Saturday, March 3, 2018

Mar 2018: The delaying factors in RBT & increase in project cost!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پشاور: ترقیاتی و انتخابی اہداف!
تاریخ شاہد ہے اُور اِن دنوں پشاور سے کسی نہ کسی صورت مستقل یا وقتی واسطہ رکھنے والے گواہی دیں گے کہ صوبائی دارالحکومت کے طول و عرض میں جس بڑے پیمانے پر ’ترقیاتی عمل‘ جاری ہے‘ قبل ازیں کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا اور نہ ہی سرکاری کاموں میں کبھی بھی اس قدر باریکیوں (معیار و پائیداری) کو اِس طرح پیش نظر رکھا گیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ کسی بھی سیاسی حکومت کا کوئی بھی عمل ’غیرسیاسی‘ نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر کام میں اپنے ’سیاسی مفاد‘ کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں بالکل اِسی طرح عام انتخابات کے سال پشاور کی محبت کا غبار قابل فہم ہے۔ قانون سازی سے سڑکوں کی تعمیر اُور پشاور کی تاریخ کے مہنگے ترین ’ریپیڈ بس ٹرانزاٹ‘ منصوبے کا آغاز ’اکتوبر دوہزارسترہ‘ میں کیا گیا۔ قریب ’پچاس ارب روپے‘ کے اِس منصوبے کی تکمیل کے لئے چھ ماہ کا عرصہ جلدبازی میں کیا گیا فیصلہ تھا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح تحریک انصاف کے دور میں ہوئے جملہ ترقیاتی کاموں کے معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا جا رہا۔ اہل پشاور کو صبروتحمل (برداشت) کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ منصوبے‘ پر جاری کام کی رفتار نہیں بلکہ اُس معیار کو دیکھنا چاہئے جس میں امانت و دیانت کا پہلو نمایاں ہے اُور اعتراض کرنے والے کیا ماضی کی کسی بھی حکومت کی کوئی ایک مثال ایسی لا سکتے ہیں جس میں سرکاری کاموں میں یوں ’معیار ترجیح‘ رہا ہو؟

تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت نے ’ریپیڈ بس منصوبہ‘ کی تکمیل ’بیس اپریل (دوہزاراٹھارہ)‘ تک کرنے کی حتمی تاریخ (ڈیڈ لائن) مقرر کی‘ جس کا حصول ممکن نہیں لیکن اگر یہ منصوبہ حسب توقع و اعلان کسی مقررہ تاریخ پر مکمل نہیں بھی ہوتا تو کیا اِس کی ’اِہمیت و اَفادیت‘ ختم یا کم ہو جائے گی؟ تنقید کی پرواز ہمیشہ بلند ہوتی ہے البتہ تحریک انصاف کے شایان شان تھا کہ وہ ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ منصوبے کی جملہ تفصیلات صیغۂ راز میں نہ رکھتی اور ہر الزام کا جواب دیا جاتا۔ 

صوبائی حکومت پر پہلا الزام یہ ہے کہ بس منصوبے پر تعمیراتی کام میں تاخیر اور ڈیزائن میں تبدیلیوں کی وجہ سے منصوبے کی لاگت میں 2 ارب روپے سے زائد کا اضافہ متوقع ہے‘ جو کسی بھی طرح معمولی رقم نہیں۔ دوسرا الزام ریپیڈ بس ٹرانزٹ منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر سجاد خان جو اِن دنوں خرابئ صحت کی وجہ سے رخصت پر ہیں لیکن اُن کے بارے میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ منصوبے کے نگران (پراجیکٹ ڈائریکٹر) کی طبی بنیادوں پر رخصت ناراضگی کی وجہ سے ہے کیونکہ صوبائی حکومت نے تعمیراتی کام کی نگرانی ’پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے)‘ کو سونپ دی ہے جو زیادہ تجربہ کار ادارہ ہے جبکہ ’پی ڈی اے‘ حکام نے منصوبہ بندی اور ڈیزائن کے مراحل میں ہوئی کئی ایسی غلطیوں اور کمی بیشیوں کی نشاندہی بھی کی ہے‘ جس سے پراجیکٹ ڈائریکٹر کی اہلیت‘ تجربے اور مہارت کا راز فاش ہو چکا ہے اور اُنہوں نے رخصت لینے ہی میں اپنی عافیت سمجھی ہے۔ تیسرا یہ دعویٰ (اعتراض) یا الزام بھی اپنی جگہ وضاحت چاہتا ہے کہ ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ کے لئے مالی وسائل فراہم کرنے والی ’ایشین ڈویلپمنٹ بینک‘ نے آئے روز ڈیزائن میں ہونے والی تبدیلیوں پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور مزید یا آئندہ کسی بھی تبدیلی کے بارے میں پیشگی اجازت لینے کی شرط عائد کر دی ہے۔

