ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
برن یونٹ: آخر کب تک؟
خیبرپختونخوا میں طرزِحکمرانی کا خلاصہ (لب لباب) یہ ہے کہ علاج معالجے جیسی بنیادی ضروریات بھی اب ’عدالت (کورٹ) احکامات‘ کی تعمیل میں فراہم کی جائیں گی! چھ جنوری ’’برن یونٹ‘ ہنوز ندارد‘‘ کے عنوان سے خیبرپختونخوا میں آگ سے جلے ہوئے مریضوں کے لئے ناکافی سہولیات اور جس معیار و مقدار کا ذکر کیا گیا‘ وہ معاملہ ’پشاور ہائی کورٹ‘ تک جا پہنچا ہے! محرک یہ ہے کہ گھریلو تنازعہ سے دل برداشتہ ایک خاتون اندرون شہر ’تھانہ کوتوالی‘ میں داخل ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے مبینہ طور پر خود کو آگ لگا دی‘ اِس سے قبل کہ موقع پر موجود پولیس اہلکار اُسے روک پاتے مذکورہ خاتون کے جسم کا 98 فیصد جل چکا تھا‘ چونکہ پشاور میں ’آگ سے جلے ہوئے ایسے مریضوں کے علاج کا خاطرخواہ بندوبست نہیں‘ اِس لئے اُسے کئی گھٹنوں (کم و بیش 200 کلومیٹر) کی مسافت پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچایا گیا۔ تاہم لمحۂ فکریہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں صرف چالیس فیصد تک آگ سے جلے مریضوں کا علاج ممکن ہے۔ دہشت گردی سے متاثرہ خیبرپختونخوا میں ’جدید سہولیات پر مبنی برن یونٹ یا ہسپتال‘ کا نہ ہونا مجرمانہ غفلت اور سیاسی فیصلہ سازوں کی غلط ترجیحات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پشاور کی عدالت عالیہ نے اِس صورتحال پر برہمی کے لہجے میں تعجب کا اظہار بھی کیا ہے جس سے اُمید پیدا ہو گئی ہے کہ صوبائی حکمران فوری طور پر اپنی تمام تر توجہ اور مالی وسائل ’برن ہسپتال‘ کی تعمیر کے لئے مختص کر دیں گے!
پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ (جسٹس قیصر رشید اور جسٹس غضنفر خان) نے (دس جنوری کے روز) ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ’برن یونٹ کی عدم دستیابی‘ کے حوالے سے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ درحقیقت زیرسماعت مقدمہ (قضیہ) ’برن یونٹ‘ کا نہیں بلکہ خیبرٹیچنگ ہسپتال (المعروف شیرپاؤ ہسپتال) میں ’نیوروسرجری وارڈ‘ کی سست رفتار تعمیرات سے متعلق ہے‘ لیکن جب متعلقہ اعلیٰ حکام عدالت کے روبرو پیش ہوئے تو جسٹس قیصر نے ضمنی طور پر یہ بات بھی پوچھ لی کہ ’’پشاور میں ’برن ہسپتال‘ کب تک (آخر کب تک) مکمل ہو جائے گا؟‘‘ وہ ایک تلخ حقیقت جس سے سالانہ سینکڑوں مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُور خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے آگ سے جلے اَفراد کی اَموات کا تناسب بھی اِسی وجہ سے زیادہ ہے کہ اِنہیں علاج معالجے کے لئے سہولیات فوری طور پر میسر نہیں آتیں۔ مقام تشکر ہے کہ عدالت عالیہ نے محسوس کیا ہے کہ ’’خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے مریضوں کو صوبہ پنجاب کے مختلف ہسپتالوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور سفری و دیگر علاج معالجے کے اخراجات کے علاؤہ بہت سے مریض مسافت کے دورانیئے کو برداشت نہیں کر پاتے اور راستے ہی میں دم توڑ دیتے ہیں!‘‘
