Saturday, March 10, 2018

Mar 2018: Unity for Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اِتحاد برائے پشاور!
’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کی جانب سے ’’نئی (مجوزہ) حلقہ بندیوں‘‘ سے خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی نسبت پشاور سب سے کم متاثر ہوا ہے اور سوائے ’نمبروں‘ اور آبادی کی بنیاد پر چند سرکلز میں توڑ جوڑ کے سوأ زیادہ کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ اصل ضرورت کسی ایسے ’’کثیرالمقاصد (سیاسی انتخابی اُور سماجی) اِتحاد‘‘ کی ہے جو نسلی اور لسانی بنیادوں پر پشاور کو مزید تقسیم (ٹکڑے) ہونے سے بچائے اور پشاور کے مسائل کو مخاطب کرے۔ ازحد ضروری ہے کہ اِسی اتحاد کی برکت سے پشاور کو وہ قیادت بھی میسر آ سکے جو اِس کی ’حقیقی ترجمان‘ قرار پائے کیونکہ اب تک کے سیاسی و انتخابی تجربات سے یہی ثابت ہوا ہے کہ ہر سیاسی جماعت نے دوسرے سے بڑھ کر ’پشاور کا فائدہ‘ اٹھایا اُور چلتے بنے۔

آئندہ عام انتخابات (دوہزاراٹھارہ) کی تیاریاں جاری ہیں اور اِسی ماحول میں جاری ’گرما گرم‘ بحث کا ایک عنوان ’’جاگ پشاوری جاگ‘‘ بھی ہے۔ اِس نعرے سے بظاہر تعصب اُور امتیاز کی بُو آتی ہے لیکن ’ہندکو زبان‘ بولنے والوں کا یہ نکتۂ نظر اپنی جگہ غورطلب ہے کہ جب پشاور کے وسائل کے بروئے کار لاتے ہوئے (مختلف لہجوں میں) پشتو بولنے والے اپنی زبان پر فخر کر سکتے ہیں اور پشتو زبان و ثقافت ایک طبقے کو متحد رکھ سکتی ہے تو ’ہندکووان‘ ایسا کیوں نہیں کرتے اور اپنی زبان ’ہندکو‘ پر کماحقہ فخر کیوں نہیں کیا جاتا؟ پشاور کے شہری علاقوں پر مشتمل (ماضی کے اَین اَے ون) سے اِنتخابی اُمیدوار‘ پی ایچ ڈی اسکالر‘ سقاف یاسر (ایڈوکیٹ) سال 1990ء سے سکائینز (skyians) نام کی غیرسرکاری تنظیم (این جی اُو) کے سربراہ (چیف ایگزیکٹو آفیسر) ہیں اُور چاہتے ہیں کہ ہندکو زبان بولنے والے آئندہ عام انتخاب میں اپنی زبان و ثقافت سے تعلق رکھنے والے انتخابی اُمیدواروں کو ترجیحاً ووٹ دیں۔ ’ہندکو زبان‘ سے جڑے محض طنزومزاح کے تاثر و تصور کو زائل کرنے سے متعلق شعور اجاگر کرنا بھی اُن کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہے اور وہ ’’پشاور کو اُس کی کھوئی ہوئی سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی شناخت واپس دلانے کے لئے پراُمید ہیں۔‘‘ انٹرنیٹ کے ذریعے ’سماجی رابطہ کاری‘ کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے سقاف یاسر کا پیغام ہے کہ ’’قومی سیاست کرنے والی مذہبی اور دیگر جماعتوں نے انفرادی یا اجتماعی طور پر ہمیشہ ’پشاور‘ کو دھوکہ دیا اور بار ہا یہاں سے منتخب ہونے کے باوجود بھی ’پشاور کے حقوق‘ کماحقہ اَدا نہیں کئے۔ وقت ہے کہ پشاور کے نوجوانوں کو قیادت کرنے کا موقع دیا جائے‘ جن کی ترجیحات‘ فکرونظر اور بول چال میں ’صرف اُور صرف پشاور‘ کا عکس دکھائی دے۔ جو اپنی زبان و ثقافت پر فخر کریں۔ سماجی سطح پر اتحاد کے لئے کوششیں کی جائیں۔ تیزی سے پھیلتے پشاور کے وسائل پر آبادی کے بوجھ اور پائیدار ترقی کی راہیں متعین کی جائیں۔ پشاور کے ماحولیاتی تنوع اور تحفظ کی اِہمیت اُجاگر کرنے کے ساتھ شہری زندگی کا حسن اور صحت و تعلیم‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسی درکار بنیادی سہولیات جیسے موضوعات ہرسطح پر زیربحث لائے جائیں۔‘‘ شعور کی کسی بلند منزل پر ’جاگتے پشاور‘ کا خواب دیکھنے والوں کی ’انتخابی کامیابی‘ بصورت تحریک ممکن ہے لیکن اندیشہ ہے کہ سب سے زیادہ رکاوٹیں (مزاحمت) ’ہندکووان‘ ہی حائل کریں گے۔

