخلت نہیں کرتی تھیں بلکہ ایران میں مغربی طرز کی جمہوریت نافذ کرنے کی کوششوں کی اخلاقی سفارتی اور مالی حمایت کرتے ہوئے بھی خود کو ایک خاص فاصلے پر رکھتی تھیں جیسا کہ ’گرین موومنٹ‘ کے دوران صدر باراک اوباما اور امریکی انتظامیہ نے حالات کا خاموشی سے مشاہدہ کیا لیکن موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ نہ صرف مظاہرین کی کھلم کھلا حمایت کر رہی ہے بلکہ ان مظاہروں سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ امریکہ اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ایرانی عوام ملک میں بدعنوانی (کرپشن) کے خلاف سراپا احتجاج ہیں‘ حالانکہ موجودہ صورتحال سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کسی بھی طرح درست نہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی کوشش ہے کہ ایران مظاہروں کے معاملے پر سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا جائے جبکہ امریکہ نے غیردانستہ طور پر ایران کے معاملات میں مداخلت کرکے ’قدامت پسندوں‘ کی سیاست کو مضبوط کیا ہے یعنی اِن احتجاجی مظاہروں سے امریکہ کے مقابلے ایرانی حکومت کو زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ اگر ایران میں ذرائع ابلاغ پاکستان کی طرح مادرپدر آزاد ہوتے اور وہاں پاکستان کی طرح غیرسرکاری تنظیمیں (این جی اُوز) کسی بھی ملک سے امداد لیکر فلاحی اور رفاحی منصوبوں کے نام پر پورے ملک میں پھیلی ہوتیں تو ماضی اور حال کے احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں موجودہ حکومت کب کی ختم ہو چکی ہوتی!

ایران میں حالیہ مظاہروں کا سلسلہ قدامت پسندوں کے مرکز اور ایران کے ’سپرئم لیڈر‘ آیت اللہ خامنہ ای کے آبائی شہر ’مشہد‘ سے شروع ہوئے۔ پہلے مظاہرے میں شرکاء کا احتجاج بیروزگاری‘ گرتے ہوئے معیارِ زندگی اور مہنگائی کے خلاف تھا لیکن یہ احتجاج پھیلتا ہوا جب دیگر شہروں تک پہنچا تو اِس میں سیاسی بے چینی کا عنصر بھی شامل ہو گیا۔ یاد رہے کہ سال دوہزار نو کی ’’گرین موومنٹ‘‘ نامی احتجاجی تحریک مبینہ انتخابی بے قاعدگیوں اور انتخابی حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لئے شروع کی گئی تھی۔ اُس تحریک کو داخلی طور پر مضبوط سیاسی قیادت بھی میسر تھی کیونکہ دو صدارتی اُمیدوار ’حسین موسوی‘ اُور ’مہدی کروبی‘ اِس (گرین موومنٹ) کی قیادت کر رہے تھے مگر ایران میں جاری حالیہ مظاہرے بظاہر تو وسیع پیمانے پر نظر آتے ہیں لیکن اِن کی رہنمائی سیاسی قیادت کے واضح طور پر نہ کرنے کی وجہ سے مقاصد تبدیل ہوتے دکھائی دیئے‘ جس سے حکومت کے لئے اِن کی سرکوبی زیادہ آسان ہوگئی۔ قابل ذکر ہے کہ ایران کے وہ جلاوطن رہنما جنہوں نے ’’گرین موومنٹ‘‘ میں حصہ لیا تھا‘ حالیہ مظاہروں سے لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں‘ چنانچہ اِن حالات میں ایران کے قدامت اور اصلاح پسند دونوں ہی دھڑوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ کیونکہ دونوں دھڑے ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرا رہے ہیں!

