ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
مستقبل کی سوچ!
پاکستان میں جس طرح رہائشی اور کاروباری علاقوں کے درمیان تمیز کرنا مشکل ہے بالکل اِسی طرح خالصتاً کاروباری نکتۂ نظر سے نجی اِداروں کی حاکمیت کے خلاف ریاست کا وجود بھی کمزور دکھائی دیتا ہے۔ طب (میڈیکل) جیسے حساس شعبے میں ’اعلیٰ تعلیم‘ کی صورتحال بھی ناقابل بیان ہے جس کا ’اَزخودنوٹس‘ کی سماعت کے دوران (بارہ جنوری کے روز) سپرئم کورٹ نے ’’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ( پی ایم ڈی سی)‘‘ نامی نگران ادارے کو تحلیل کرتے ہوئے ’’سات رکنی عبوری کمیٹی‘‘ تشکیل دی ہے جو آئندہ کسی حکمنامے تک روزمرہ امور کی انجام دہی کرے گی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پی ایم ڈی سی کے وجود اور ’سنٹرل ایڈمیشن پالیسی‘ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جو سات رکنی عبوری کمیٹی تشکیل دی اُس کی سربراہی جسٹس شاکر اللہ جان کریں گے جبکہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف ’پی ایم ڈی سی‘ سے متعلق قانون سازی میں معاونت کی غرض سے کمیٹی کا حصہ بنائے گئے ہیں۔ اِس اعلیٰ اختیاراتی عبوری کمیٹی کو نجی میڈیکل کالجوں کی جانچ پڑتال (انسپکشن) کا اختیار بھی حاصل ہوگا‘ جو خوش آئند اقدام ہے اُور اُمید ہے کہ سپرئم کورٹ کی اِس دلچسپی اور باریک بین خلوص نیت کوشش سے خاطرخواہ بہتری آئے گی۔ ’’سمجھ میں زندگی آئے کہاں سے۔۔۔ پڑھی ہے یہ عبارت درمیاں سے۔ (جان ایلیا)۔‘‘
پاکستان میں رجسٹرڈ طبی معالجین کی تعداد ایک لاکھ چونسٹھ ہزار اور ماہر (اسپیشلسٹ) ڈاکٹروں کی تعداد سینتالیس ہزار ہے جبکہ پچیس ہزار ماہر ڈاکٹر پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک جا چکے ہیں!
زوال نہیں تو کیا ہے کہ معاشرے کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے‘ ذہین‘ باشعور‘ مفید اور زمینی حقائق کو سمجھنے والوں نے خود کو انجان بنا رکھا ہے اور وہ ایک ایسے ماحول سے دل برداشتہ ہیں جسے ٹھیک کرنا خود اُنہی کی ذمہ داری ہے۔ ’طب کی تعلیم کا انتظام اور اِس کا معیار برقرار رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے‘ اِس سے آئینی فرض سے انکار ممکن نہیں لیکن تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم نے سب کچھ حکومت پر ڈال دیا ہے۔ سرکاری خرچ پر ڈاکٹری کی عملی تربیت اور مہارت حاصل کرنے کے بعد جو ڈاکٹر پاکستان کو چھوڑ کر جاتے ہیں‘ انہیں اپنے ضمیر کے سامنے بھی جواب دینا چاہئے کہ اُن پر مٹی کا کتنا قرض واجب الاداء ہے۔ یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ پچیس ہزار سے زائد ڈاکٹر بیرون مل جانے کے باوجود بھی حکومت کو نہیں بلکہ عدالت عظمی کو لاحق تشویش سامنے آئی ہے۔ اگر مذکورہ پچیس ہزار ڈاکٹر بیرون ملک نہ بھی گئے ہوتے تب بھی پاکستان میں ماہر ڈاکٹروں کی تعداد حسب آبادی کم ہے جس پر قابو پانے کے لئے حکومت کے پاس منصوبہ بندی نہیں۔ ڈاکٹر اگر بیرون ملک جا رہے ہیں تو اس کی وجہ وہاں کے بہتر ملازمتی طریقۂ کار اور حالات کار ہیں جن میں اُنہیں مالی طور پر کشش دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان میں ڈاکٹروں کو جان و مال اور ملازمتی تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ اہلیت کی بنیاد پر اگر محکمانہ ترقی کا نظام وضع کر دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہوگی کہ کوئی اپنا ملک اور آبائی شہر چھوڑ کر چلا جائے۔
سپرئم کورٹ کے سامنے زیرغور معاملہ ’طب کی تعلیم‘ اور ’نجی اداروں کی من مانیوں‘ کا ہے۔ عدالت عظمی نے بظاہر عزم کر رکھا ہے کہ میڈیکل کی تعلیم دینے کے لئے مقرر کردہ فیسوں سے زائد وصولیاں کرنے اور ایڈمیشنز دینے کے لئے عطیات پر عائد پابندی کا کھلم کھلا مذاق اڑانے والوں سے نمٹا جائے گا اُور اِس عدالتی مؤقف کی حمایت خود ’پی ایم ڈی سی‘ کے وکیل نے بھی کی ہے کہ ’نجی میڈیکل کالجز کی جانب سے مقررہ شرح کے مطابق داخلہ فیسیوں اور اِن کے علاؤہ عطیات کے نام پر وصولیاں غلط اقدام ہے۔‘ پی ایم ڈی سی کی جانب سے میڈیکل کی سالانہ فیس 6 لاکھ 42 ہزار روپے مقرر ہے جبکہ نجی میڈیکل کالجز فی طالب علم سالانہ فیس کی مد میں 9 سے 15 لاکھ روپے وصول کر رہے ہیں۔ سالانہ فیسوں اور دیگر مدوں میں اضافی وصولیاں کرنے والے باقاعدہ رسیدیں دی جاتی ہیں۔
پاکستان میں طب کی تعلیم کا معیار اُور نجی اداروں کی حاکمیت و سرپرستی بدقسمتی سے دانستہ طور پر کی جا رہی ہے اور حکومتوں نے ہمیشہ عوام کے مقابلے سرمایہ داروں کے مفادات کا زیادہ تحفظ کیا ہے۔ یہ طرزعمل ناقابل قبول ہے۔ طب کی تعلیم حاصل کرنے والوں کو عملی زندگی میں جن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے نجی میڈیکل کالجوں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء و طالبات اُن کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اگر پاکستان میں ڈاکٹروں اور ماہر ڈاکٹروں سمیت آبادی کے تناسب سے طبی سہولیات کی کمی ہے تو اِس میں اضافہ حکومتی وسائل سے خود حکومت ہی کو کرنا چاہئے۔
عمومی تعلیم کی طرح طب کی پیشہ وارانہ تعلیم بھی نجی شعبے کے حوالے کرنے سے پیدا ہونے والی خرابیوں پر تعجب کا اظہار کرنے کی بجائے غلطی سے رجوع ضروری ہے اور ایسے تمام نجی میڈیکل کالجز جو ’پی ایم ڈی سی‘ کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط پر پورا نہیں اُترتے اُنہیں بناء رعایت ختم میں تاخیر و کوتاہی کا ازالہ ہونا چاہئے! معاملہ سالانہ فیسوں کی زائد وصولی سے زیادہ گھمبیر ہے کیونکہ طب کی تعلیم کا معیار بھی گر رہا ہے۔
ذرائع ابلاغ میڈیکل کی تعلیم سے جڑی بے قاعدگیوں کی مسلسل رپورٹ کرتے آ رہے ہیں لیکن ماضی میں پاکستان پیپلزپارٹی (پارلیمینیٹرین) سے تعلق رکھنے والے اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے دست راست (ڈاکٹر) عاصم حسین اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی موجودہ میں کسی کا احتساب کا خوف نہیں۔ جب تک اربوں کی اِس مالی و انتظامی بدعنوانیوں کی جڑ تک نہیں پہنچا جائے گا اور ماضی و حال میں کی گئی خردبرد (فنانشیل کک بیکس) ضبط نہیں کئے جائیں گے‘ اُس وقت تک معاملات کی درستگی محض عدالتی سماعتوں اور عبوری انتظامیہ تعینات کرنے سے ممکن نہیں ہوگی۔
سمجھ لیجئے کہ خواہش اور عدالت چاہے جتنی اور جس قدر بھی بڑی ہو لیکن بناء ’سزا و جزا‘ اور سرکاری اداروں کی کارکردگی کے کڑے احتساب‘ مالی بدعنوانیوں اور انتظامی بے قاعدگیوں کے جاری سلسلے روکے نہیں جا سکیں گے۔
۔
No comments:
Post a Comment