بہت پرانی بات نہیں جب ۔۔۔ پشاور ’’پھولوں کا شہر‘‘ کہلاتا تھا کیا اب بھی ایسا ہی ہے؟ پشاور کے باغات وقف عام اُور پررونق ہوا کرتے تھے کیا باغات کو واگزار اور مفاد عامہ میں بحال ہونا چاہئے؟ پشاور میں صحت مند تفریح کے مواقعوں کی فراہمی کس کی ذمہ داری ہے؟ المیہ ہے کہ پشاور کی ’92 یونین کونسلوں‘ میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جہاں کے رہنے والوں کو بنیادی سہولیات‘ معیاری صحت و تعلیم اور پینے کا صاف پانی میسر ہو لیکن سارا زور (اصرار و نوحہ) اگر کسی بات پر ہے کہ تو وہ مجوزہ (نئی) حلقہ بندیوں پر ہے جس میں پشاور سے ’’این اَے ون ہونے کا اِعزاز چھن گیا ہے!‘‘

لغت میں ’سیاستدان‘ کی اِصطلاح اُس کردار کا صفاتی تعارف ہے‘ جو معاشرے میں اِختلافات پیدا ہی نہ ہونے دے یا اُن کے خاتمے کے لئے کوششیں کرے لیکن ہمارے ہاں سیاستدان اُس ’باکمال و باہنر شخصیت‘ کو کہا جاتا ہے جو اِختلافات کو ’ہمیشہ زندہ و تازہ دم‘ رکھنے کی مہارت رکھتا ہو۔ جس کے ہاں نت نئے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی اہلیت پائی جائے۔ اگر ’الیکشن کمیشن‘ نے تنازعات سے بچنے کے لئے عالمی اَصولوں کے مطابق ’’جنوب سے شمال کی طرف اِنتخابی حلقہ بندیاں‘‘ کی ہیں‘ تو اِس کی تعریف ہونی چاہئے تھی۔ سیاست کو اجتماعیت کے اصولوں پر استوار (تابع فرمان) بنانے کے لئے ہمیں کسی نہ کسی ایسے مسلمہ اصول کو بطور کسوٹی (پیمانہ) بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا جو اپنی فطرت میں اختلافی نہ ہو۔ یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ’شمال سے جنوب‘ کی طرف انتخابی حلقہ بندیوں میں پشاور سے کیا چھن گیا ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ پشاور سمیت خیبرپختونخوا کو کیا کچھ مل گیا ہے۔کیا مثبت سوچ اُور اجتماعی بہبود کی عینک لگا کر اصلاح و تبدیلی نہیں لائی جا سکتی؟

بنیادی سوال ہے کہ جب پشاور کی شناخت ’این اے ون (انتخابی حلقہ)‘ ہوا کرتا تھا تو اِس سے کیا حاصل ہوا اُور اگر یہ عدد (نمبر) تبدیل ہو جاتا ہے تو اِس سے مستقبل میں پشاور اُور اہل پشاور کی شناخت‘ بالخصوص شہری زندگی کو درپیش مشکلات و خطرات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ 

عام آدمی (ہم عوام) کے نکتۂ نظر سے کسی ایک بھی ’اِنتخابی حلقے‘ کے نمبر کی تبدیلی سے زیادہ اُس کی حدود کا تعین زیربحث آنا چاہئے‘ جیسا کہ آخری عام انتخابات (گیارہ مئی دوہزار تیرہ) میں ’این اے ون‘ پر رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد۔۔۔ 3 لاکھ 20 ہزار 581 تھی جبکہ نئی حلقہ بندیوں کے تحت پشاور سے قومی اسمبلی کا ایک حلقہ چھ سے آٹھ افراد پر مشتمل آبادی کا احاطہ کرے گا اُور جہاں ماضی میں تین لاکھ سے زائد آبادی کی نمائندگی کرنے والے کے لئے ممکن نہیں ہوتا تھا کہ وہ ’اہل پشاور‘ کے واجب الادأ حقوق کی کماحقہ ادائیگی کرسکے تو اب ’’چھ سے آٹھ لاکھ افراد‘‘ کی ضروریات اُور مسئلے مسائل کے بارے میں کسی فرد واحد سے تن تنہا غوروخوض کیسے ممکن ہو پائے گا؟ 

یقیناًپشاور (زبان و ثقافت‘ سیاسی‘ سماجی اُور اَفرادی ترقی)کے بارے میں سوچنے‘ سمجھنے اُور بیان سے ’لبالب اِتحاد‘ کی ضرورت پہلے سے زیادہ شدت سے محسوس کی جا رہی ہے! 

’’اِتحاد عمل سے ہوں سب کام ۔۔۔ 
کوئی دانا رہے نہ بندۂ دام (اَحمق پھپھوندوی)۔‘‘
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-03-10

No comments:

Post a Comment