Tuesday, February 20, 2018

Feb 2018: Controversial pics, solution is unity of Muslim Ummah

مہمان کالم
متنازعہ تصاویر!
اِسلام کے مقدس ترین شہروں میں سرفہرست ’مکہ مکرمہ‘ اُور ’مدینہ منورہ‘ میں ’غیرمسلموں‘ کے داخل ہونے کی ’شرعی پابندی‘ پر پوری اُمت مسلمہ کا اتفاق ہے بلکہ ایک سوچ تو اِن شرعی احکامات کی تشریح زیادہ سخت گیر انداز میں کرتے ہوئے پورے ’جزیرۃ العرب‘ پر غیرمسلموں کے داخلے کی مخالفت کرتی ہے‘ اِس سلسلے میں القاعدہ تنظیم کے سربراہ ’اُسامہ بن لادن‘ کی تقاریر اُور بیانات ’آن دی ریکارڈ‘ موجود ہیں‘ جن میں اُنہوں نے سعودی عرب میں امریکی تنصیبات پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ ۔۔۔ ’’غیرمسلموں کا جزیرۃ العرب پر ناپاک وجود ناقابل قبول ہے۔‘‘

مسلم دنیا میں اِس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت کی طرف سے مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں داخلے کی ممانعت کے بارے میں اعلانات بھی آویزاں کئے گئے ہیں‘ جو حج و عمرہ کے زائرین کی اکثریت نے دیکھے (نوٹس کئے) ہوں گے لیکن نومبر دوہزار سترہ کی بات ہے جب روسی نژاد اکتیس سالہ یہودی ’بین سیون‘ نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر ’مسجد نبوی‘ کی ایسی تصاویر جاری کیں‘ جس میں وہ مقامی افراد کے ساتھ بھی کھڑا ہے اور اُس کے گلے میں آویزاں بستے پر عبرانی زبان کے الفاظ بھی تحریر ہیں۔ عبرانی اسرائیل کی سرکاری زبان ہے اور روسی نژاد ’بین سیون‘ اسرائیل کی شہریت رکھتا تھا۔ بہرحال مسجد نبوی کی صفوں پر کھڑے ہو کر لی جانے والی تصاویر اسرائیلی اخبارات میں شائع ہوئیں تو اِس گستاخی پر مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ اور مسلمان سوشل میڈیا صارفین نے شدید احتجاج کیا لیکن سعودی حکومت خاموش رہی اُور اُمید تھی کہ اِس گستاخی کے بعد سعودی حکام سیکورٹی انتظامات میں رہ جانے والی اُن خامیوں کا تدارک کریں گے جس کی وجہ سے ایک یہودی کو مسجد نبوی کے اندر تک رسائی مل گئی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ مذکورہ یہودی شخص نے اپنی مذہبی حیثیت پوشیدہ نہیں رکھی بلکہ وہ ہر ملنے والے سے کہتا رہا کہ وہ یہودی ہے اور یروشلیم سے آیا ہے لیکن کسی بھی عربی و عجمی نے اُس کی اِس بات کا نوٹس نہ لیا۔ رواں ہفتے (فروری دوہزار اٹھارہ کے تیسرے ہفتے) سوشل میڈیا پر ایک مرتبہ ’مسجد نبوی‘ کی ایک ایسی تصویر شائع کی گئی ہے‘ جس سے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں اور اُنہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ مسجد نبوی کے تقدس کا خیال رکھنے کا مطالبہ کس سے کریں کیونکہ ایک مرتبہ پھر سعودی عرب کی بادشاہت مسجد نبوی کی اِس بے حرمتی پر خاموش ہے۔

تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ مسجد نبوی کے صحن میں چار برقع پوش خواتین چادر بچھا کر پورے اطمینان و اہتمام سے بیٹھی ہیں اور وہ تاش کے پتے ہاتھوں میں لئے ایک ایسے مغربی کھیل میں مشغول ہے‘ جس کا تعلق جوئے سے بھی ہے‘ اور اسلامی دنیا میں اِس سمیت کسی بھی کھیل کے لئے مسجد کے استعمال کو ناپسندیدگی (گناہ) کی نظر سے دیکھا جاتا ہے بلکہ مسجد میں دنیاوی باتیں‘ ہنسی مذاق اور اونچی آواز میں بات چیت کی ممانعت کا ذکر بھی احادیث میں کثرت سے ملتا ہے۔ بہرحال چار برقعہ پوش خواتین‘ جن کی شناخت تصویر سے ظاہر نہیں ہو رہی‘ تاش کے کھیل میں مگن ہیں اور اُن کے آس پاس کئی لوگ احرام پہنے دکھائی دے رہے ہیں۔ چونکہ مسجد الحرام (مکہ مکرمہ) اور مسجد نبوی (مدینہ منورہ) کے فن تعمیر میں ایک خاص قسم کی مماثلت پائی جاتی ہے‘ اِس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تصویر اِن دونوں مقامات میں سے کہاں لی گئی ہے تاہم یہ بات طے ہے کہ تصویر کسی مسجد کے صحن ہی کی ہے‘ جسے ٹوئٹر (twitter) پر @RassdNewsN نامی عربی زبان کے نشریاتی ادارے کی جانب سے ’اٹھارہ فروری‘ کے روز جاری کیا گیا اور تصویر کے ساتھ تفصیل (کیپشن) میں لکھا گیا کہ خواتین بادشاہ فہد کے نام سے منسوب مسجد کے دروازے سامنے تاش کھیل رہی ہیں۔‘‘

بائیس لاکھ ستر ہزار سے زائد صارفین رکھنے والے ٹوئٹر اکاونٹ پر مذکورہ تصویر کو قریب ’ڈھائی سو‘ ٹوئٹر صارفین نے پسند کیا جبکہ اِس پر تبصرہ کرنے والے 159 افراد کی اکثریت نے خواتین کے اِس عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ بحث چل نکلی کہ سعودی حکمرانوں نے سنگ مرمر کے چمکتے دمکتے فرش اور روشنیوں سے منور مسجدیں تو بنا دی ہیں لیکن مسجد کا احترام کرنے والے افراد کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔‘‘ کسی یہودی کے مسجد نبوی میں پہنچنے پر ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ ’’سعودی عرب وہ مقام ہے‘ جہاں حکومت کی رائے سے مسلکی بنیادوں پر اختلاف رکھنے والے علمائے کرام جیلوں میں بند ہیں جبکہ یہودی آزاد ہیں!‘‘

تاش یا اِس جیسا کوئی کھیل کھیلنے میں مشغول تین خواتین جواں سال جبکہ ایک ادھیڑ عمر کی دکھائی دیتی ہیں‘ جنہیں نماز کی ادائیگی کے لئے کرسی کی ضرورت پڑتی ہے اور اِس قسم کی طے ہو جانے والی (فولڈنگ) کرسیاں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی مارکیٹوں میں عام مل جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن مساجد کے ہر ستون کے ساتھ نگران (سی سی ٹی وی) کیمرے نصب ہیں‘ وہاں اِس قسم کے واقعات کیونکر رونما ہو سکتے ہیں‘ جبکہ مساجد کی انتظامیہ‘ مقامی پولیس اور افراد اِس سے بے خبر رہیں؟چار خواتین کی تصویر رات کے کسی پہر میں بنائی گئی کیونکہ تصویر میں صحن کی روشنیاں دیکھی جا سکتی ہیں جبکہ عام لوگوں کی آمدورفت بھی معمول کے مطابق (پس منظر میں) جاری ہے‘ جن میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں کہ جنہوں نے خاص لباس قسم کا لباس (احرام) پہن رکھا ہے۔

