ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ترقیاتی اہداف: اِنتظامی مشکلات!
خیبرپختونخوا حکومت کا شروع دن سے دعویٰ رہا ہے کہ اِس نے اُن تمام شعبوں کی ترقی کو نسبتاً زیادہ توجہ دی‘ جو ماضی میں ’نظرانداز‘ چلے آ رہے تھے اور اِس سلسلے میں ’’صحت و تعلیم‘‘ کا بطور خاص ’فخریہ ذکر‘ کیا جاتا ہے لیکن مختلف مدوں کے لئے صوبائی آمدنی سے مختص مالی وسائل اور اِن مالی وسائل کے استعمال سے متعلق اعدادوشمار چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں کہ ۔۔۔ ’’صوبائی حکومت اپنے ہی مقرر کردہ ’ترقیاتی اہداف‘ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘‘ صوبائی سطح پر منصوبہ سازی اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے درمیان پائے جانے والے ’زمین و آسمان‘ کے فرق کی وجہ سے رواں مالی سال (دوہزارسترہ اٹھارہ) کے اختتام پر ممکن نہیں ہوگا کہ ترقی کے لئے مختص تمام مالی وسائل باوجود خواہش و کوشش بھی خرچ ہو سکیں! شک و شبے سے بالاتر ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے باقی ماندہ پاکستان کے سامنے یہ ’’بینظیر مثال‘‘ پیش کی کہ ’’تعلیم ترجیح ہونی چاہئے۔‘‘ سال دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد‘ جب تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو اُس وقت ماضی کی حکومتیں تعلیم کے لئے زیادہ سے زیادہ سالانہ ’61 ارب روپے‘ مختص کیا کرتی تھیں‘ جس میں مثالی اضافہ کرتے ہوئے یہ رقم بڑھا کر سالانہ ’’138 ارب روپے‘‘ کر دی گئی اور پھر اِس میں ہر سال اضافہ بھی کیا جاتا رہا۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ رواں مالی سال (دوہزارسترہ اٹھارہ) کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران صوبائی حکومت کی جانب سے شعبۂ تعلیم کے لئے مختص رقم کا صرف ’’31فیصد‘‘ حصہ ہی استعمال ہو سکا ہے!
خیبرپختونخوا کا مسئلہ مالی وسائل کی کمی نہیں بلکہ درپیش انتظامی مشکلات ہیں‘جن کی وجہ سے ترقیاتی اہداف کے حصول ممکن نہیں ہو پا رہا۔ اِن محرکات میں صوبائی حکومت کی ترقی کے عمل پر خاطرخواہ توجہ مرکوز نہ ہونا بھی شامل ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے وفاقی سطح پر ’انسداد بدعنوانی‘ کے لئے جو ’گرانقدر‘ آئینی و پارلیمانی جدوجہد شروع کر رکھی ہے‘ اُس میں خیبرپختونخوا حکومت کو اِس طرح شریک ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی بلکہ ’خیبرپختونخوا محاذ‘ پر صوبائی سیاسی فیصلہ سازوں کو کارکردگی کے ذریعے دوسرے صوبوں کی حکومتوں پر عوام کا دباؤ بڑھانا تھا۔ کچھ ایسا منظر دیکھنے کو ملتا کہ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان میں ’’تحریک انصاف‘‘ کی طلب کرنے والے سڑکوں پر نکل آتے اور اپنی اپنی صوبائی حکومتوں کو جھنجوڑتے کہ دیکھو ’طرزحکمرانی‘ یہ ہوتی ہے لیکن آج یہی سوال قدرے مختلف اَنداز میں پوچھا جا رہا ہے کہ ۔۔۔ ’’کیا طرز حکمرانی ایسی ہوتی ہے؟‘‘