عدالت کے روبرو گریڈ بیس کے اہلکار ’’محمد عابد مجید‘‘ حاضر تھے‘ جو سولہ مارچ دوہزار سولہ (665 دنوں) سے بطور ’سیکرٹری ہیلتھ خیبرپختونخوا‘ تعینات ہیں اُور انہوں نے پورے اعتماد سے (بناء ہانپتے کانپتے یا شرمندگی و معذرت کے اظہار) عدالت کو بتایا کہ ’جون دوہزار اٹھارہ‘ تک پشاور میں ’برن ہسپتال‘ فعال ہو جائے گا‘ جس کی ’ائرکنڈیشنگ‘ میں تکنیکی مسئلے کی وجہ سے یہ منصوبہ ایک ماہ کی تاخیر سے مکمل ہونے جا رہا ہے۔
خیبرپختونخوا میں جدید سہولیات سے آراستہ ’برن یونٹ‘ کی عدم دستیابی کا معاملہ پہلی مرتبہ ’پشاور ہائی کورٹ‘ کے سامنے زیرغور نہیں آیا بلکہ اِس سے قبل جولائی 2017ء میں عدالت عالیہ نے سیکرٹری ہیلتھ سے استفسار کیا تھا کہ وہ حکومتی کوششوں سے عدالت کو آگاہ کریں۔ یاد رہے کہ اُس وقت عدالت نے ہر ضلعی ہیڈکواٹر کی سطح پر ایک ایک برن یونٹ قائم کرنے کا حکم دیا تھا جس پر سیکرٹری ہیلتھ نے عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے کہا تھا کہ اِس سلسلے میں کام کا آغاز پہلے ہی سے جاری ہے اور ضلعی ہیڈکواٹر ہسپتالوں سے بستروں کی تعداد اور دستیاب سہولیات طلب کر لی گئیں ہیں۔ تصور کیجئے کہ جولائی دوہزار سترہ سے جنوری دوہزار اٹھارہ تک پانچ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال اعدادوشمار ہی اکٹھا نہیں ہوسکے ہیں حالانکہ ٹیلی فون اور دیگر برق رفتار مواصلاتی رابطوں کی موجودگی میں دو درجن ٹیلی فون کالز کے ذریعے بھی یہ کام باآسانی سرانجام پا سکتا تھا اور اگر سیکرٹری ہیلتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں مخلص ہوتے تو اب تک پچیس ہفتوں میں پچیس اضلاع کے خود بھی دورے کر کے معلومات اکٹھا کر چکے ہوتے۔ عجب ہے کہ جہاں کہیں سرکاری ملازمین کے اپنے مفادات‘ سہولیات اور مراعات حاصل کرنے کی بات ہوتی ہے تو یہ ’بابو‘ مہینوں کا کام منٹوں میں نمٹا دیتے ہیں لیکن جہاں عام آدمی (ہم عوام) کے مفاد کے لئے کام کرنا ہوتا ہے وہاں مصلحتیں اور تاخیری حربے آڑے آ جاتے ہیں۔
سیکرٹری صحت نے دس جنوری کے روز عدالت عالیہ میں ’آن دی ریکارڈ‘ جو بیان دیا‘ اُس کے مطابق سیدوشریف (سوات) میں چار بستروں پر مشتمل برن یونٹ موجود ہے۔ کوہاٹ میں مقامی رکن قومی اسمبلی کی جانب سے دوکروڑ ساٹھ لاکھ روپے دینے سے ’برن یونٹ‘ بنایا جا رہا ہے جس کا تعمیراتی کام آخری مراحل میں ہے۔ بنوں میں 18 بستروں کا ’برن یونٹ‘ فعال ہے جبکہ مردان میں ’برن یونٹ‘ کے قیام کے لئے غور ہو رہا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ’برن یونٹ‘ نہیں۔ تیمرگرھ میں ’برن یونٹ‘ تو ہے لیکن عملہ نہیں۔ بقول سیکرٹری ہیلتھ چھوٹے پیمانے پر ایک ’برن یونٹ‘ کے قیام پر 20سے 30 کروڑ روپے لاگت آتی ہے۔ اگر رواں مالی سال کے دوران مالی وسائل دستیاب نہ ہوئے تو آئندہ مالی سال میں ہر ضلعی ہیڈکواٹر کی سطح پر ’برن یونٹ‘ قائم کرنے کے لئے لازمی طور پر مالی وسائل مختص کئے جائیں گے۔‘‘
