Friday, March 9, 2018

Mar 2018: Delimitation: What's in the number?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
این اے ون : اعزاز کی حقیقت !
تاثر عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ’’مردم و خانہ شماری 2017ء‘‘ سے حاصل کردہ نتائج کی روشنی میں ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ نے جو ’قومی و صوبائی اسمبلیوں‘ کی مجوزہ (نئی) حلقہ بندیوں پیش کی ہیں اُس ابتدائی خاکہ سے ’پشاور کو حاصل یہ منفرد اعزاز‘ چھن گیا ہے کہ یہاں سے کبھی قومی اسمبلی کے انتخابی حلقوں کا آغاز ہوا کرتا تھا یعنی پشاور کے شہری علاقوں پر مشتمل ’این اے ون: پشاور ون‘ کا ذکر ہمیشہ سرفہرست رہتا لیکن اب ایسا نہیں ہوگا کیونکہ پشاور کو دیئے جانے والے قومی اسمبلی کے حلقے ’27 سے 31‘ نمبروں پر مشتمل ہیں اور اگرچہ نئے قومی و صوبائی حلقوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا گیا ہے لیکن نوشہرہ سے پشاور (مشرق سے مغرب) کی طرف شمار کے موجودہ طریقۂ کار سے پشاور کا احساس محرومی بڑھا ہے۔ 

تنقید برائے تنقید کرنے والے حلقہ بندیوں کے عمل کو ’جنوبی سمت‘ سے شروع کرنے کی بجائے اِسے وسطی علاقوں (پشاور) سے کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا کی نئی (مجوزہ) انتخابی حلقہ بندیاں شمال (چترال) سے جنوب (ڈیرہ اسماعیل خان) کی جانب سفر کرتی ہیں۔ یوں ’این اے ون‘ چترال جبکہ خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کا آخری انتخابی حلقہ ’’این اے 39 (ڈیرہ اسماعیل خان ٹو)‘‘ کہلائے گا۔ 

تعجب خیز امر ہے کہ سیاست میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے والی ’پاکستان تحریک انصاف‘ کی سربراہی میں خیبرپختونخوا حکومت کا حصہ کئی سرکردہ رہنما اور قوم پرست سیاست کرنے والی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں بھی جذبات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’این اے ون کا اعزاز‘ چھن جانے پر اظہار افسوس اور مذمت کر رہی ہیں اُور انہوں نے ’الیکشن کمیشن‘ سے رجوع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے‘ جہاں پہلے ہی ’اعتراضات وصول کرنے کے لئے‘ پانچ مارچ سے پانچ اپریل تک (ایک ماہ) کی مدت مقرر کی گئی ہے۔ عوام کی رہنمائی کرنے کی بجائے اُنہیں جذبات کے حوالے کرنے والی سیاسی جماعتوں کی ’ذہنی حالت‘ کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں اور نہ ہی سیاسی جماعتوں میں سوچ بچار کے عمل اور سیاسی پختگی کے معیار سے متعلق رائے قائم کرنا دشوار رہا ہے!

پشاور جنوب مشرقی ایشیاء کا قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہر ہے۔ اِس شہر کی ہم عصر تہذیبیں کھنڈر بن چکی ہیں لیکن پشاور میں آج بھی زندگی رواں دواں ہے اور چاہے اِسے ’این اے ون‘ کہا جائے یا کسی بھی انتخابی حلقے کے نمبر سے شناخت کیا جائے‘ پشاور تو اُس پھول کی پشاور ہی رہے گا‘ جس کے بارے میں برطانوی شاعر ولیم شیکسپیئر نے کہا تھا کہ ’’گلاب کا پھول تو گلاب کا پھول ہی رہتا ہے چاہے اُسے کسی بھی دوسرے نام سے مخاطب کیا جانے لگے۔‘‘ 

