ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
بے جرم سزائیں!
پشاور کی قسمت میں ’فقط سزائیں‘ تحریر ہیں؟ جبکہ جنوب مشرق ایشیاء کا قدیم ترین زندہ تاریخی ’گندھارا تہذیب کا مرکزی‘ شہر اِس قسم کے ’متعصبانہ رویئے کا قطعی مستحق (حقدار) نہیں۔
آج کا پشاور تعمیروترقی کے ’اندھا دھند‘ دور سے گزر رہا ہے‘ جس نے نہ صرف شہری زندگی کے معمولات کو ’اُلٹ پلٹ‘ کے رکھ دیا ہے بلکہ عام انتخابات کے قریب شروع ہونے والی تعمیراتی سرگرمیاں دراصل ’وقت کا پہیہ‘ اُلٹ گھمانے کی ’ناکام کوشش‘ دکھائی دیتی ہے! لیکن پشاور کو ’’بے جرم سزاوار‘‘ ٹھہرانے والوں میں صرف تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت ہی ذمہ دار نہیں بلکہ اِس میں وفاقی حکومت بھی برابر کی شریک ہے‘ جس نے پہلے تو ’باچا خان انٹرنیشنل ائرپورٹ‘ کو پسماندگی اور غربت کی ایسی تصویر بنایا کہ یہ اِس ہوائی اڈے سے استفادہ کرنے والوں کو کسی بھی زاویئے سے یہ ایک ’انٹرنیشنل ائرپورٹ‘ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ مسافروں کے لئے جدید ترین سہولیات تو بہت دور کی بات‘ صفائی کے لحاظ سے بھی پشاور کا ائرپورٹ کچھ ایسا منظر پیش کرتا تھا کہ آمدورفت کرنے والے عازمین کے علاؤہ عزیزواقارب اور دوستوں کو ’پک اینڈ ڈراپ‘ کرنے والوں کی کوشش ہوتی کہ وہ جلد از جلد یہاں سے چلتا بنیں! اِن دنوں پشاور ائرپورٹ کی توسیع کا عمل جاری ہے‘ جس کے بارے میں شہری ہوابازی (سول ایوی ایشن اتھارٹی) حکام پراُمید ہیں کہ یہ کام پورے معیار اور خوبیوں کے ساتھ رواں برس (دوہزاراٹھارہ) کے چوتھے ماہ کے اختتام سے قبل مکمل کر لیا جائے گا۔ اِس توسیعی کام کی تفصیلات یہ ہیں کہ ’’2 ارب روپے کی خطیر رقم سے اندرون و بیرون ملک پروازوں کے لئے سہولیات میں اضافہ متوقع ہے لیکن نہ تو عمارتی ڈھانچے کی خاطرخواہ بڑے پیمانے پر توسیع دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی پہلے سے موجود رقبے میں اضافہ کیا گیا ہے بلکہ سبزہ زار اور راہداری کے اُن حصوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے‘ جن کی وجہ سے پہلے کچھ نہ کچھ کشادگی کا احساس ہوتا تھا۔ ائرپورٹ کے سامنے سبزہ زار کی اپنی اہمیت تھی‘ لیکن حکام کے لئے 700 گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش پیدا کرنا زیادہ بڑی ضرورت تھی‘ جبکہ یہ کام تین اطراف میں کشادہ سڑکوں پر باقاعدہ پارکنگ بنانے سے باآسانی ممکن تھا۔ ائرپورٹ کا ’پارکنگ پلازہ‘ حال و مستقبل کی ضروریات پوری کرسکتا تھا۔ بہرحال ملک کے دیگر ہوائی اڈوں کا اگر پشاور سے موازنہ کیا جائے تو سوائے کوئٹہ ائرپورٹ سب زیادہ ’بے سروسامانی پشاور‘ میں دکھائی دیتی ہے۔
پشاور ائرپورٹ پر عموماً 35 ہوائی جہازوں (فلائٹس) کی یومیہ آمدورفت ہوتی ہے جبکہ یہی ہوائی پٹی خصوصی طیاروں اور فضائیہ کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے‘ اگرچہ لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد جیسے تین بڑے ائرپورٹس کی طرح ’پشاور‘ مصروف ترین تو نہیں لیکن دفاعی اور شہری ہوا بازی کے نکتۂ نظر سے اِسے خاصی اہمیت حاصل ہے اور اِس کا استعمال خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے خلیجی ممالک کے محنت کش ترجیحی بنیادوں پر کرتے ہیں۔ یہی ائرپورٹ غیرملکیوں کی توجہ کا مرکز بھی ہے اور پشاور میں تعینات غیرملکی سفارتکار بھی اِسی کے ذریعے نجی یا چارٹرڈ اور بالخصوص معروف خلیجی ائرلائن ’ایمریٹس‘ سے استفادہ کرتے ہیں۔ چند روز قبل پشاور میں تعینات امریکی سفارت خانے کے سینیئر عملے کے اراکین نے ائرپورٹ حکام سے درخواست کی کہ اُنہیں کوئی باسہولت و محفوظ جگہ فراہم کی جائے جہاں وہ اپنی فلائٹ کا انتظار کر سکیں لیکن ائرپورٹ حکام نے معذرت کر لی کہ سفارتی عملے کو نہ تو اہم شخصیات کے لئے مخصوص حصوں تک رسائی دی جاسکتی ہے اور نہ ہی اُن کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کسی قسم کے انتظامات ممکن ہیں کیونکہ ائرپورٹ کی توسیع کا عمل جاری ہے!
