مہمان کالم
افغان قیام امن: واحد حل!
امریکہ کی سیاسی قیادت افغانستان میں اپنے غلط فیصلوں کے نتائج تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن خود اُس کے اپنے ادارے اِس بات کی گواہی دیتے ہوئے انکشاف کر رہے ہیں کہ ’سال دوہزار نو‘ سے افغان حکومت کے زیر اثر علاقوں میں کمی آئی ہے جبکہ عسکریت پسندوں کا مختلف علاقوں میں اثرو رسوخ بڑھ رہا ہے۔
’’افغانستان کی تعمیرِ نو‘‘ کے لئے خصوصی انسپکٹر جنرل ( سیگار) ’’جوہن ایف سوپکو‘‘ کی امریکی کانگریس کے سامنے پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’افغان طالبان کی کامیابی ایک حقیقت ہے‘‘ لیکن اس سے بھی زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ ’’عوامی مفادات کے معاملے پر افغان حکومت بالکل دور ہوچکی ہے۔‘‘ افغانستان کے حکمران ذاتی مفادات کو امن کی بحالی کے قومی تقاضوں پر ترجیح دے رہے ہیں۔ ’سیگار‘ دوہزار آٹھ میں بنایا گیا تھا جبکہ سال دوہزار نو میں کانگریس کے مینڈیٹ کے دوران اس نے افغانستان میں امریکہ کی شمولیت سے متعلق سہ ماہی رپورٹ کانگریس کو بھیجنا شروع کردی تھی تاہم آخری سہ ماہی میں امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے ’سیگار‘ کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ افغان کے اضلاع کی تعداد اور ان میں مقیم افراد‘ وہاں افغان حکومت یا مزاحمت کاروں کے کنٹرول یا دونوں کے مقابلے سے متعلق عوامی اعداد و شمار جاری نہ کرے۔ ظاہر ہے کہ اِس پابندی کا مقصد سوائے اِس بات کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ امریکہ کسی بھی صورت نہیں چاہتا کہ اُس کی ناکامی ظاہر ہو۔ قابل ذکر ہے کہ ’جوہن ایف سوپکو‘ نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’محکمہ دفاع کی جانب سے سال دوہزارنو کے بعد موجودہ سہ ماہی میں پہلی بار اس تشویشناک صورتحال کا سامنا دیکھنے میں آیا تھا جبکہ اس دوران افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز کے اعداد و شمار کی بھی مکمل درجہ بندی کی گئی تھی۔‘‘ کانگریس کو پیش کردہ اپنی حالیہ رپورٹ میں سیگار نے اس بات کا ذکر بھی کیا کہ گزشتہ برس اگست میں نئی افغان پالیسی کے بعد باغیوں کے خلاف امریکی فضائی حملوں اور خصوصی آپریشنز میں اضافہ ہوا۔
اکتوبر دوہزار سترہ میں امریکہ نے افغانستان میں 653 مرتبہ گولہ بارود گرایا‘ جو سال دوہزار بارہ کے بعد سب سے زیادہ تھا جبکہ اکتوبر دوہزارسولہ کے مقابلے میں اس میں تین گناہ اضافہ ہوا ہے لیکن رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ ان تمام کاروائیوں کے باوجود آبادی پر افغان حکومت کے کنٹرول میں اضافہ نہیں ہوسکا۔ پاکستان کی جانب سے امریکہ کو بارہا مطلع کیا گیا کہ افغانستان میں طاقت کے استعمال کی بجائے اِس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیا جائے۔ جب تک افغان طالبان کے تحفظات دور نہیں کئے جاتے اور اُنہیں قومی سیاست میں نمائندگی نہیں دی جاتی اُس وقت تک خانہ جنگی کا دور جاری رہے گا لیکن افغان طالبان کی مخالفت رکھنے والے ذاتی و سیاسی مفادات کے لئے اِس حقیقت کو تسلیم نہیں کر رہے‘ جو اُنہیں خود بھی زیادہ بہتر انداز و گہرائی سے علم ہے۔
’سیگار‘ کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نومبر دوہزارسترہ میں افغانستان میں امریکی فورسیز کے کمانڈر جنرل جوہن نیکولسن نے پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ 64فیصد افغان آبادی کا حصہ افغان حکومت کے کنٹرول میں ہے جبکہ 12فیصد حصے پر باغیوں کا اثر و رسوخ ہے اور باقی چوبیس فیصے متنازعہ علاقے موجود ہیں تاہم آئندہ دو برس میں افغان حکومت کا مقصد 80فیصد آبادی پر اپنا کنٹرول قائم کرنا ہے۔ ’سیگار‘ کی پیش کردہ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اگست میں پالیسی کے اعلان کے بعد زیادہ تر امریکی فضائی حملے افغان سیکیورٹی فورسیز کی حمایت کے لئے کئے گئے اور اس مہم کے دوران افغان سیکیورٹی فورسز اے 29‘ ائرکرافٹ استعمال کر رہی ہے جبکہ اسے امریکی فضائی کی جانب سے بی باون ایس‘ ایف اے اٹھارہ ایس سمیت اے دس تھنڈر بولٹس اور ایف بائیس ریپٹرز جیسے جدید جہازوں کی مدد بھی حاصل ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ امریکن (غیرملکی) اور افغان فورسیز کی جانب سے مسلسل فضائی حملوں کا ایک خطرناک نتیجہ تو شہریوں کی ہلاکت ہے جو افغان حکومت کی حمایت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے جبکہ اس سے باغیوں کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغان طالبان کے لئے اپنا مؤقف پیش کرنا نہایت ہی آسان ہو گیا ہے کہ افغان اور امریکی حکومتیں افغانستان کی بربادی کی اصل ذمہ دار ہیں۔ امریکی کانگریس میں پیش کردہ مذکورہ حالیہ رپورٹ میں اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کا حوالہ بھی دیا گیا ہے‘ کہ یکم جنوری دوہزار سترہ سے تیس ستمبر دوہزار سترہ تک قریب آٹھ ہزار سے زائد شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں جبکہ رپورٹ کے مطابق اکتوبر اور نومبر ’عام افغان شہریوں‘ کے لئے سب سے بدترین مہینے تھے جس دوران امریکی فورسیز کی جانب سے حملوں کے بعد باغیوں کی جانب سے امریکیوں کو مارنے کے سلسلے میں بھی اضافہ ہوا اور گزشتہ سال کے ابتدائی گیارہ ماہ میں گیارہ امریکی فوجی افغانستان میں قتل کئے گئے‘ جو سال دوہزارپندرہ اور دوہزار سولہ کے اعداد و شمار کے مطابق دوگنی تعداد ہے۔
امریکہ کو افغانستان میں جانی و مالی نقصانات ہو رہے ہیں لیکن اِس کے باوجود بھی وہ پاکستان کے مشورے اور کردار پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ سال دوہزار سولہ سے افغان سرزمین پر اندرونی حملوں میں افغان فورسیز کے اہلکاروں کی اموات میں کمی آئی ہے اور اکتیس اکتوبر دوہزار سترہ تک اِن حملوں میں ایک سو دو اہلکار ہلاک تھے تاہم دوبرس کے دوران اندرونی حملوں میں امریکیوں کی اموات میں اضافہ اور اکتیس اکتوبر کے اعداد و شمار کے مطابق ان حملوں میں تین امریکی فوجی ہلاک اور گیارہ زخمی ہوئے تھے۔ افغانستان کے محاذ پر امریکہ کو صرف جنگی محاذ پر ہی شکست کا سامنا نہیں بلکہ انسداد منشیات کی کوششیں بھی خاطرخواہ نتائج کی حامل نہیں۔
امریکہ کی جانب سے افغانستان میں انسداد منشیات کے لئے آٹھ ارب ستر کروڑ ڈالر کی امداد کے باوجود بھی گزشتہ برس افغانستان میں افیون کی پیداوار میں ستاسی فیصد اضافہ ہوا جبکہ افیون کی کاشت کے لئے زیراستعمال زمین کا رقبہ ساٹھ فیصد سے زیادہ ہے۔ امریکہ سمیت دنیا جس قدر جلد یہ حقیقت جان جائے کہ امن بذریعہ مذاکرات ہی واحد صورت ہے‘ اُتنا نہ صرف افغانستان بلکہ اِس کے ہمسایہ ممالک‘ خطے اور خود امریکہ کے لئے بہتر ہوگا۔
۔
No comments:
Post a Comment