این اے ون کے شمار میں تبدیلی سے اِس حلقے کی نہ تو تاریخی اہمیت و افادیت کم ہو گی اور نہ ہی پشاور کے سیاسی قدکاٹھ میں کوئی ’منفی تبدیلی‘ آئے گی۔ یاد رہے کہ مجوزہ (نئی) انتخابی بندیاں اگر من و عن یا 10فیصد تبدیلی کی گنجائش کے بعد لاگو ہو جاتی ہیں تو مجموعی طور پر پشاور سے’’قومی اسمبلی کی پانچ‘‘ اور ’’خیبرپختونخوا (صوبائی) اسمبلی کی چودہ‘‘ نشستیں (پی کے 66 سے پی کے 79) تخلیق ہوں گی اور اِن میں ’این اے ون‘ سمیت اندرون پشاور کے علاقوں کی نئی انتخابی حدود مقرر ہو جائیں گی‘ جس کی تین ’ترجیحات‘ عالمی معیار کے مطابق مقرر کی گئیں ہیں‘ جو قانون گو حلقہ‘ پٹوار خانہ اُور آبادی (مردم شماری سرکلز) پر مبنی ہیں۔ اگر ’این اے ون‘ کے انتخابی حلقے کی کوئی خاص (جادوئی یا کرشماتی) اہمیت (خاصیت) ہوتی اور ’ون (ایک)‘ کا عدد پشاور کے لئے یا یہاں سے ماضی میں منتخب ہونے والے کے لئے ’خوش بختی‘ کی علامت ہوتا۔ 

مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں ’پاکستان تحریک انصاف‘ کے سربراہ عمران خان (این اے ون) پشاور سے ’’90 ہزار 434 ووٹ‘‘ جیسے غیرمعمولی ووٹ حاصل کئے لیکن انہوں نے پشاور سے ملنے والی محبت کی قدر نہیں کی اور دستبردار ہونے کے بعد ’بصد احترام ’این اے ون‘ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو دے دی۔ تحریک انصاف کی قیادت ’این اے ون‘ کے ’’مبینہ اعزاز‘‘ کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن اگر وہ اپنی توانائیاں اور وسائل ’تحریک کے داخلی اختلافات‘ ختم کرنے پر خرچ کرے تو اِس سے مستقبل میں ’این اے ون‘ پر شکست جیسی شرمندگی نہیں دیکھنا پڑے گی۔ 

حقیقت یہ ہے کہ صوبائی حکومت کی آئینی مدت (پانچ سال) اختتام کے قریب ہے اور اِس تمام عرصے میں ضلع پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے کسی ایک بھی ضلع میں ’تحریک انصاف‘ کا تنظیمی ڈھانچہ مثالی صورت میں دکھائی نہیں دیتا۔ پارٹی سے دیرینہ‘ مخلص اور نظریاتی (سفیدپوش) کارکنوں نے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور انتخابی سیاست میں سرمایہ کاری والے (منظم جرائم پیشہ عناصر کی طرح) ہر انتخابی حلقے میں اپنے اپنے گروہوں کی سرپرستی کر رہے ہیں! یادش بخیر ایک وقت وہ بھی ہوتا تھا جب پشاور میں صرف چند لوگوں کے پاس موٹرگاڑی ہوتی تھیں لیکن قیام پاکستان کے بعد جس تیزی سے سرمایہ داروں میں اضافہ ہوا‘ اور جس طرح اُوقاف کی اراضی‘ قومی وسائل کی لوٹ مار اور آمروں کا ساتھ دینے والے ٹیکس چور‘ راتوں رات سرمایہ دار بنتے چلے گئے تو اُس کے بعد موٹرگاڑی کی ملکیت کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ تب چھوٹے نمبروں کی رجسٹریشن کا رواج چل نکلا اُور معاشرے کے سیاسی بااثر و سرمایہ داروں کی پہچان ابتدائی نمبروں (سنگل ڈیجیٹ) کی گاڑیاں ہونے لگیں۔ گاڑیوں کی کمپیوٹرائزڈ رجسٹریشن متعارف ہونے کے بعد یہ رجحان بھی رفتہ رفتہ کم ہوتا چلا گیا جس کی جگہ موبائل فونز کے ’گولڈن نمبروں‘ نے لے رکھی ہے۔ بہرحال وقت بدل گیا لیکن ممتاز دکھائی دینے کے لئے ’روائتی انداز (پرانی) سوچ‘ نہیں بدلی اور یہی وجہ ہے کہ ’این اے ون‘ جیسے ’خیر محض نمبر‘ کو پشاور کے لئے ’اعزاز‘ قرار دیا جا رہا ہے‘ جنہیں اِس بات پر زور دینا چاہئے کہ ’’نمبر‘‘ کوئی بھی ہو اِس سے کیا فرق پڑتا ہے بلکہ اصل چیز تو پشاور کے مسائل کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-03-09

No comments:

Post a Comment