امریکی سفارتکاروں کو پاکستانی حکام سے اِس قسم کے سرد رویئے کی قطعی توقع نہیں تھی‘ وگرنہ وہ کبھی بھی اپنی سبکی نہ کرواتے لیکن چند ہفتوں میں ایسا دوسری مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے جب امریکیوں سے عام مسافروں کی طرح سلوک کیا گیا ہو! ’جیسا منہ ویسی چپیڑ‘ کے مترداف ’شہری ہوا بازی‘ کے اہلکاروں نے یقیناًاِس قسم کی خلاف توقع سردمہری کا مظاہرہ حکام بالا سے پوچھ بلکہ ’پوچھ پوچھ کر‘ کیا ہوگا‘ وگرنہ امریکہ بہادر کے سفارتکاروں سے اِس قسم کے سلوک کی ماضی میں کوئی ایک بھی مثال ڈھونڈے نہیں ملتی!
جون دوہزار چودہ میں ہوئے ایک ہوائی حادثے کی وجہ سے پشاور ائرپورٹ پر رات کے وقت پروازوں کی آمدورفت معطل کر دی گئی تھی۔ اُس حادثے میں طیارے کو آگ لگنے سے ایک مسافر کی موت بھی ہو گئی تھی‘ جس کے بعد سہولیات میں اضافہ اور ائرپورٹ آپریشنز کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی بجائے غروب آفتاب کے بعد پروازوں کا سلسلہ ہی ختم کر دیا گیا۔ تصور کیجئے ایک ایسے ائرپورٹ کا‘ جہاں ہوائی جہازوں کی آمدورفت بھی خاص اوقات کے علاؤہ ممکن نہ ہو! ایک طرف مثالیں موجود ہیں کہ ائرپورٹس کی سہولیات کو چوبیس گھنٹے کے ہر سیکنڈ استعمال کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف ایک ایسا ائرپورٹ بھی ہے جہاں ایک گلاس پینے کے صاف پانی سے لیکر انتظارگاہوں میں نشستوں تک کچھ بھی مثالی نہیں!
ضرورت تو اِس امر کی تھی کہ دو ارب روپے سب سے پہلے تو ’نائٹ آپریشنز‘ کی بحالی پر خرچ کئے جاتے لیکن شاید مسافروں کا یہ دیرینہ مطالبہ کبھی پورا ہو پائے کیونکہ ’شہری ہوابازی‘ کا شعبہ وفاقی حکومت سے متعلق ہے اور اگرچہ اِس کے جملہ امور کی نگرانی کرنے والے مشیر کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے لیکن ’پشاور ائرپورٹ‘ کی قسمت بالکل اُسی طرح نہیں بدلی جس طرح خیبرپختونخوا میں وزیر سے وزیراعلیٰ اور گورنر جیسے کلیدی عہدوں پر تعینات رہنے کے باوجود اِس مشیر کے اپنے آبائی علاقے کی حالت زار میں تبدیلی نہیں آئی! پشاور ائرپورٹ سے اُڑان بھرنے والی ’پینتیس پروازوں‘ میں اکثریت غیرملکی روٹس پر اُڑنے والے جہازوں کی ہے جبکہ صرف چار مقامی (اندرون ملک) پروازیں ہیں۔
پورے خیبرپختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والوں کے لئے ہر روز اندرون ملک کی صرف چار پروازیں کسی بھی طور انصاف نہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسافروں کو طویل سفری مشکلات اور اخراجات برداشت کرکے بہ امر مجبوری اسلام آباد یا لاہور ائرپورٹس کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ ’بے جرم سزا‘ کا خاتمہ ہونا چاہئے۔
وفاقی حکومت اگر سیاسی وجوہات کی بناء پر پشاور کے حقوق اَدا نہیں کر رہی اور کسی بڑے (میگا) ترقیاتی پیکج کا اعلان بھی نہیں کیا جا رہا تو کم سے کم اپنے حصے کے اُس بنیادی فریضے سے تو عہدہ برآء ہو‘ جس کی وجہ سے ’پشاور ائرپورٹ‘ پشاور کے لئے بدنامی اور مسافروں کے لئے ’باعث آزار‘ ہے۔
۔
No comments:
Post a Comment