Sunday, March 4, 2018

TRANSLATION: Alarm Bells by Dr. Farrukh Saleem

Alarm bells
خطرے کی گھنٹیاں
پاکستان کی معیشت اور اقتصادیات کو خسارے لاحق ہیں۔ 
رواں مالی سال (دوہزارسترہ اٹھارہ) کے ابتدائی سات ماہ کا جائزہ لیا جائے تو آمدن اور اخراجات میں عدم توازن 48 فیصد جیسی بلند سطح کو چھو رہا ہے‘ جو قریب 9 ارب ڈالر کے مساوی خسارہ ہے۔ قرض لیکر معاملات سدھارنے کی کوشش اور حکمت عملی بھی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ باوجود قرض حاصل کرنے کے بھی غیرملکی ذخائر میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوسکا۔ ’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم ہر گزرتے دن کم ہو رہا ہے جو اِس وقت 12.7 ارب ڈالر ہے اور اِس کے ذریعے پاکستان صرف 2 ماہ کی درآمدات کرنے کے قابل ہے!

فروری 2017ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے درآمدات کی حوصلہ شکنی اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم کرنے کے لئے چند اقدامات کئے جن میں یہ بات بھی شامل تھی کہ 404 اشیاء کی درآمد کے لئے 100 فیصد نقد رقم ادا کرنا پڑے گی۔ اکتوبر 2017ء میں وفاقی وزارت خزانہ (ایف بی آر) نے 731 اشیاء پر اضافی درآمدی ڈیوٹی (محصولات) عائد کئے‘ اِن میں سے زیادہ تر چیزیں سامان تعیش تھیں جیسا کہ ڈائپرز‘ شیمپو‘ ٹماٹروں کا گودا (ٹومیٹو پیسٹ)‘ چاکلیٹ‘ دودھ یا اِس سے بنی ہوئی مصنوعات‘ کتوں کے لئے کھانے پینے کی اشیاء اور موٹر گاڑیاں شامل تھیں لیکن اِس کے باوجود بھی حکومتی آمدن و اخراجات (کرنٹ اکاونٹ) کے خسارے پر قابو نہیں پایا جاسکا جس میں اضافہ ہر تدبیر کی ناکامی ثابت ہو رہا ہے۔ ’’مریض عشق پر رحمت خدا کی ۔۔۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔‘‘

آمدن و اخراجات کے خسارے پر قابو پانے میں ’وزارت برائے مالیاتی امور (فنانس منسٹری)‘ مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔ قومی اسمبلی نے سالانہ آمدن و اخراجات کے میزانئے کی منظوری دی جس میں مجموعی قومی آمدنی کے تناسب سے 4.1فیصد یعنی 1.480 کھرب روپے کا خسارہ ظاہر کیا گیا تھا لیکن موجودہ بجٹ خسارہ چھ فیصد سے تجاوز کر گیا ہے جو 2.2 کھرب روپے کے مساوی ہے۔

پاکستان کے ’رواں خسارے‘ کی بنیادی وجہ قومی اداروں کی ناقص کارکردگی کے باعث خزانے پر بوجھ ہے۔ بجلی کے پیداواری شعبے کو لیں جہاں کبھی 120 ارب روپے کی بجلی چوری ہوا کرتی تھی اب یہ چوری بڑھ کر 360 ارب روپے ہو چکی ہے۔ جولائی 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے حکومت سنبھالی اور 480 ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا کیا لیکن ایسے اقدامات نہیں کئے کہ جن سے گردشی قرض پھر سے جمع نہ ہو اور نتیجہ یہ نکلا کہ پانچ سال مکمل ہونے سے پہلے ہی آج ایک مرتبہ پھر 520 ارب روپے کا گردشی قرضہ ’حکومت پاکستان‘ پر واجب الادأ ہے! علاؤہ ازیں حکومت نے 450 ارب روپے کی سرمایہ کاری ’پاور ہولڈنگ کمپنی پرائیویٹ لمٹیڈ‘ میں کر دی ہے لیکن مذکورہ پاور ہولڈنگ کمپنی کو چلانے اور اِسے فراہم کئے جانے والے قرض کی ادائیگی کے لئے مزید قرض حاصل کرنے پڑ رہے ہیں۔ اگر ہم بجلی کے پیداواری شعبے کے مجموعی خسارے کو دیکھیں تو وہ ’970 ارب روپے‘ جیسی بلند سطح کو چھو رہا ہے لیکن اِس قدر غیرمعمولی خسارے کو ہنسی خوشی برداشت کرنے والے حقائق کا مسلسل انکار بھی کر رہے ہیں۔
کیا یہ بات اپنی جگہ تشویشناک نہیں کہ ’پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس اُو)‘ کے قابل وصول محاصل (receivables) میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ 334 ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ اِسی طرح ’سوئی ناردن گیس پائپ لائنز (ایس این جی پی ایل)‘ کا خسارہ 15.9 ارب روپے اور پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن (پی آئی اے) کا سالانہ خسارہ 26 ارب روپے تک جا پہنچا ہے!

پاکستان کا اقتصادی خسارہ نہ صرف قومی آمدن کی مد میں ہونے والے نقصانات ہیں بلکہ غیرمحتاط حکومتی اخراجات اور غلط حکمت عملیوں کی وجہ سے ہر پاکستانی خاندان قریب 10 لاکھ روپے کا مقروض بھی ہو چکا ہے!

انگریزی زبان میں دنیا کے عظیم ترین مصنفین اور ڈراما نگاروں میں شمار ہونے والے‘ برطانیہ کے قومی شاعر ولیم شیکسپیئر (William Shakespeare) نے کہا تھا
’’ہم اپنی غلطیوں کے لئے مردہ لوگوں کو قصوروار ٹھہراتے ہیں! (He that dies pays all debts)۔‘‘

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

No comments:

Post a Comment