مشہد سے صدر روحانی کے مقابل صدارتی امیدوار ’علی رئیسی‘ کے سُسر اور قدامت پسند رہنما آیت اللہ علم الھدیٰ کو قومی سلامتی کونسل میں طلب کرکے مشہد مظاہروں میں ملوث ہونے اور مقاصد کے بارے میں پوچھ گچھ کی اطلاعات ہیں لیکن ’آیت اللہ علم الھدیٰ‘ ایسی کسی بھی طلبی کی تردید کرتے ہیں۔ ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری نے معاشی صورتحال پر عوام کو احتجاج پر اکسانے کا الزام قدامت پسندوں پر عائد کیا اور تہران میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اِن مظاہروں کے درپردہ لوگوں کو پتہ نہیں کہ یہ مظاہرے اُن ہی کے خلاف ہو جائیں گے۔‘‘ جبکہ دوسری طرف صدر حسن روحانی کے حمایتی اِن ’’مظاہروں کی سازش‘‘ کا الزام سابق صدر احمدی نژاد پر دھرتے ہیں۔ جو بھی ہو لیکن مشہد سے شروع ہونے والے مظاہروں کی ’’ٹائمنگ‘‘ اہم ہے۔ ’’بجٹ پلان‘‘ کی اشاعت جس میں مذہبی اداروں کو بھاری فنڈز دیئے جانے کی بات سامنے آئی‘ صدر روحانی نے قدامت پسندوں کے زیرِانتظام اداروں کو کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا جن پر بھاری سرکاری فنڈز خرچ ہو رہے ہیں۔ ماضی کے مقابلے حالیہ مظاہروں میں شرکاء کی تعداد غیرمعمولی طور پر کم رہی‘ اگرچہ یہ مظاہرے ملک کے طول و عرض میں ہوئے۔ یورپی میڈیا ان مظاہروں کو سخت اسلامی قوانین سے بیزاری کے طور پر دکھانے کی کوشش کررہا ہے‘ جس کے لئے سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس اور معروف نیوز ٹیلی ویژن چینلز جو ایک منظر (ویڈیو کلپ) بار بار دکھا رہے ہیں وہ ایک ایسی خاتون کا ہے جو کھلے سر ’اسکارف‘ ہوا میں لہرا رہی ہے۔ ایران میں عوام کی بے چینی‘ مہنگائی‘ بیروزگاری اور گرتا ہوا معیارِ زندگی ایسی حقیقتیں ہیں جن سے انکار ممکن نہیں لیکن جس ملک پر عالمی اقتصادی پابندیاں عائد ہوں اور باوجود محدود مالی وسائل اور اقتصادی آزادی‘ جس ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت ’امت مسلمہ‘ کو یکجا کرنے کی کوششیں بھی کر رہی ہو وہاں اِس قسم کے حالات پیدا ہونا فطری امر ہے۔ اگر ایران کی سیاسی اور مذہبی قیادت پاکستان کی طرح اپنے مفادات کی اسیر ہوتی تو وہ کب کا امریکہ اور اسرائیل گھٹنے ٹیک چکا ہوتا۔ ایک نکتۂ نظر یہ بھی ہے کہ ’’ایران پر عائد پابندیاں معاشی دشواریوں کا سبب ضرور ہیں لیکن اِس کے ساتھ ایرانی حکومت اور مقتدرہ کی پالیسیاں بھی بحران کی وجوہات ہیں۔ 

ایران کے مقتدر حلقے سعودی عرب کے اثر و رسوخ کے مقابلے اور ’انقلاب ایران‘ کو برآمد کرنے کے لئے لبنان‘ شام‘ یمن‘ بحرین اور دیگر ممالک میں بڑے پیمانے پر مالی وسائل خرچ کر رہے ہیں۔‘‘ اِس مؤقف کی حمایت کرنے والے ایرانیوں کی تعداد اگرچہ کم ہے لیکن بہرحال اُن کا وجود موجود ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے حالیہ مظاہروں میں ’جنرل قاسم سلیمانی‘ کی تصاویر نذر آتش کی ہیں جو ایران کے ’’پاسدارانِ انقلاب‘‘ نامی فوجی سربراہ اور شام میں داعش کے خلاف فتوحات کی وجہ سے ’’ہیرو‘‘ تصور کئے جاتے ہیں۔ 

عراق‘ شام‘ یمن‘ لبنان میں اربوں ڈالرز سے اپنے اثرورسوخ اور انقلاب کی حفاظت کو ایرانی عوام اندرون ملک بنیادی اشیاء جیسا کہ انڈے اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے پیوست دیکھتے ہیں! سچ تو یہ ہے کہ ایران میں اگر احتجاج نہ بھی ہوتا تو وہاں پائی جانے والی عمومی بے چینی بہرحال موجود رہتی جس کا تعلق (بنیادی محرک) صرف اُور صرف ’’معاشی حالات‘‘ ہیں‘ جو عشروں سے جاری ’عالمی اقتصادی پابندیوں‘ کا نتیجہ ہیں اور پاکستان کے فیصلہ سازوں کو سوچنا‘ دیکھنا اور سمجھنا چاہئے کہ امریکہ سے براہ راست تصادم کی صورت اگر ’عالمی اقتصادی پابندیاں‘ عائد ہوتی ہیں تو اُس کے معاشی اثرات کس قدر خطرناک اور قابل برداشت ہو سکتے ہیں!
۔

No comments:

Post a Comment