مہمان کالم
دُور کے دُکھ!
پاکستان کبھی بھی کمزور طبقات کے لئے محفوظ ملک نہیں رہا‘ یہاں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس رہتی ہے۔ مغربی ممالک میں معاشرے اور حکومت کی پہلی ترجیح بچے‘ دوسری ترجیح خواتین اور تیسری ترجیح معمر افراد ہوتے ہیں‘ جن کے بعد دیگر طبقات کے حقوق کی ادائیگی لازم سمجھی جاتی ہے لیکن چونکہ یہ عمل اِس قدر مربوط اور تیزرفتار ہوتا ہے کہ وہاں کوئی ایک طبقہ بھی محروم دکھائی نہیں دیتا۔
قانون اور انصاف کا اطلاق سب پر یکساں بلکہ فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کرداروں پر سب سے زیادہ ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں اور گنگا اُلٹی بہہ رہی ہے۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی ایک بھی ایسا بڑا شہر ہوگا جہاں بچوں کے اغواء اور گمشدگی کے واقعات ایک تواتر سے رونما (رپورٹ) نہ ہوتے ہوں لیکن کیا مجال ہے جو ہمارے سیاسی فیصلہ سازوں کے کان پر جوں بھی رینگتی ہو۔ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت پر درجنوں پولیس اہلکاروں تعینات کرنے والوں کو عام آدمی (ہم عوام) کی حالت سے کیا غرض۔ کاش کہ اِس حساس موقع پر یہ باریک نکتہ سمجھ لیا جائے۔ بچے غیرمحفوظ ہیں تو اِس صورتحال میں معاشرے کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اور اپنے گردوپیش میں بچوں کی حفاظت کے لئے ذمہ دارانہ اور سرپرستانہ کردار اَدا کرے۔
حالیہ ’قصور سانحے‘ کے بعد سے بالخصوص کئی بچوں کے والدین فکرمند ہیں۔ متعلقہ شعبے کے ماہرین اور باشعور سرپرستوں کی جانب سے بچوں کی حفاظت سے متعلق احتیاطی تدابیر ’سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس (ٹوئٹر اور فیس بک) پر زیرگردش ہیں‘ اُور اِس موضوع پر ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے والدین حصہ لے رہے ہیں لیکن تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور اساتذہ کی حاضری سب سے کم ہے‘ جبکہ اِن کا کردار یکساں اہم ہے۔ افسوس ذرائع ابلاغ کی بھیڑ چال پر بھی ہے کہ ایسے نازک موقع پر بھی بچوں کی حفاظت بارے معلومات کی تشہیر نہیں کی جا رہی جس سے معاشرے کی عمومی و خصوصی سطح پر حفاظت کا معیار کم
سے کم ایک درجہ ہی بلند ہو۔
پہلی ہدایت بچوں کو صرف گھر سے باہر ہی نہیں بلکہ گھر کے اندر بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اگر بچوں کو کم یا زیادہ دورانیے کے لئے گھر پر اکیلا چھوڑا جائے تو ایسا کرنے سے پہلے بنیادی انتظام کے طور پر گھر کے دروازے اندر سے بند کر دینے چاہیءں۔ گھر میں داخلی دروازے پر ایسے تالے لگائے جائیں جنہیں چابی کے ذریعے باہر سے بھی کھولا جا سکے لیکن وہ نظر نہ آئیں تاکہ بچوں کے گھر پر اکیلا ہونے کی اطلاع نہ ہو سکے۔ بچوں کی رہنمائی کریں کہ وہ کسی بھی صورت میں اَزخود دروازہ کھولنے میں پہل نہ کریں۔ گھر پر والدین یا بڑوں کی موجودگی یا عدم موجودگی دونوں صورتوں کے لئے ہدایات بچوں کو ازبر ہونی چاہیءں اور دروازہ کھولنے کا کام ہمیشہ بڑے خود کریں یا اپنی نگرانی میں کروائیں۔ بچوں کو گھریلو ملازمین کے اوقات کیا ہیں اور خاندان کے کس کس فرد کے لئے وہ دروازہ کھول اور کس کے لئے نہیں کھول سکتے۔ اِس بات کا فیصلہ صرف والدین یا سرپرست ہی بہتر طور پر کرسکتے ہیں کہ انہیں کن لوگوں کی اپنے بچوں کے پاس موجودگی پر اعتبار ہے۔ اِس بات کو یقینی بنائیں کہ بچوں کے گھروں پر معلم (ٹیوٹر)‘ ملازمین‘ دور کے رشتے داروں وغیرہ سے واقفیت سطحی نہ ہو اور آپ ایمرجنسی کی صورت میں اُن تک پہنچ سکیں۔ اِس کے علاؤہ آپ کے پاس اُن تمام افراد سے رابطے کی تفصیلات بھی ہونی چاہیءں جو آپ کے گھر میں آپ کے بچوں کی موجودگی میں باقاعدگی سے آتے ہیں۔ اِس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ بچوں سے میل جول رکھنے والوں کو آپ بخوبی جانتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ان سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ اِس بات کے قواعد بنائیں کہ گھر میں آپ کی اجازت کے بغیر کون کون نہیں آسکتا (بھلے ہی آپ گھر موجود بھی ہوں۔)
دوسری ہدایت گھر سے باہر (بیرونی) خطرات سے متعلق ہے۔ سبزہ زاروں‘ خریداری کے مراکز (شاپنگ مالز) بازاروں اُور تعلیمی اِداروں میں جو بات (قدر) مشترک ہوتی ہے‘ وہ یہ کہ ہے وہاں اجنبیوں کا ہجوم رہتا ہے اور نظر رکھنے آسان نہیں ہوتا۔ نتیجتاً جرائم پیشہ افراد کے لئے واردات کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے لہٰذا والدین اور سرپرستوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے پبلک مقامات پر بچوں کو ہمہ وقت ہمراہ رکھیں۔
تیسری ہدایت تعلیمی اِداروں کو آمدورفت سے متعلق ہے۔ بچہ چاہے آپ کے ملازم (ڈرائیور) کے ہمراہ سکول جائے یا وہ کسی مستقل پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کر رہا ہو‘ ہر دو صورتوں میں والدین یا سرپرستوں کی نظر رہنی چاہیءں۔ ذرا سی غفلت اور لاپرواہی بچے کی زندگی اور عادات کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ چند ہزار روپے کے عوض ہاتھ پر باندھنے والی ایسی گھڑیاں موبائل فون کمپنیوں کے دفاتر (فرنچائزیز) یا مارکیٹ سے خریدی جا سکتی ہیں جن کے ذریعے والدین بچوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو اُنہیں علم میں لائے بغیر آس پاس کی آوازیں بھی سن سکتے ہیں۔ بچے سکول کی حدود سے گھر تک کے سفر میں کسی خاص مقام یا سڑک سے آگے پیچھے نہ ہوں اِس کی نگرانی بھی مذکورہ آلات سے باآسانی ممکن ہے‘ جسے ’جیو فینسنگ‘ کہا جاتا ہے۔ گھروں کی طرح گاڑیوں میں نگرانی کے (سی سی ٹی وی) کیمرے لگائے جاسکتے ہیں۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ والدین اپنی اپنی مالی حیثیت کے مطابق بچوں کی حفاظت کا ازخود بندوبست کریں۔ معاشرے اور ریاستی اداروں پر اعتماد کرنا ایک ایسی غلطی ہوگی‘ جس کے نتائج ہمارے سامنے تذکرہ ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں ’’دُور کے دُکھ‘‘ سمجھ کر چند گھڑی افسوس کے اظہار سے زیادہ ردعمل کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
بچوں سے زیادہ قیمتی کوئی دوسرے شے نہیں اور بچوں کو (خدانخواستہ) پہنچنے والی کسی بھی اذیت سے زیادہ کوئی بھی دوسرا نقصان (خسارہ) نہیں ہوسکتا۔ احتیاط ہی موجودہ ہنگامی حالات میں بہترین تدبیر ہے۔ بچوں کی ضروریات پوری کرنے سے لیکر اُن کی تعلیم‘ تربیت جیسے ذمہ داریوں میں ’حفاظت و نگرانی‘ کو بھی شامل کرلیجئے جو وقت کی ضرورت ہے۔ اجتماعی سطح پر ہمیں اُن معمولات کو بھی ترک کرنا ہوگا‘ جن پر احتیاط کا عنصر غالب نہیں جیسا کہ سودا سلف لانے کے لئے چھوٹے بچوں کو بھیجنا ایک ایسا معمول ہے جو دیہی و شہری علاقوں میں عام ہے جبکہ سیکورٹی کی غیریقینی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے والدین کو سوچنا ہوگا کہ معمولی عمومی ضروریات کے لئے بچوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنا کہاں کی دانشمندی ہے؟
No comments:
Post a Comment