ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پورا‘ اعزاز: پوری عزت !
سولہ دسمبر دوہزار چودہ کے بدقسمت دن‘ آرمی پبلک سکول (پشاور) پر ہوئے دہشت گرد حملے نے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ باضمیر دنیا کے ہر حساس شخص کو ہلا کر رکھ دیا۔ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے اور یہ حقیقت آج بھی دنیا کے سامنے رکھنے میں ہمارے فیصلہ ساز ناکام و بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ سانحۂ آرمی پبلک سکول کے بعد ’انسداد دہشت گردی کی قومی حکمت عملی بنائی گئی تو اِس پر عمل درآمد بھی محدود دکھائی دیتا ہے اُور اِس مسئلے پر قومی و صوبائی فیصلہ سازوں کی جانب خاطرخواہ حساسیت کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ یہی وہ محرک ہے جس کی وجہ سے ’سانحہ آرمی پبلک سکول‘ کے زخم ہنوز تازہ ہیں اور اُن کی آنکھوں سے گرتے بے ترتیب آنسو آج بھی التجا کر رہے ہیں کہ معصوم بچوں کی قربانیوں کو باوقار انداز میں خراج تحسین پیش کیا جائے!
دہشت گردی کا شکار ہونے والے بچوں کی نمائندگی کرنے والے والدین نے عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) سے رجوع کر رکھا ہے تاکہ صوبائی حکومت مذکورہ سانحے کی یاد میں تعمیر کرنے والی یادگار کا افتتاح نہ کرے۔ اِس سلسلے میں عدالت نے ’حکم امتناعی‘ جاری کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو ایسی کسی بھی یادگار کی سرکاری سطح پر رونمائی اُور اِفتتاح سے روک دیا ہے کیونکہ متاثرہ والدین کا مؤقف ہے کہ صوبائی حکومت نے جس انداز سے یادگار تعمیر کی ہے‘ وہ محض خانہ پُری ہے جس سے اُن کے بچوں کی قربانیوں کو خاطرخواہ ’خراج تحسین‘ نہیں مل پائے گا اُورعدالت اِس بات سے متفق ہے یا نہیں اِس کا فیصلہ آئندہ چند ہفتوں میں متوقع ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس محمد غضنفر خان نے ’نو جنوری‘ کے روز ’فضل خان ایڈوکیٹ‘ کی دائر درخواست پر غور کیا‘ جن کا اپنا بیٹا شہزادہ عمر خان ’سولہ دسمبر دوہزارچودہ‘ کے روز شہید ہونے والے طالب علموں میں شامل تھا۔ صوبائی حکومت کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ عدالت کے روبرو پیش ہو کر وضاحت کرے کہ سانحہ اے پی ایس کی یادگار کے لئے جو ’ڈیڑھ کروڑ روپے‘ مختص کئے گئے۔ یہ پوری رقم مذکورہ صرف اور صرف یادگار کی تعمیر پر خرچ کیوں نہیں کی گئی؟ یہ بنیادی سوال اپنے اندر کئی سوالات بھی رکھتا ہے جس سے سرکاری تعمیراتی کاموں کی منظوری کے عمل‘ ترجیحات کی بعدازاں تبدیلی اور صوابدیدی اختیارات کی وجہ سے نظام میں در آنے والی خرابیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد توقع یہ تھی کہ خیبرپختونخوا میں تبدیلی کا جو سورج طلوع ہوا ہے اُس کے دم کرم سے روائتی بدعنوانی کا باب ختم ہو جائے گا اور بالخصوص ترقیاتی کاموں کے نگران اداروں کا قبلہ درست کر دیا جائے گا لیکن نہ تو حسب وعدہ بلاامتیاز اور احتساب کا کڑا عمل شروع ہو سکا اور نہ ہی انتظامی عہدوں پر سرکاری ملازمین کی مالی حیثیت کے بارے تحقیقات کا آغاز ہوسکا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ خیبرپختونخوا میں صوبائی سطح پر احتساب سب سے کم ترین ترجیح رکھتا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔
صوبائی حکومت نے کئی نادر مواقع ضائع کئے جن سے باآسانی عوام کے نظروں میں بلند مقام حاصل کیا جاسکتا تھا۔ حالیہ کیس میں جسٹس قیصر رشید کے ریمارکس میں چھپا دکھ اور تشویش سے اختلاف ممکن نہیں جنہوں نے کہا کہ ’’آرمی پبلک سکول کے بچوں کی یاد اور ان کی قربانیوں پر پوری قوم شاہد ہے اور جنہیں پورا‘ اعزاز اور پوری عزت ملی چاہئے۔‘‘ اس میں کوئی دو رائے نہیں اور نہ ہی شک کی گنجائش ہے سانحۂ آرمی پبلک سکول کے بچوں کو خراج تحسین اُن کے والدین کی تسلی و تشفی اور پورے وقار سے ہونا چاہئے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی مذکورہ یادگار پلاسٹک اور فائبر گلاس مٹیریل سے بنائی گئی ہے‘ اور یہ دونوں میٹریل کم قیمت بھی ہیں اور اِن کی پائیداری بھی کم عرصے کے لئے ہوتی ہے۔ جس سے یہ عمومی تاثر اُبھرا ہے کہ اِس تعمیراتی کام کے لئے مختص ’ڈیڑھ کروڑ روپے‘ کی رقم کا بڑا حصہ خردبرد ہوا ہے۔ عدالت کے سامنے پیش کئے جانے والے حقائق سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ یادگار کی تعمیر کے لئے تخمینہ جات پر نظرثانی کرتے ہوئے اِسے ڈیڑھ کروڑ روپے سے چھیساسٹھ لاکھ اور بعدازاں لائبریری کے لئے کتابوں کی خرید کو بھی یادگار کے تعمیراتی منصوبے کا حصہ بنادیا گیا اور یوں صوابدیدی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے یادگار سے زیادہ پیسے یعنی چوراسی لاکھ روپے کی کتب خریدنے کی منظوری دے دی گئی۔ وہ ترقیاتی کام جو اپنی اصل شکل میں کابینہ اور اسمبلی سے منصوبہ ہوا‘ اُس میں بعدازاں ردوبدل نہیں ہونا چاہئے تھا۔ افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ متاثرہ بچوں کے والدین نے ’معلومات تک رسائی‘ کے قانون کے ذڑیعے اِس منصوبے کی تفصیلات طلب کیں تو متعلقہ ادارے نے اُن تفصیلات کا تبادلہ کرنے سے بھی انکار کیا‘ جس سے متعلقہ والدین میں تشویش (شکوک و شبہات) کا پیدا ہونا ایک فطری عمل تھا۔ شیرشاہ سوری روڈ پر ’آرکائیوز لائبریری‘ کے سامنے تعمیر اِس یادگار سے متعلق آئندہ سماعت ’بارہ جنوری‘ کو ہوگی۔
سانحۂ ’اے پی ایس‘ کی یادگار تعمیر نہ بھی ہوتی تو اُن پھول جیسے بچوں اور فرض شناس اساتذہ کی ’’یاد‘‘ پشاور اور پاکستان کے دل سے محو نہیں ہو سکتی تھی‘ چہ جائیکہ صوبائی حکومت اِس غم اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے اور اس میں برابر کی شریک ہونے کی بجائے ملزم بن گئی ہے اور بدقسمتی سے ایک ایسے معاملے کو بھی متنازعہ بنادیا گیا ہے جو خالصتاً انسانی ہمدردی اور پوری قوم کے جذبات سے متعلق ہے۔ اصولی طور پر متاثرہ والدین اور سکول انتظامیہ کو یادگار کی تعمیر کے عمل میں شریک ہونا چاہئے تھا۔ تہہ در تہہ مشاورت کا عمل ہوتا۔ سکول ہی کے بچوں کے ذریعے ڈیزائن اور اُس کے خدوخال طے ہوتے تو کسی کو بھی عدالت سے رجوع‘ حکم امتناعی حاصل کرنے اور اِس بارے میں غلط فہمی نہ ہوتی۔
سوشل میڈیا جیسے قیمتی اور مفت وسیلے کے استعمال کا امکان بھی اپنی جگہ موجود تھا‘ جس کے ذریعے پورے ملک سے ’تجاویز‘ حاصل کی جاسکتی تھیں لیکن شاید خود کو ’عقل کل‘ سمجھنے والوں کو اب احساس ہو چکا ہوگا کہ اُن کے ساڑھے چار سالہ اقتدار میں خیبرپختونخوا آج بھی ’اچھے اور مثالی طرز حکمرانی (گڈگورننس) سے اتنے ہی فاصلے پر ہے‘ جہاں مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل کھڑا تھا!
No comments:
Post a Comment