رواں مالی سال (دوہزارسترہ اٹھارہ) کے دوران سرکاری تعلیمی اِداروں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی اور تعمیرومرمت کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے صوبائی حکومت نے 20.3 ارب روپے مختص کئے‘ جس میں سے 14 ارب روپے بنیادی و ثانوی (ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن) اور 6.3 ارب اعلیٰ تعلیم (ہائر ایجوکیشن) کے شعبوں کی ضروریات کے لئے تھے لیکن منصوبہ بندی و ترقی کے صوبائی محکمے کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پہلے چھ ماہ کے دوران بنیادی و ثانوی تعلیم پر 7.88 ارب روپے جاری ہو سکے جن کا 33 فیصد (4.71 ارب روپے حصہ) ہی استعمال ہوا۔ یاد رہے کہ رواں مالی سال کے آغاز پر ’خیبرپختونخوا حکومت‘ نے ’انقلابی ترقیاتی حکمت عملی‘ پیش کرنے کا دعویٰ کیا تھا‘ جو اعدادوشمار کی حد تک تو ’سو فیصد‘ درست ہے یعنی صوبائی حکومت نے سالانہ ’’208 ارب روپے‘‘ کا جو ترقیاتی پروگرام پیش کیا تھا‘ اُس میں 82 ارب روپے غیرملکی ذرائع سے حاصل ہونا تھے اور 126 ارب روپے صوبائی حکومت کی اپنی آمدنی تھی۔ اِس 208 ارب روپے کے ترقیاتی حجم کے لئے چھ ماہ میں 61.4 ارب روپے جاری کئے گئے اور اِس اکسٹھ ارب سے زائد جاری ہونے والی اِس خطیر رقم کا بھی صرف ’34.8 فیصد (43.8 ارب روپے حصہ)‘ ہی استعمال ہو سکا! افسوسناک امر یہ ہے کہ اگر خیبرپختونخوا حکومت کی سالانہ ترقیاتی کارکردگی کا موازنہ خود اِس کے اپنے ہی ماضی سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ مالی سال (دوہزار سولہ سترہ) کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران کارکردگی قدرے بہتر تھی اور صوبائی حکومت نے ترقیاتی امور کے مختص مالی وسائل کا 36 فیصد حصہ خرچ کیا تھا جو کم ہو کر قریب پینتیس فیصد رہ گیا ہے!
عجب ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو صوبائی حکومت کی جانب سے دیئے جانے والی مالی وسائل کا بھی صرف 29 فیصد حصہ (2.2 ارب روپے) ہی استعمال ہو سکا ہے۔ تعلیم کی طرح صحت کے شعبے میں بھی خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی زیادہ متاثرکن نہیں۔ سالانہ ترقیاتی حکمت عملی میں صحت کے لئے ’’12 ارب روپے‘‘ مختص کئے گئے جن میں سے 5.3 ارب روپے جاری ہوئے اور چھ ماہ کے دوران اِس جاری کردہ پانچ ارب روپے سے زائد رقم کا 3.2 ارب روپے (26.9فیصد حصہ) خرچ ہوا۔
اعدادوشمار نہ تو ہمیشہ ’’گمراہ کن‘‘ ہوتے ہیں اور نہ بوریت بھرے بلکہ اِن کا ہر لفظ ’نپا تلا‘ اور ’اہمیت کا حامل‘ (نتیجہ خیز) ہوتا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی معلوم کرنے کا کوئی نہ کوئی ایسا معیار اور کسوٹی تو بہرحال مقرر کرنا پڑے گی‘ جس پر زمینی حقائق کی جانچ کی جا سکے اور مالی امور سے متعلق اعدادوشمار گواہ ہیں کہ تحریک انصاف کے لئے خیبرپختونخوا میں حکومت ’خوش نصیبی‘ ہے لیکن اِس سے عام آدمی (ہم عوام) کی زندگی میں ’تبدیلی‘ نمایاں نہیں۔ صوبائی حکومت کی آئینی مدت (پانچ سال) مکمل ہونے کو ہیں‘ اِس عرصے کے دوران صوبائی حکومت کی ترجیح چار شعبے (تعلیم‘ علاج معالجہ‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور شاہراؤں کی توسیع و تعمیر) رہے لیکن اِن میں سے کسی ایک میں بھی ’’سوفیصد ترقی‘‘ اور کسی ایک بھی مالی سال میں مختص مالی وسائل سے ’’سوفیصد استفادہ‘‘ نہیں کیا جاسکا۔
صوبائی فیصلہ سازوں کے پیش نظر ’’سیاسی‘ ذاتی اُور انتخابی مفادات‘‘ کے تابع ’ترقیاتی حکمت عملی‘ اگر اَدھوری (نامکمل) ہے تو اِس کی ذمہ داری بھی بہرحال ’تحریک انصاف‘ ہی کو قبول کرنا پڑے گی‘ چاہے کوئی سنے یا نہ سنے‘ توجہ دے یا نہ دے‘ قابل غور سمجھے یا نہ سمجھے لیکن خیبرپختونخوا کے مسائل حل کرنے میں حسب وعدہ اور اعلانات کامیابی حاصل نہ کرنے والی ’تحریک انصاف‘ کی مرکزی اور صوبائی قیادت کے احتساب (عام انتخابات) کی گھڑی دستک رہی ہے۔
۔
No comments:
Post a Comment