Wednesday, February 21, 2018

Feb 2018: Insulting attitude, the management of SNGPL, Abbottabad!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سالگرہ مبارک!
خوش قسمت ہیں کہ جنہیں ’(سوئی) گیس یا بجلی کے کنکشنز‘ وراثت میں ملے‘ باقی ماندہ گھریلو اور صنعتی صارفین کے لئے مذکورہ وفاقی حکومت کے اِداروں سے رجوع کرنا ’ناخوشگوار تجربہ‘ ثابت ہوتا ہے۔ 

بیس فروری کے روز ریجنل گیس دفتر ایبٹ آباد جانے کا اتفاق ہوا‘ جہاں دو ہفتہ وار تعطیلات کے بعد صارفین کا غیرمعمولی رش کی بنیادی وجہ رہنمائی کے خاطرخواہ انتظام نہ ہونا تھا۔ ’مین گیٹ‘ سے داخل ہونے کے بعد دائیں ہاتھ پر ’کسٹمرز کاونٹر‘ اِس پوری عمارت کا سب سے چھوٹا اور تنگ و تاریک کمرہ تھا‘ جہاں مرد و خواتین (محرم و نامحرم) ایک دوسرے سے ٹکرانے کی لاکھ کوشش کریں تب بھی ممکن نہیں ہوتا کہ جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ ایک دوسرے سے مس نہ ہو۔

نجی اِداروں بالخصوص بینکوں کی مثال موجود ہے جہاں صارفین کی رہنمائی اور انہیں متعلقہ شعبوں تک رسائی کے لئے خودکار نمبروں کے اجرأ اور آرام دہ انتظار گاہیں فراہم کی جاتی ہیں لیکن ایبٹ آباد گیس کے مرکزی دفتر میں صارفین کے لئے انتظار گاہ کا انتظام موجود نہیں۔ دفتر کے ملازمین آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے جبکہ صارفین جانوروں کی طرح اُچھل اُچھل کر یا اپنے قد کو اونچا کرنے اور چیخنے پر مجبور تھے۔ اتنا شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی! کمرے کے کونے میں ’خصوصی کاونٹر‘ دیکھ کر حیرت ہوئی‘ جہاں فارغ بیٹھے خوش شکل‘ خوش لباس و گفتار اہلکار سے ’گیس میٹر کی ملکیت تبدیل کروانے کا طریقۂ کار پوچھا تو موصوف نے کھڑکی سے نظر آنے والی کثیرالمنزلہ عمارت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بس اتنا کہا کہ ’’سیلز ڈیپارٹمنٹ چلے جاؤ۔‘‘ 

اصولی طور پر ’کسٹمرز کاونٹر‘ ہی پر طریقۂ کار ہی بتا دینا چاہئے بہرحال درجن بھر سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے عمارت کے اندر داخل ہونے پر پتہ چلا کہ کسی بھی جگہ سیلز ڈیپارٹمنٹ تک پہنچنے کے لئے رہنمائی نہیں دی گئی اور نہ ہی اِس عمارت کے اندر باوردی سیکورٹی اہلکار تعینات تھے‘ کہ جن سے پوچھا جاسکتا۔ دو ایک ’راہ گیروں‘ سے پوچھنے پر بھی پتہ نہ چلا تو واپس داخلی گیٹ پر آنا پڑا جہاں محافظ نے بتایا کہ دائیں ہاتھ کا آخری کمرہ‘ جہاں پہنچ کر گرد آلود میزیں‘ الماریوں سے اُمنڈتی ہوئی فائلوں اُور کتابچوں نے استقبال کیا جو چیخ چیخ کر متعلقہ شعبے کی کارکردگی کا احوال سنا رہی تھیں! ایک اہلکار سے مدعا بیان کیا تو معلوم ہوا کہ کمرے کے آخر میں بیٹھے صاحب سے رجوع کریں‘ جنہوں نے عمارت کے تہہ خانے میں نجی فوٹو اسٹیٹ مشین والے کا پتہ بتایا کہ آپ کا ’’مطلوبہ دو عدد فارم‘‘ وہاں سے ملیں گے۔ بیس سڑھیاں اُتر کر کیفے ٹیریا کے ایک کونے میں دو عدد فوٹواسٹیٹ مشینیں لگائے شخص نے باری آنے پر ’’دس روپے‘‘ کے عوض مطلوبہ فارم فراہم کئے‘ جس کی ادارے کی جانب سے نہ تو کوئی قیمت مقرر ہے اور نہ گیس میٹر کی ملکیت تبدیل کرنے کے لئے کوئی فارم ہی تخلیق کیا گیا ہے۔ ادارے کے بنائے گئے ’فارمیٹ‘ کو اگر ’مروجہ فارم‘ تسلیم کر لیا جائے تب بھی اِس کی قیمت ادارے ہی کو مقرر اور وصول کرنی چاہئے تھی۔ جس ادارے میں دس روپے جیسی چھوٹی بدعنوانی کا امکان بھی نہ چھوڑا جائے‘ وہاں کے انتظامی و مالی امور کے بارے کچھ نہ ہی کہا جائے تو عافیت ہے۔ 

سرکاری عمارت کے احاطے میں نجی فوٹو اسٹیٹ کا مقصد صارفین کی سہولت ہے یا بدعنوانی کا ذریعہ؟ وہ فوٹو اسٹیٹ جو بازار میں دو روپے کے عوض ہوتی ہے یہاں اُس کے سرعام پانچ روپے وصول کیوں کئے جا رہے تھے؟ یہ دھندا بناء انتظامی نگران کی آشیرباد سے چلنا ممکن ہی نہیں‘ جن کی کھوج کرنے پر معلوم ہوا کہ ’’ریجنل منیجر (صاحب بہادر)‘‘ اِسی دفتر کی بالائی منزل پر تشریف رکھتے ہیں۔ چالیس سیڑھیاں چڑھنے کے بعد اُن کے سیکرٹری نے ملاقات سے قبل شناخت مانگی‘ جو صاحب کو بھیج دی گئی اُور انہوں نے طلب کرلیا۔ ہاتھ میں فائل‘ چہرے پر تھکاوٹ اور بیزاری کے آثار دیکھتے ہی بناء سلام کا جواب دیئے کہا ’’لاؤ فائل‘ کیا کام ہے؟‘‘ جی کوئی کام نہیں‘ صرف آپ کی توجہ چاہئے۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ وسیع و عریض اور پوری عمارت کا سب سے زیادہ روشن اور صاف ستھرا کمرہ جگمگا رہا تھا۔ 

پہلا سوال: اگر میں آپ سے کوئی سوال پوچھوں تو کیا آپ اُس کا ’آن دی ریکارڈ‘ جواب دیں گے؟ 
کرخت لہجے میں جواب ملا: کام بتاؤ کام؟ 

کیا آپ کو معلوم ہے کہ میٹر کی ملکیت تبدیل کرنے سمیت دیگر خدمات کے فارمز دستیاب نہیں اور صارفین کو قیمت ادا کر کے خریدنے پڑتے ہیں؟ 
آس پاس بیٹھے ماتحت اہلکاروں نے صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ’’سر اِس بارے میں تحقیقات ہونی چاہئیں۔‘‘ 

صاحب کا مزاج بگڑ چکا تھا‘ اُن کے چہرے پر رعونت سے لگ رہا تھا کہ پٹائی ہونے والی ہے! اٹھتے اُٹھتے اور معافی چاہتے ہوئے سوالات کی بوچھاڑ کر دی کہ صاحب کیا ایسا ممکن ہے کہ تمام مطلوبہ فارم ’کسٹمرز کاونٹر‘ پر ہی مہیا کر دیئے جائیں؟ صارفین کو کسی بھی تہہ خانے (انڈر گراونڈ) اور ’انڈر ٹیبل‘ قیمت ادا ہی نہ کرنی پڑے؟ کیا یہ بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے کہ ایسے فارم اور ہدایات آن لائن حاصل (ڈانلوڈ) کئے جا سکیں؟ کیا عمارت کے باقی حصوں کی صفائی بھی آپ کے دفتر کی طرح ممکن ہے؟ صاحب نے ڈیسک فون اٹھا لیا جیسے اُنہیں کوئی ضروری بات یاد آ گئی ہو!

’سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمٹیڈ‘ ایبٹ آباد کے ’ریجنل منیجر‘ جیسے باصلاحیت‘ تعلیم یافتہ اُور ذمہ دار سینیئر ترین اہلکار کا رویہ اگر ایک عام صارف سے ایسا تھا‘ تو وہ اُن کے ماتحت عملے کے روئیوں کا گلہ نہیں کرنا چاہئے۔ 

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم عوام جن لوگوں کو منتخب کر کے فیصلہ اور قانون سازی کے منصب پر فائز کرتے ہیں‘ یہ انتظامی نگران اُنہیں خوش رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اگر ایبٹ آباد سے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون‘ رکن صوبائی اسمبلی (پی کے پینتالیس) مشتاق احمد غنی‘ پاکستان تحریک انصاف کا نامزد ضلعی ناظم علی خان جدون اُور تحصیل ناظم محمد اسحاق عوامی حقوق کے محافظ ہوتے تو کسی اعلیٰ و ادنی سرکاری ملازم کی جرأت ہی نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ اُس عام آدمی پر ’غیض و غضب‘ کا بے خوف اظہار‘ کرتا‘ جبکہ اُس کے ادا کردہ ٹیکسوں پر وہ اُور اُس کے اہل و عیال مراعات یافتہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 

عام آدمی (ہم عوام) کی بے توقیری کا یہ ذاتی (تلخ) تجربہ اور مشاہدہ ایک ایسے موقع پر پیش آیا‘ جب زندگی کے ’پچاس سال‘ مکمل کرنے پر شمار (حساب کتاب) سے پتہ چلا کہ چند تعلیمی و تعریفی اسناد‘ ذہن نشین رزق حلال کی اہمیت‘ محنت میں عظمت کے اسباق کی کوئی وقعت نہیں اور ’ذلت و بے توقیری‘ کے علاؤہ کوئی جنس بھی ہاتھ نہیں!
۔
Tale of a visit to SNGPL Abbottabad Office on Feb 20, 2018.
It was worth to worst experience that no one out there to protect the rights of ordinary citizen, the Hum Awaam
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-02-21

No comments:

Post a Comment