مہمان کالم
مطالعۂ پاکستان!
زینب قصور کی ہو یا کہیں کی بھی‘ اِن کا صرف اُور صرف یہی ’قصور‘ ہوتا ہے کہ وہ خواص کی نہیں بلکہ عوام کی بیٹیاں ہیں جنہیں حکومتیں اُور حکومتی ادارے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ آخر پاکستان کے قانون ساز اور عدل و انصاف کی فراہمی کے ادارے مل بیٹھ کر اجتہاد کیوں نہیں کر لیتے کہ جب تک قانون کی یکساں عمل داری ممکن نہیں ہوجاتی اُس وقت تک عوام کو اجازت ہوگی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا کریں۔ کم سے کم اُن کے ساتھ جنسی زیادتی‘ آئے روز بے حرمتی اور تشدد سے اموات تو نہیں ہوں گی! ’قصور‘ کا نام آتے ہی بچوں سے جنسی زیادتی کے مسلسل رونما ہونے والے اَن گنت واقعات یاد آتے ہیں‘ جن پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی ورنہ تو ایک سانحہ بھی حکومت کو جگانے کے لئے کافی تھا! اپنے شعور پر دستک دینے اور خود سے سوال پوچھنے پر جواب ملتا ہے کہ ۔۔۔ پاکستان میں جنسی زیادتی (ریپ) کا جب کبھی اور جہاں کہیں بھی کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو بلاتاخیر مذمتی بیانات ضرور جاری کئے جاتے ہیں۔ ’’مطالعۂ پاکستان‘‘ میں درج ملا کہ سب سے زیادہ زیربحث ’مختاراں مائی‘کا معاملہ تھا‘ لیکن اُس کے مجرموں کو بھی سزا نہ دی جاسکی جو مالی و سیاسی اثرورسوخ کے مالک تھے!
سیالکوٹ کے دو بھائیوں کی ویڈیو منظرعام پر آئی تب بھی غم و غصے کا اظہار صرف اور صرف عام آدمی (ہم عوام) کی جانب سے دیکھنے میں آیا۔ دن دیہاڑے قتل اور اُن کی ویڈیوز منظرعام پر آنے کے باوجود بھی ایسے کئی واقعات کا انجام سزائیں نہیں تھیں۔ کیا کسی کو کوئی ایسی ’’بریکنگ نیوز‘‘ یا ’’شہ سرخی‘‘ بھی یاد ہے جس میں ’گلوبٹ‘ کو قرار واقعی سزا ہوئی ہو؟
کراچی کا ’’سرفراز شاہ‘‘ کس کس کو یاد ہے‘ جس کے گرد رینجرز کی وردیاں پہنے افراد بندوقیں تانے کھڑے تھے وہ جوان لڑکا ہاتھ باندھے معافیاں مانگ رہا تھا۔ رکوع کی حالت میں جھک کر کھڑا تھا کہ پھر گولی چلنے کی آواز آتی ہے۔ وہ گر گیا اور ویڈیو کو غور سے سننے پر اُس کا آخری جملہ یہی تھا کہ ’’اللہ کے لئے‘ مجھے ہسپتال لے چلو۔‘‘ لیکن اُس پر فائرنگ کرنے والوں کا ضمیر ’اللہ کا واسطہ‘ سننے کے بعد بھی جاگ نہ سکا اور نہ ہی اُنہیں سزا دی گئی کہ وہ بندوق اور اختیار رکھنے والے ہم عصروں کے لئے ’نشان عبرت‘ بن جاتے! لاہور کی سڑک پر امریکہ کے لئے جاسوسی کرنے والا ’ریمنڈ ڈیوس‘ دیت دے کر پاکستان کے نظام انصاف و قانون حتی کہ شرعی قوانین کا مذاق اُڑاتے ہوئے اپنے وطن واپس جا پہنچا اور نجانے کتنے ہی ’ریمنڈ ڈیوس‘ بھیس بدل کر فیصلہ سازی کے منصب پر آج بھی فائز ہیں! کیا صرف حلف اٹھانے سے کوئی حب الوطن ہوسکتا ہے؟ جن لوگوں نے اپنے بچوں کو بیرون ملک انصاف پسند معاشروں میں رکھا ہوا ہے اور خود پاکستان پر حکمرانی کر رہے ہیں اُن سے انصاف کی توقع کیونکر رکھی جاسکتی ہے؟ کیا اِس شعوری گھڑی ہم یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ ۔۔۔ ’’دہری شہریت رکھنے والے پاکستان میں سیاست اور سرکاری ملازمتیں کرنے کے اہل نہیں ہونے چاہئیں؟‘‘