تحریک انصاف کے مرکزی اور صوبائی فیصلہ سازوں کو سمجھنا چاہئے کہ ’معلومات تک رسائی‘ کے قانون اور صوبائی اسمبلی کی موجودگی میں بہت سی باتیں راز رکھنا ممکن نہیں ہوگا تو کیا ہی اچھا ہو کہ معلومات ذخیرہ اور اُنہیں چند افراد تک محدود رکھنے کی بجائے عام کیا جائے۔ 

سردست تحریک انصاف کے پاس صوبائی حکومت اور بالخصوص محکمۂ اطلاعات کے وسائل موجود ہیں جن کا استعمال کر کے ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ منصوبے کے بارے میں الزامات کی وضاحت ممکن ہے جو عام آدمی (ہم عوام) کے ذہنوں میں ’شکوک و شبہات‘ پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ 

پشاور میں ٹریفک نظام کی وسعت ایک عرصے سے ’ناگزیر ضرورت‘ تھی لیکن اِس کا ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ کے ذریعے حل تلاش کرنے کی کوشش بھی سوفیصد نتائج کی حامل نہیں ہو گی کیونکہ ’رنگ روڈ‘ کی تکمیل نہیں ہو سکی ہے۔ پشاور چار اطراف پھیل ہے اور اگر صوبائی حکومت ’رنگ روڈ‘ کی تکمیل اور رنگ روڈ کے سنٹر میڈیا (درمیان میں راہداری) پر تیزرفتار بس یا میٹرو ریلوے کا منصوبہ بناتی تو اِس سے ’جی ٹی روڈ سیکشن‘ پر پہلے سے موجود ٹریفک کا دباؤ بڑھانے کی بجائے اِس میں نمایاں کمی لائی جا سکتی تھی۔ عجیب منطق رہی کہ پہلے ’جی ٹی روڈ‘ کو ترقی دی گئی۔ ذیلی سڑکوں کو بہتر بنایا گیا۔ نکاسئ آب کا نظام اور سبزہ زار (گرین بیلٹس) بنانے پر چار سال تک کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے رہے لیکن بعدازاں سب کچھ آن کی آن میں اُکھاڑ پھینک دیا گیا۔ 

سرکاری وسائل کا اِس قدر ضیاع شاید ہی ماضی کے کسی دور حکومت میں دیکھنے میں آیا ہو لیکن چونکہ ’اِس خرابی میں تعمیر کی ایک صورت بھی پنہاں‘ ہے تو اُمید کی جا سکتی ہے کہ ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ منصوبے کی تکمیل کے بعد ’جی ٹی روڈ‘ پر تجربات کا جاری سلسلہ کم سے کم پچاس سال کے رُک جائے گا۔ 

جی ٹی روڈ پر ٹریفک دباؤ کے بنیادی محرکات میں جنرل بس اسٹینڈ اور پشاور بس ٹرمینلز بھی ہیں‘ جہاں سے بلاناغہ ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں اور لاکھوں کی تعداد میں مسافروں کی آمدورفت رہتی ہے‘ جس طرح پشاور کی سبزی منڈی کو بیرون شہر منتقل کیا گیا اِسی طرح دیگر منڈیاں اور بس اڈوں کا بھی انتقال ہونا چاہئے۔ 

منطقی امر ہے کہ پشاور کا بس ٹرمینل ایک ہونا چاہئے اور یہ بس ٹرمینل ’ریپیڈ بس ٹرمینل‘ کے آغاز پر ہو تاکہ پشاور داخل اور خارج ہونے والے باسہولت‘ تیزرفتار اور باعزت بس ٹرانسپورٹ سے باآسانی استفادہ کر سکیں۔ جدید سہولیات کے ساتھ بین الصوبائی اور بین الاضلاعی پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بھی سنجیدہ توجہ چاہتا ہے۔ 

پشاور کو ایک جدید بس ٹرمینل (پبلک ٹرانسپورٹ منیجمنٹ سسٹم) کی ضرورت ہے اور اگر تبدیلی کی سوچ میں اِس ضرورت کے بارے میں بھی غور کیا گیا تو ’اہل پشاور مشکور و ممنون رہیں گے!‘
۔

No comments:

Post a Comment