مہمان کالم
mehmancolumn@gmail.com
مسائل: سبق آموز کہانیاں!
تاریخ کے سفر میں پیش آنے والے واقعات ہمارے اردگرد بکھرے پڑے ہیں اور ایسی کئی ایک کہانیاں ہیں‘ جو کتابوں میں تو درج نہیں لیکن سینہ بہ سینہ سرایت کر رہی ہیں۔ جیسا کہ دنیا کے چند ممالک ایسے بھی ہیں کہ جہاں کے رہنے والے توانائی بحران‘ غربت و مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل سے دوچار ہیں اور اِن مسائل سے جنم لینی والی کہانیاں نسل در نسل منتقل ہو رہی ہیں تاہم ’’سبق آموز کہانیوں‘‘ کی بدقسمتی یہ ہے کہ اِن سے بہت کم لوگ سبق حاصل کرتے ہیں لیکن پھر بھی ’’داستان گو‘‘ اِن کے بیان سے باز نہیں آ رہے!
مقبول کہانیوں میں ’’چالاک کوا‘‘ سرفہرست شمار کیا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک کوا بہت پیاسا تھا۔ وہ پانی کی تلاش میں یہاں وہاں بھٹک رہا تھا کہ اس دوران اس کو کئی مٹکے نظر آئے مگر وہ گھڑے کا پانی پینے والا کوا نہیں تھا۔ وہ جدید دور کا کوا تھا‘ اُسے کسی ریفریجریٹر کی تلاش تھی۔ آخر اسے ایک فریج نظر آ گیا۔ وہ لپک کر اس کے پاس پہنچا مگر بجلی نہیں تھی اور ریفریجریٹر بند پڑا تھا۔ کوا بجلی گھرگیا اور بجلی ٹھیک کرنے کی درخواست دی۔ اس کی درخواست میز در میز رسوا ہوتی رہی لیکن کوے کی شنوائی نہ ہوئی۔ کوا بڑا چالاک تھا۔ وہ سارا دن منڈیروں پر بیٹھ کر انسانوں کے کرتوت دیکھتا تھا اور ان کی خصلتوں اور خباثتوں سے خوب واقف تھا لہٰذا وہ اڑ کر گیا اور لال‘ نیلے نوٹ لا لا کر لائن مین کی جیب میں ڈالنے لگا‘ یہاں تک کہ اس کی جیب بھر گئی۔ لائن مین فوراً گیا اور بجلی بحال کر دی۔ چالاک کوے نے فریج سے ٹھنڈا پانی پیا اور طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اُڑ گیا۔ سبق: نہ باپ کرے نہ بھیا‘ جو کام کرے روپیہ۔
تاریخ کے مطالعے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ہر دور کا سب سے مقبول مطالبہ انصاف رہا ہے‘ اِسی سے متعلق ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک پر عادل بادشاہ کی حکومت قائم ہو گئی۔ بادشاہ عدل و انصاف کا دلدادہ تھا اور رعایا کو سستا اور فوری انصاف مہیا کرنے کا شوقین بھی۔ رعایا ان باتوں کی عادی نہ تھی لہٰذا اس کو اکثر بد ہضمی کی شکایت رہنے لگی لیکن بادشاہ وقت انصاف کرنے سے باز نہ آیا۔ اُس کے عدل کا ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک دن بادشاہ کو پرانا دوست ملنے کے لئے آیا (جس کے ساتھ مل کر بادشاہ کبھی وارداتیں کیا کرتا تھا) اور اپنے میٹرک پاس بیٹے کے لئے نوکری کی درخواست کی۔ بادشاہ نے وزیرِ خاص (جس کی ڈگری بعد میں جعلی ثابت ہوئی ) کو حکم دیا کہ ’’بچے کو سول ہسپتال میں سرجن لگا دو۔‘‘ وزیرِ خاص ہکا بکا رہ گیا۔ ’’عالی جاہ! تو پھر پہلے سے موجود سرجن کا کیا کروں؟‘‘ حکم ہوا ’’اسے تھانیدارلگا دو۔‘‘ وزیر نے پھر دہائی دی‘ ’’تھانیدار کو کہاں بھیجوں؟‘‘ اُسے جیل میں ڈال دو بادشاہ نے زچ ہو کر کہا۔ درباری نورتن (جنہیں مخالفین کفن چور ٹولہ کہتے تھے) اس فیصلے پر عش عش کر اٹھے۔ بادشاہ اس مقولے کا قائل تھا کہ اختیارات سنبھال کر رکھنے کی چیز نہیں ہوتے بلکہ خوب استعمال کرنے کے لئے ہوتے ہیں چنانچہ وہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اختیارات استعمال کرنے کا کوئی موقع ضائع نہ کرتا۔ وہی بادشاہ ایک دن دربار لگائے بیٹھا تھا کہ ایک خوش الحان مغنیہ دربار میں نغمہ سرا تھی کہ اس دوران انصاف کا وقت ہو گیا۔ وزیر انصاف (جو تازہ تازہ جیل سے رہا ہو کر آیا تھا) نے بادشاہ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔ بادشاہ نے گانا عارضی طور پر روک دیا اور ملزمان کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ ملزمان کا ریوڑ دربار میں پیش ہوا تو بادشاہ نے چھڑی کے اشارے سے انہیں دو حصوں میں بٹ جانے کا حکم دیا چنانچہ نصف ملزمان دائیں اور باقی بائیں طرف ہو کر کھڑے ہو گئے۔ بادشاہ نے تمام مقدمات کا مختصرمگر عقل شکن فیصلہ سنایا کہ ’’دائیں طرف والے سارے بری جبکہ بائیں طرف والے تمام ملزم سزائے موت۔‘‘ درباری بیربلوں اور ملا دو پیازوں نے اس سستے اور فوری انصاف پر داد کے ڈونگرے برسائے اور گانے کا سلسلہ وہیں سے شروع ہو گیا‘ جہاں سے ٹوٹا تھا۔ اِس کہانی سے سبق یہ ملا کہ ’’سستا اور فوری انصاف ہی قوموں کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔‘‘
کہانیاں بچوں کی کردارسازی کرتی ہیں لیکن چونکہ اب کہانیاں سننے اور سنانے کی فرصت نہیں رہی اِس لئے معاشرتی اور سماجی مسائل پیدا ہو رہے ہیں جن میں جلدبازی بھی شامل ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں ایک چوہدری رہتا تھا۔ اس کے ساتھ حویلی میں ایک ملازم خاص (میراثی) بھی رہائش پذیر تھا۔ مالک اور نوکر ایک ایسی سست الوجود قوم سے تعلق رکھتے تھے جو ٹھہرے ہوئے‘ پر سکون مزاج کی مالک تھی اور آج کا کام کل پر چھوڑنے کی عادی تھی۔ ایک دن چوہدری پکوڑے کھانے کے بعد اخبار سے بنے لفافے کے مطالعہ میں مصروف تھا کہ اس نے خبر پڑھی کہ محکمہ زراعت نے جدید پیوند کاری کے ذریعے گندم کا ایسا بیج ایجاد کیا ہے جو دگنی فصل دیتا ہے۔
چوہدری نے ملازمین کو اکٹھا کر کے نئے بیج کے متعلق صلاح مشورہ شروع کیا۔ صلاح مشورے کی مختلف نشستیں جاری رہیں اورآخر ایک سال بعد گندم کا بیج مذکورہ بونے کا فیصلہ ہو گیا۔ فصل بونے کا موسم قریب آیا تو چوہدری نے ملازم خاص کو بیج لانے کے لئے شہر بھیجا۔ میراثی شہر پہنچا تو تھک چکا تھا۔ وہ شہر میں اپنے ایک عزیز کے گھر گیا تاکہ چند دن آرام کر کے سفر کی تھکاوٹ دور کرے اور بیج خرید کر واپسی کا قصد کرے۔ میراثی کو شہر میں مختلف عزیزوں اور دوستوں کے ہاں آرام کرتے اور ’’بتیاں شتیاں‘‘ دیکھتے ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔ آخر جب دوبارہ فصل کاشت کرنے کا موسم آیا تو چوہدری کو میراثی کی یاد آئی۔ اس نے ایک اور نوکر کو شہر بھیجا تاکہ میراثی کو ڈھونڈ کر لائے۔ در اصل چوہدری کو روایت سے ہٹ کر فصل بونے کی جلدی پڑگئی تھی (جیسے کچھ لوگوں کوبجلی چوروں کے خلاف کاروائی کرنے کی جلدی ہوتی ہے)۔ نوکر نے بڑی مشکل سے میراثی کو شہر میں تلاش کیا اور چوہدری کا پیغام پہنچایا۔ میراثی جب بیج کی بوری کمر پر اٹھائے گاؤں پہنچا تو بارش کے باعث ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ تھا۔ وہ حویلی کے گیٹ سے داخل ہوا تو اس کا پاؤں پھسلا اور وہ دھڑام سے بوری سمیت گر گیا۔
بوری پھٹ گئی اور سارا بیج کیچڑ میں بکھر گیا۔ چوہدری نے آگے بڑھ کر میراثی کو اٹھانا چاہا تو وہ کیچڑ میں لیٹے لیٹے ہاتھ کھڑا کر کے بولا ’’بس رہنے دیں چوہدری صاحب! آپ کی جلد بازیوں نے ہمیں مارڈالا ہے‘‘۔ چوہدری پر گھڑوں پانی پڑ گیا اور اسے اپنی غیر حکیمانہ عجلت پر سخت ندامت ہوئی۔ اِس کہانی سبق یہ ملا کہ جلد بازی ’’شیطانی کام‘‘ ہے‘ چاہے وہ فصل بونے کی صورت ہو یا کالا باغ ڈیم جیسے بڑے آبی ذخائر بنانے میں۔ دہشت گردی ختم کرنے میں بھی جلدبازی ضروری نہیں اور نہ ہی بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ‘ مہنگائی‘ ملاوٹ‘ پر قابو پانے میں جلدبازی ہونی چاہئے!
۔
![]() |
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-01-11 |
No comments:
Post a Comment