شاہ رخ جتوئی کس کس کو یاد ہے؟
مثالوں اور مقدمات کے احوال سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ آج کی عدالت کر بھی دے لیکن تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ وکلاء بھاری فیسوں کے عوض اپنی مہارت‘ تجربے سے جان بوجھ کر ملزموں کا ساتھ دیتے ہیں! کس میں ہمت ہے کہ ’’مطالعۂ پاکستان‘‘ کر سکے۔ پاکستان جرائم کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے اور اِس مطالعہ کا نچوڑ یہ ہے کہ حکمرانوں نے اپنے اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت کا ضرورت سے زیادہ انتظام تو کر رکھا ہے لیکن عام آدمی (ہم عوام) کے لئے پولیس کا وجود صرف نمائشی اُور باعث آزار ہے!
خود سے پوچھیں کہ ۔۔۔ گذشتہ پندرہ بیس برس میں بچوں اور بڑوں سے ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات اور غیرت کے نام پر ہوئے کتنے قاتلوں کو قرار واقعی سزائیں دی گئیں؟ کتنی مرتبہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں نے عوام کے مفاد میں اِن جرائم پر آواز اٹھائی؟ ہماری عدالتیں اُور وکلاء پر مشتمل انصاف کی آنکھیں کتنی بار اشک بار ہوئیں؟ اگر ’مطالعۂ پاکستان‘ خاموش ہے تو پھر عام آدمی (ہم عوام) قصور کی بے قصور زینب پر ہوئے ظلم کے خلاف ’انصاف انصاف‘ کی رٹ کیوں لگائے ہوئے ہیں؟
’زینب کے لئے انصاف؟ کیسا انصاف اور کون سا انصاف؟ نجانے زینب نے کتنی بار ’ہائے امّی‘ پکارا ہوگا۔ ’چار جنوری‘ کو اغوأ اور ’نو جنوری‘ کو ’کوڑہ دان‘ سے ملنے والی ’زینب بنت محمد امین‘ کے حلق میں نجانے کتنی سسکیاں دب گئی ہوں گی۔ اُس کی آنکھوں میں پتھر سوال بھی کیا اُس کے ساتھ ہی دفن کر دیئے گئے؟ زینب کا دُکھ ختم لیکن اُس کے والدین اور بہن بھائیوں کے دکھوں کا مداوا کیسے ممکن ہوگا؟
کیا کوئی ایسا انصاف بھی ہے جو اُس کے ماں باپ کو صرف ایک بار معصوم لہجے اور چہکتی آواز میں ’ماما پاپا‘ کی آواز سنا سکے؟ تلخ مگر حقیقت یہی ہے کہ نہ تو ایسا پہلی بار ہوا ہے اور نہ ہی آخری بار۔
ایسے معاشرے پر لعنت بھیجنے کا بھی محل نہیں جو موجودہ حکمرانوں کو آئندہ عام انتخابات میں پھر سے ووٹ دے گا۔ یہی قصور کے لوگ پھر سے اُنہی کو ووٹ دیں گے جنہوں نے پاکستان کو جہنم بنا دیا ہے۔ مطالعۂ پاکستان کرنے کے لئے ہمیں کسی دور ویرانے جا کر جتنی اونچی آواز میں ممکن ہو‘ چیچنا چاہئے۔ یہ گھڑی جی بھر کے رونے کی ہے اُور ہم رونے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے!
’’تدفین کرچکے ہیں‘ ہر خوبی و خواہش کی۔۔۔
معمول بے حسی ہے ۔۔۔ مقتول ہے زینب!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment