ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پشاور: کیا تھا؟ ۔۔۔ کیا ہے؟
ہرسمت تعمیر و ترقی کے خرچے اُور چرچے کا ’ہنگامہ خیز‘ دور جاری ہے‘ جس کے شاہد ’اہل پشاور‘ نے ’توجہ دلاؤ نوٹس‘ کے ذریعے درخواست کی ہے کہ صحت مند اور بامقصد تفریح کے ایسے مزید مواقع فراہم کئے جائیں‘ جس سے نئی نسل بالخصوص بچوں کو پشاور کے شاندار ماضی اُور یہاں کی ’’تاریخ‘ روایات اُور ثقافت آشنا‘‘ کیا جا سکے۔
یہی لمحۂ فکریہ پشاور کے باغات کی ’’واگزاری اُور بحالی‘‘ کا بھی ہے‘ جو سیاسی‘ ذاتی یا انتخابی مفادات رکھنے والے فیصلہ سازوں کی ’کمرشل اِزم سوچ‘ کی نذر ہو چکے ہیں! شاہی باغ‘ وزیر باغ‘ چاچا یونس پارک اُور جناح پارک‘ پشاور کا عکس اور عکاس ہیں جن کے موجود وسائل کو‘ تجاوزات اور کمرشل خرابات سے باآسانی واگزار کر کے ترقی دی جاسکتی ہے اُور اِنہیں ’عالمی معیار‘ کے مطابق ’سبزہ زاروں‘ میں ڈھالا جا سکتا تھا لیکن تحریک اِنصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کو شاید یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اُنہوں نے تو ’ہر یونین کونسل‘ کی سطح پر ’کھیل کا میدان (پلے گراؤنڈ)‘ بنانے کا وعدہ کر رکھا ہے اور یوں پانچ سال کی آئینی مدت کی تکمیل کے قریب پشاور کی ’92 یونین کونسلوں‘ میں کم سے کم ’’سات درجن‘‘ سبزہ زار تو موجود ہوتے لیکن ’تلخ حقیقت‘ تو یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی کل 3 ہزار 493 یونین کونسلوں میں چند درجن ہی خوش نصیب ’بلدیاتی یونٹ‘ ایسے ہیں‘ جہاں ماضی کی امانت‘ سبزہ زاروں کی ظاہری شکل و صورت‘ بازاروں اور قبرستانوں سے زیادہ مختلف نہیں جہاں ہر طرف ’’تجاوزات‘‘ عام ہیں!
مقام افسوس تو یہ بھی ہے کہ پشاور کے جن بازاروں کو مزاحمت اور کوششوں کے بعد تجاوزات سے پاک کیا گیا وہاں پھر سے بالخصوص نئی و پرانی تعمیرات اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہیں۔ صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کا وجود اور اِس وجود کا خوف نام کی کوئی شے ہوتی تو کسی تاجر‘ آجر و اجیر کی ہمت نہ ہوتی کہ وہ اپنی حد سے تجاوز کرتا‘ پشاور کے وسائل کی لوٹ مار کرے اور یہاں کے معاشرت و معیشت کو مسائل سے دوچار کرے۔
آج کے پشاور کی طرح‘ کبھی بھی یہ شہر‘ بناء نمائندگی (بے سروساماں) اور بے بس نہیں رہا اُور اِس کی وجہ یہ ہے کہ اندرون پشاور سے منتخب ہونے والے غیرمقامی سیاسی و بلدیاتی نمائندوں سے ’نمائندگی (ترجمانی) کا حق‘ اَدا کرنے کی توقعات عبث ہیں۔ آج کے پشاور کا دُکھ صرف وہی نفوس سمجھ سکتے ہیں‘ جو خود پشاور سے ہوں اور نکتۂ نظر (اصطلاحی طور پر) بھی صرف اُنہی ارواح کو سمجھ آ سکتا ہے کہ ’’پشاور کیا تھا اور آج کا پشاور کیا ہے!؟‘‘
بہت دنوں بعد پشاور کی گلیوں میں ’گم ہونے کا اتفاق‘ ہوا۔ وہ شہر جو ’خون کے ساتھ رگوں میں گردش کرے‘ وہاں اجنبی چہروں کی چہل پہل (شورشرابے) اُور تیزی سے فنا ہوتا ’فن تعمیر‘ کا مشاہدہ کبھی بھی خوشگوار نہیں رہا۔ ہر چند ماہ بعد پشاور پہلے سے زیادہ مختلف اور پرہجوم دکھائی دیتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ ’بیدار دل‘ اپنے ’اثاثوں کی نگہبانی‘ سے غافل ہوں۔ پشاور ہائی کورٹ میں دائر ایک مقدمے کی مثال کافی ہے جس میں 2 رکنی بینچ (جسٹس اکرام اللہ خان اور جسٹس محمد غضنفر خان) اِن دنوں ایک ایسے مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں‘ جس کا عمومی موضوع ’پشاور شناسی (تاریخ و ثقافت سے جڑے اثاثوں کے انتظامی امور کی منتخب اداروں کو سپردگی) اور موجود وسائل تک عام آدمی (ہم عوام) کو استفادہ کرنے کی اجازت دینا ہے۔ بنیادی طور پر یہ مقدمہ اَٹھارہویں صدی میں تعمیر ہونے والے ’قلعہ بالا حصار‘ سے متعلق ہے‘ جسے اگر ’پشاور کی تاریخ کا مستند حوالہ‘ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اِس کے مطالعے سے ’تاریخ پشاور‘ کو سمجھنا اور سمجھانا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔
قلعہ بالا حصار (اپنے نام کی طرح) کسی تاریخی عمارت کے وجود سے کئی گنا زیادہ بڑی (قدآور) عمارت ہے چونکہ اہل پشاور کے لئے تفریح کے مواقعوں کی کمی ہے اِس لئے ’خورشید خان ایڈوکیٹ‘ نے پشاور ہائی کورٹ کی توجہ اِس جانب مبذول کرائی ہے کہ ’بالاحصار‘ میں قائم ’فرنٹیئر کور (Frontier Corps)‘ (ایف سی) کے ’صدر دفتر (ہیڈکواٹر) کو ختم کرکے اِسے ضلعی انتظامیہ کے حوالے کر دیا جائے جبکہ عدالت نے اِس سلسلے میں صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سے جواب طلب کر رکھا ہے اور اِن دونوں فریقین (صوبائی حکومت اُور ایف سی) کی خاموشی پر اِظہار افسوس کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے لچک دکھائی ہے‘ کہ اگر پورے قلعہ کو عوام کے لئے نہیں کھولا جا سکتا تو اِس کے کسی ایک حصے تک جزوی طور پر ہی سہی عوام کو رسائی دی جائے۔
درخواست گزار کا مؤقف منطقی ہے۔ ایف سی نے حیات آباد میں قبائلی علاقے خیبرایجنسی سے متصل ’صدر دفتر‘ تعمیر کر لیا ہے‘ تو اصولی طور پر قلعہ بالا حصار خالی کر دینا چاہئے کیونکہ ایک تو ’جی ٹی روڈ‘ کے اِس مقام پر ٹریفک کا ہمیشہ ہی سے دباؤ رہتا ہے اور دوسرا قلعہ کی پارکنگ اور حفاظت کے لئے سڑک کے ایک بڑے حصے کو بند کرنا بھی ضروری ہے تو اگر ’ایف سی ہیڈ کوارٹر‘ کو حیات آباد نئے دفتر منتقل کر دیا جائے تو اِس سے نہ صرف اندرون شہر ٹریفک کی روانی بہتر ہوگی بلکہ ہنگامی یا عام حالات میں متصل لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے رجوع کرنے والوں کو سہولت میسر آئے گی جس کے لئے قلعہ کے اطراف میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال تک خصوصی راستے (کوریڈورز) بنائے جا سکتے ہیں۔
پشاور کو قلعہ بالاحصار پشاور کی کئی لحاظ سے ضرورت ہے اور چونکہ یہ حساس معاملہ عدالت عالیہ کے سامنے زیرغور ہے‘ جہاں اِس پورے قضیے (معاملے) کے مختلف پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا جا رہا ہے تو ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری بھی ہے کہ پشاور سے ہمدردی اور وابستگی کا ثبوت دیتے ہوئے عوامی رائے عامہ سے عدالت کو آگاہ کریں کہ پشاور کا خاص و عام آدمی‘ نئی نسل اور یہاں کے منتخب نمائندے اِس بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں۔
اُمید ہے کہ یہ قلعہ فوج کی بجائے سول انتظامیہ کے سپرد کر دیا جائے گا اور ضلعی انتظامیہ کے جو دفاتر شاہی باغ کی اراضی پر تعمیر ہیں‘ اُن تمام تجاوزات کو ہٹا کر ’شاہی باغ‘ کو اُس کا رقبہ واپس مل جائے گا‘ جس سے پشاور کی کم و بیش ’ستر لاکھ‘ سے زائد آبادی کے لئے سبزہ زاروں کی کمی تو پوری نہیں ہوگی‘ لیکن کیا عجب کہ پشاور کو وہ ’شاہانہ رونقیں‘ واپس مل جائیں جب شاہی باغ میں جھنڈوں کے میلے‘ سماجی ادبی محافل‘ مذاکرے چہل قدمی اور کھیل کود جیسی صحت مند سرگرمیوں کا باقاعدگی سے اِنعقاد ایک معمول ہوا کرتا تھا۔ لب لباب ’’بیداری کی لہر‘‘ ہے جس میں اہل پشاور کو ’اپنا پشاور‘ واپس چاہئے اُور بس!
’’ابھی ہیں کچھ پرانی یادگاریں ۔۔۔
تم آنا شہر میرا دیکھنے کو (اظہر عنایتی)۔‘‘
۔
![]() |
.... http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-02-26 Reclaiming Peshawar |
No comments:
Post a Comment