ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ایک ہاتھ کی تالی!
پاکستان کی کوشش ہے کہ ترکی کے ساتھ ’’آزاد تجارت کا معاہدہ (فری ٹریڈ ایگریمنٹ)‘‘ کی ایک مرتبہ پھر توثیق ہو جائے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تجارت کا حجم جو کہ 5 ارب ڈالر ہو سکتا ہے اُسے سال 2022ء تک 10 ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکے۔ اِس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا عمل فروری 2015ء سے جاری ہے جبکہ اکتوبر 2015ء میں انقرہ اجلاس اہم پیشرفت تصور ہوتی ہے لیکن اِن تمام کوششوں کا حاصل (لب لباب) یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان اور ترک حکام اِس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ دوطرفہ تجارت پر عائد 85 فیصد اخراجات (محصولات) کم کئے جائیں لیکن جس قدر گرمجوشی پاکستان کی جانب سے دیکھنے میں آ رہی ہے‘ ترک حکام اُس قدر مہربانی کا مظاہرہ نہیں کر رہے‘‘ اُور یہی وجہ ہے کہ وزارت تجارت نے وفاقی کابینہ سے پاکستانی مصنوعات پر ترکی میں ڈیوٹی کی کمی یا پھر پاکستان کی یورپی نظام کے تحت ترجیحات کے عمومی نظام کی حیثیت میں توسیع کے معاملے کو لیکر ترک حکام پر زور دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزارتِ تجارت نے وفاقی کابینہ کو باقاعدہ طور پر اس بات سے بھی آگاہ کیا ہے کہ ایسے ترقی پذیر ممالک جو ترجیحات کے عمومی نظام کی حیثیت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ ان میں سے ترکی نے پاکستان اور ارمانیہ کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کو توسیع دینے سے انکار کردیا ہے اُور ضرورت اِس امر کی ہے کہ ترک حکومت سے پاکستانی مصنوعات پر دی جانے والی بھاری اضافی ڈیوٹی ختم کرانے کے لئے بات چیت کی جائے۔
فروری دوہزارپندرہ سے اب تک اسلام آباد اور انقرہ کے درمیان ہونے والے ’’آزاد تجارتی معاہدے‘‘ کے لئے مذاکرات میں متعدد مرتبہ اضافی ڈیوٹی کے مسئلے کو اجاگر کیا گیا تاہم اس معاملے میں اب تک خاطرخواہ پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ پاکستان نے اپنے حصے کی رعائت تو دے دی جس سے ترکی فائدہ بھی اٹھار رہا ہے لیکن پاکستان کو برآمدات بڑھانے میں خاطرخواہ فائدہ نہیں ہورہا۔ اِس وقت جو پاکستانی مصنوعات زیرِبحث ہیں‘ اِن میں ٹیکسٹائل‘ کارپٹ‘ ہاتھوں سے بنے فائبر‘ پلاسٹک اور جوتے وغیرہ شامل ہیں۔ اِن مصنوعات پر بیس سے پچاس فیصد تک ڈیوٹی مقرر ہے جبکہ مجموعی طور پر اِن اشیاء پر 28 سے67فیصد کی ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے جبکہ ان کے ساتھ دیگر (اضافی) محصولات بھی لاگو ہوتے ہیں۔ ترک حکام کی جانب سے اس قدر بھاری ڈیوٹیز کے نیتجے میں سال دوہزارگیارہ سے پاکستانی مصنوعات کی برآمدات میں کمی ہو رہی ہیں اور یہ کمی قریب ستر فیصد جیسی غیرمعمولی ہیں‘ جو سات برس قبل 90کروڑ 60لاکھ ڈالر تھیں اور گزشتہ مالی سال تک کم ہوکر 28کروڑ 20لاکھ ڈالر رہ گئیں ہیں۔ وزارتِ تجارت کے نظر میں ترک حکومت پابند ہے کہ وہ پاکستان کی آزاد تجارتی حیثیت بحال کرے کیونکہ وہ خود بھی یورپی یونین کی کسٹم یونین کا سابق رکن ہے۔ یہی وہ مطالبہ ہے جو 2017ء میں ترک حکام سے کیا جاچکا ہے تاہم اس معاملے میں مذاکرات کی بجائے ’’آزاد تجارتی معاہدے‘‘ کی تجویز سامنے آئی۔ گزشتہ برس جون میں اِسی معاہدے کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں پاکستان نے ترکی سے مطالبہ کیا کہ اِس کی خصوصی حیثیت میں توسیع کی جائے یا پھر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی ٹیکس کے حوالے سے رعایت دی جائے۔ مذکورہ میٹنگ میں ترکی نے دوہزار گیارہ میں نافذ ہونے والی اضافی پچیس فیصد ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز پیش کی تھی‘ جو پانچ سال کے لئے تھی جبکہ دیگر مصنوعات کے لئے گیارہ سال تک توسیع کے امکان کو رکھا گیا تھا لیکن پاکستان نے ترکی کی اِس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے ترک حکام پر زیادہ سے زیادہ نرمی دکھانے کی ضرورت پر زور دیا تھا لیکن اگر حالیہ کوششیں بھی ناکام ہو جاتی ہیں تو اس کے بعد پاکستان درآمد ہونے والی ترک مصنوعات پر بھی اضافی ٹیکس لاگو کرنے کے سوا کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہے گی‘ جس کے لئے ترکی ذہنی طور پر تیار دکھائی دیتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو اُس کے لہجے میں سختی کا عنصر یوں غالب دکھائی نہ دے رہا ہوتا۔ گزشہ برس دسمبر میں آزاد تجارتی معاہدے سے علیحدگی کے بعد ’پاکستان اور ترکی کے درمیان جوائنٹ ورکنگ گروپ‘ کا اجلاس ہوا‘ جس میں یہ معاملہ ایک مرتبہ پھر اٹھایا گیا لیکن نتیجہ خیز نہیں رہا۔ مذکورہ مذاکرات میں ترک حکام نے واضح کیا تھا کہ ’’ترکی ان ممالک کو ’آزاد تجارتی حیثیت‘ نہیں دے گا جو پہلے ہی اس سے مستفید ہو چکے ہیں۔‘‘ ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس میں ہونے والے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی اُو) اجلاس کے موقع پر بھی پاکستان کی جانب سے ترکی کو منانے کی کوششیں رائیگاں رہیں۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان اب تک آزاد تجارت کے معاہدے سے متعلق جو پہلے دوہزار سولہ میں ہونے تھے انہیں دوہزارسترہ میں ہونا طے (شیڈول) کیا گیا اور ابھی بھی دونوں ممالک کے درمیان اس معاملے پر بات چیت کے لئے مذاکرات متوقع نہیں۔
حقیقت حال تو یہ ہے کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان گرمجوش تجارتی تعلقات ’ایک ہاتھ سے تالی بجانے کی کوشش‘ ہے۔ ترک دو طرفہ تجارت اور آزاد تجارت کی بجائے یک طرفہ برآمدات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
عالمی سطح پر پاکستان سے محبت کا اظہار کرنے والے ممالک کی کمی نہیں لیکن کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اپنے قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر پاکستان کو موجودہ اقتصادی مشکلات سے نکلنے میں مدد فراہم کرے۔ پاکستان کو درپیش دوسرا اہم مسئلہ مصنوعات کے معیار کا بھی ہے۔
ترک مصنوعات معیار میں بہتر ہونے کی وجہ سے عالمی منڈی میں اپنا مقام رکھتی ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قابل بھروسہ ’میڈ اِن پاکستان (Made in Pakistan)‘ اور ’میک اِن پاکستان(Make in Pakistan)‘ جیسے انقلابی اقدامات کئے جائیں تاکہ پاکستانی مصنوعات کی منڈیوں میں مانگ اور فوری کھپت ممکن ہو۔ تجارت بڑھانے کا کوئی بھی دوسرا ذریعہ (شارٹ کٹ) کامیاب نہیں ہو سکے گا کیونکہ توانائی بحران‘ اِقتصادی مسائل اور پاکستانی کرنسی پر دباؤ کے علاؤہ مہنگائی جیسے اسباب پاکستانی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں مقابلے کے قابل نہیں بنا پا رہیں۔ دوست ممالک سے توقعات وابستہ کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن خوش فہمی کی بجائے حقیقت حال کا ادراک ضروری ہے کہ اقتصادی مشکلات کی موجودہ گھڑی میں پاکستانی برآمدات کو سہارا دینے کوئی نہیں آئے گا‘ جب تک ہم خود اپنی خامیوں اور کمیوں کو دور نہیں کرتے۔
۔
No comments:
Post a Comment