سیکرٹری ہیلتھ نے جب اپنی فرض شناسی پر مبنی کہانی عدالت کے روبرو سنا رہے تھے تو ججوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں‘ اُنہیں ایک منٹ کے لئے یہ بھی بھول گیا کہ جس ’برن یونٹ‘ کے قیام میں جس قدر بھی تاخیر (مجرمانہ غفلت) ہوئی ہے‘ اُس کے لئے ذمہ داروں میں یہی موصوف سیکرٹری ہیلتھ بہ نفس نفیس شمل ہیں‘ جنہوں نے اپنے گھر اور دفاتر کی ضروریات پوری کرنے پر ’برن یونٹ‘ سے زیادہ مالی وسائل خرچ کئے ہیں لیکن عام آدمی (ہم عوام) کے دُکھ کا اِنہیں احساس نہیں۔ دیگر سرکاری اِداروں کی طرح محکمۂ صحت میں بھی ملازمین کی فوج ظفر موج ہے‘ جن کی ماہانہ تنخواہوں اور مراعات پر خیبرپختونخوا میں علاج فراہم کرنے سے زیادہ اخراجات اُٹھ رہے ہیں! عدالت عالیہ نے کمال سادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیکرٹری ہیلتھ کو ’برن یونٹ‘ منصوبوں کا تاحیات نگران مقرر کردیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اگر انہیں ’سیکرٹری ہیلتھ‘ کے عہدے سے ہٹا بھی دیا جائے تب بھی وہی اِن منصوبوں کے نگران بن کر کام کی رفتار کا جائزہ لیتے رہیں! ’’ترے عشق کی اِنتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں‘ سزا چاہتا ہوں۔ (علامہ اِقبالؒ )
سیکرٹری ہیلتھ نے جب اپنی فرض شناسی پر مبنی کہانی عدالت کے روبرو سنا رہے تھے تو ججوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں‘ اُنہیں ایک منٹ کے لئے یہ بھی بھول گیا کہ جس ’برن یونٹ‘ کے قیام میں جس قدر بھی تاخیر (مجرمانہ غفلت) ہوئی ہے‘ اُس کے لئے ذمہ داروں میں یہی موصوف سیکرٹری ہیلتھ بہ نفس نفیس شمل ہیں‘ جنہوں نے اپنے گھر اور دفاتر کی ضروریات پوری کرنے پر ’برن یونٹ‘ سے زیادہ مالی وسائل خرچ کئے ہیں لیکن عام آدمی (ہم عوام) کے دُکھ کا اِنہیں احساس نہیں۔ دیگر سرکاری اِداروں کی طرح محکمۂ صحت میں بھی ملازمین کی فوج ظفر موج ہے‘ جن کی ماہانہ تنخواہوں اور مراعات پر خیبرپختونخوا میں علاج فراہم کرنے سے زیادہ اخراجات اُٹھ رہے ہیں! عدالت عالیہ نے کمال سادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیکرٹری ہیلتھ کو ’برن یونٹ‘ منصوبوں کا تاحیات نگران مقرر کردیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اگر انہیں ’سیکرٹری ہیلتھ‘ کے عہدے سے ہٹا بھی دیا جائے تب بھی وہی اِن منصوبوں کے نگران بن کر کام کی رفتار کا جائزہ لیتے رہیں! ’’ترے عشق کی اِنتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں‘ سزا چاہتا ہوں۔ (علامہ اِقبالؒ )
No comments:
Post a Comment