پشاور کی سرتاج روحانی شخصیت‘ پیرطریقت سیّد محمد امیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ سورۂ مبارکہ ’’الشعراء‘‘ کی آیات (دوسو ایک سے دو سو سات) کا ترجمہ اُور تشریح کئی روز تک کرتے رہے تاکہ دنیاوی ترقی کی حقیقت اور رب تعالیٰ کی نافرمانی کے مضامین سمجھ میں آ سکیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ (ترجمہ): ’’وہ (نافرمان) جب تک درد دینے والا عذاب (اپنی اوپر نازل ہوتا) نہیں دیکھیں گے‘ یقین نہیں کریں گے۔ (اُن گستاخوں کو خبر دے دو کہ) وہ (عذاب) اُن پر ناگہاں (اچانک) نازل ہوگا اور انہیں (باوجود جدید ترین آلات بھی پیشگی) خبر نہیں ہو سکے گی۔ (پھر جب اللہ کا عذاب اُن منکرین پر نازل ہوگا تو) اُس وقت (وہ) کہیں گے (کہ) کیا ہمیں مہلت ملے گی؟ تو کیا (ایسا نہیں کہ) یہ (نافرمان) ہمارے عذاب کو جلدی طلب کر رہے ہیں؟ بھلا دیکھو تو اگر ہم اِن کو (دنیاوی علوم میں غوروفکر کے) برسوں فائدے دیتے رہے۔ پھر اِن (اللہ کے غیض و غضب کو آواز دینے والوں) پر وہ (عذاب) نازل ہو‘ جس کا تم سے (یہاں) وعدہ کیا جا رہا ہے۔ تو (دنیاوی مال و اسباب اور مادی ترقی سے) جو فائدے (آسائشیں) یہ اُٹھاتے رہے‘ اِن کے کس کام آئیں گی؟‘‘

کسی یہودی کی مسجد نبوی میں گھس کر ’’گستاخانہ جرأت‘‘ کا مظاہرہ کرنا ہو یا برقعہ پوش خواتین کا مسجد میں تاش کھیلنا‘ یہ دونوں اعمال کسی بھی عبادت گاہ کے احاطے میں بلاتفریق مذہب و مسلک ناپسندیدہ ہیں‘ تو کیا اِس قسم کی تصاویر کو مسلمانوں کی دل آزاری جیسی مذموم کوشش کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے جیسا کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے تیار کئے گئے تھے یا اُن کے بارے میں گستاخانہ مضامین کتابی صورت میں شائع کئے گئے یا قرآن کریم کے نسخے شہید کئے گئے۔ مسلمانوں پر اِس قسم کے مظالم اُس وقت تک جاری رہیں گے جب تک وہ ’اُمت واحدہ (متحدہ)‘ نہیں بن جاتے اور تب تک جذبات کے اظہار پر کنٹرول کرنا ہوگا۔ اُمت کے اتحاد کی دعائیں کرنا ہوں گی اور سمجھنا ہوگا کہ مذکورہ سازشیں درحقیقت مقدس مقامات‘ بعداز خدا بزرگ ہستیوں اور مساجد کے تقدس کو کم کرنے کی سوچی سمجھی (دانستہ) کوشش (منظم سازش) ہیں۔
۔
اس تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بین سیون نے روایتی عرب لباس پہن رکھا ہے، جو اس کے بقول وہ یروشلم سے لے کر آیا تھا اور وہ ایک بیگ میں لکھے اپنے نام کی جانب اشارہ کررہا ہے جو کہ عبرانی زبان میں تحریر ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ تصویر میں دیگر افراد کو احرام میں آتے جاتے دیکھا جاسکتا ہے، تاہم تاش کے پتے کھیلنے والی خواتین آرام سے اپنے کھیل میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ تصویر میں دیگر نقاب اور برقع پوش خواتین و احرام میں ملبوس مرد حضرات کو بھی فرش پر بیٹھا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment