ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
نئی بات: زرعی انقلاب!
گئے وقت کی واپسی اور گزرتے لمحات کو روکنا ممکن نہیں لیکن کم وقت میں بہت کچھ کرنے کی دھن میں قومی وسائل کے ضیاع کا اندیشہ ہے!
خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے گھریلو سطح پر کاشتکاری متعارف کرانے کے لئے ’پچاس لاکھ روپے‘ مختص کرنے اور اِس ’’2 سالہ حکمت عملی (کچن گارڈننگ پروگرام)‘‘ سے دور رس نتائج کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے کیونکہ یہ مربوط اور وسیع نہیں۔ ’ایگری کلچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (پشاور)‘ کی اِس حکمت عملی سے بالخصوص خواتین کو چھوٹے پیمانے پر سبزی کی کاشت کے حوالے سے معلومات فراہم کی جائیں گی۔ حکمت عملی کے تحت ’چار ہزار خواتین‘ کی تربیت کا ارادہ ہے‘ جس کے بعد تربیت یافتہ خواتین اپنے اپنے گھروں سے متصل باغیچوں (کیاریوں) یا گملوں میں کاشتکاری کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔ انہیں سبزی کی اقسام‘ مزاج‘ موسمی اثرات اور مٹی و بیج کی خصوصیات‘ پر مبنی پانچ شعبوں کا دیکھتے ہی دیکھتے ماہر بنا دیا جائے گا۔ محدود پیمانے لیکن وسیع النظری کے ساتھ شروع ہونے والا یہ پروگرام اپنی نوعیت کی منفرد کوشش ضرور قرار دی جا سکتی ہے لیکن یہ تصور نہ تو پہلی بار پیش ہوا ہے اُور نہ ہی زرعی شعبے سے متعلق اِس قسم کی ’سرسری تربیت‘ کا اہتمام کرنے والے کوئی ایسی ’دور کی کوڑی‘ لائے ہیں جس سے خیبرپختونخوا میں ’’زرعی انقلاب‘‘ برپا ہو جائے گا بلکہ ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی سینکڑوں ہزار روپے چٹکیاں بجاتے ختم (تحلیل) ہو جائیں گے اُور حاصل (مطلوبہ) نتائج فائلوں میں دم توڑ جائیں گے۔ پھر کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ اِس قسم کا کوئی پروگرام کبھی شروع بھی ہوا تھا یا نہیں۔ طریقۂ واردات وہی اختیار کیا جائے گا کہ پچاس لاکھ روپے کا بڑا حصہ تشہیری مہمات اُور تربیتی مواد کی اشاعت کی نذر کر دیا جائے گا اور کسی حکومتی ادارے کے لئے دو سال تو کیا دو ماہ میں بھی پچاس لاکھ روپے ’اِدھر اُدھر‘ کرنا (ڈکارنا) کوئی مشکل کام نہیں!
یہ تو کمال مہربانی کا مظاہرہ کیا گیا ہے کہ جو ’دوسال‘ کا عرصہ مقرر کر دیا گیا ہے حالانکہ موجودہ حکومت کے پاس گنتی کے چند ماہ ہی باقی ہیں اور آئندہ کی صوبائی حکومت حسب سیاسی روایت ماضی کے مردے اُکھاڑنے کی بجائے ’جمہوریت کے استحکام‘ کے لئے کسی ایسی حکمت عملی اور اُس کی کارکردگی کا احتساب نہیں کرے گی‘ جو لاکھوں روپے ڈکار گیا ہو۔ سیاسی حکومتوں کی جانب سے ماضی میں ہوئی بے قاعدگیوں کی تفتیش اور چھان بین نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اُن کے بعد آنے والے بھی ایسا ہی کرتے ہوئے ’’سلسلہ ہائے روزشب جاری رکھے جائیں گے‘ جس کا نتیجہ ترقئ معکوس کی صورت ظاہر ہے!
حیرت انگیز طور پر ہمارے ہاں ’کچن گارڈننگ‘ ایک ایسا ’نظراَنداز شُعبہ‘ ہے جس میں غیرسرکاری تنظیموں (این جی اُوز) اُور زراعت سے متعلق ہمارے سرکاری اِداروں کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے حالانکہ اگر حکومتی اِدارے چاہتے تو بالخصوص شہری علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر ’سبزی اور پھلوں کی کاشت‘ اب تک نہ صرف متعارف بلکہ ترقی یافتہ شکل اختیار کر چکی ہوتی۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے سکولوں میں ناچ گانے اور جدید فیشن سے متعلق ملبوسات کی نمائش سے لیکر جوش خطابت کے جوہر دکھانے تک طلباء و طالبات کے درمیان مقابلے باقاعدگی اور فخریہ طور پر باقاعدگی سے منعقدکئے جاتے ہیں لیکن زراعت سے متعلق تربیتی سرگرمیاں نہ تو شامل نصاب اور نہ ہی ہم نصابی معمولات کا حصہ ہیں!
کچن گارڈننگ کو ’عمودی (vertical) زراعت‘ بھی کہا جاتا ہے جو ’اُفقی (horizental) کاشتکاری‘ کے عمومی طریقۂ کار کے مقابلے کم جگہ اور کم مالی وسائل سے ممکن ہوتی ہے‘ بالخصوص شہری علاقوں میں جہاں زمین کی کمی ہو‘ اِس قسم کی زراعت سے کسی ایک گھر (خاندان) کی ضروریات کے لئے سارا سال موسمی اور غیرموسمی سبزی حاصل کی جا سکتی ہے۔ مغربی ممالک‘ عرب ریاستوں‘ بھارت اور چین میں ’کچن گارڈننگ‘ علوم کی ترقی یافتہ اشکال دکھائی دیتی ہیں‘ جہاں ہر سال ’تیس اگست‘ کو ’کچن گارڈننگ‘ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ کثیرالمنزلہ رہائشی و تجارتی عمارتوں کی چھتوں اور بالکونیوں میں ’ہریالی‘ دکھائی دیتی ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے ہاں کھیت اجڑ رہے ہیں اور ذرائع ابلاغ سے لیکر عمومی و خصوصی حکومتی روئیوں تک کچھ بھی ’زراعت دوست‘ نہیں۔ زرعی شعبے کی بدحالی اُس انتہاء کو پہنچ چکی ہے جہاں کاشتکاری قریب منافع بخش نہیں رہی۔ چھوٹے کاشتکاروں کو تو خون پسینہ بہانے کے عوض اکثر اس قدر معاوضہ بھی نہیں ملتا جو کسی فصل کی پیداواری لاگت ہوتی ہے۔
حال ہی میں خیبرپختونخوا‘ پنجاب اور سندھ میں گنے کے کاشتکار سراپا احتجاج رہے‘ جنہیں بدترین پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اُن کا جرم صرف اور صرف یہ تھا کہ وہ حکومت کے مقرر کردہ نرخ کے مطابق گنے کی فروخت چاہتے تھے جبکہ شوگرملز مالکان کاشتکاروں کے استحصال کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ قانون ساز ادارے کاشتکاروں کی بجائے شوگرملز مالکان کے مفادات کے محافظ بنے ہوئے ہیں! پاکستان کی اگر ’ستر فیصد آبادی ’زرعی معیشت و معاشرت‘ سے وابستہ ہے اُور اِس زمینی حقیقت کا سیاسی فیصلہ سازوں کو بخوبی علم ہونے کے باوجود بھی ’تجاہل عارفانہ‘ ترک نہیں کیا جارہا تو اِس کے سنگین نتائج پر حیران ہونے کی قطعی ضرورت نہیں جو ہمارے اِردگرد ’رونما‘ ہو رہے ہیں اور زرخیز زرعی اراضیاں بے ترتیب ’ہاؤسنگ کالونیوں (رہائشی بستیوں)‘ میں تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف قومی دلچسپیاں اور شوق بھی ملاحظہ کیجئے جو زمینی حقائق سے سراسر متصادم ہیں۔ قومی و علاقائی اخبارات پر نظر کریں جن میں ہر روز فلمی فنکاروں اور اُن کھیل‘ کھلاڑیوں سے متعلق رنگین (دیدہ زیب) صفحات ’’بااہتمام خاص‘‘ شائع ہوتے ہیں‘ جو کھیل ہمارے ہاں کھیلے بھی نہیں جاتے اُن کے بارے میں خبریں اور تبصرے سنائے جاتے ہیں لیکن زراعت کے لئے کوئی ایک بھی اَخبار یا نجی ٹیلی ویژن چینل اپنا قیمتی وقت یا افرادی و دیگر وسائل (توانائیاں) مختص کرنے کو تیار (آمادہ) نہیں۔ ’زراعت سے لگاؤ‘ اُور ’زراعت سے دلچسپی‘ پیدا کرنے کے لئے مربوط کوششیں کرنا ہوں گی۔
’کچن گارڈننگ‘ سے متعلق مضامین جب تک ’نصاب تعلیم‘ کا حصہ (جز) نہیں بنا دیئے جاتے اُس وقت تک ایسی کسی بھی کوشش کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ زراعت اور ماحولیاتی تبدیلیوں بارے سوچنے‘ بولنے‘ لکھنے اور تجزئیات کے علاؤہ شہری اُور بالخصوص دیہی علاقوں کے سرکاری سکولوں میں ’زرعی تربیتی مراکز (فارمنگ اَیٹ سکول)‘ قائم کرنے جیسے اِنقلابی اِقدام کی ضرورت ہے‘ جو غذائی خودکفالت حاصل کرنے کے لئے حسب حال اُور پائیدار ترقی جیسے اہداف کے حصول کی جانب پہلا قدم ہوگا۔
No comments:
Post a Comment