ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
محروم توجہ زراعت!
خیبرپختونخوا حکومت کی عملداری کہاں ہے؟ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ نرخنامے کی اگر کوئی بھی پابندی نہیں کرتا تو ایسے قانون شکنوں سے ’’قانون کے مطابق معاملہ‘‘ کون کرے گا؟ زراعت کی سرپرستی اور کاشتکاروں کے مفادات کا تحفظ کس کی ذمہ داری ہے؟
حکومت کی جانب سے فی من گنے کی قیمت 180 روپے مقرر کی گئی ہے لیکن شوگر ملز کی جانب سے گنا 140 روپے فی من کی قیمت پر خریدا جا رہا ہے اور اِس ’’کھلم کھلا قانون شکنی‘‘ پر سراپا احتجاج ’گنے کے کاشتکاروں‘ نے اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت کے مقرر کردہ نرخوں کے مطابق کاشتکاروں کو ادائیگیاں ممکن نہ بنائیں اور گنے کے کاشتکاروں کی شکایات کا ازالہ کرتے ہوئے اُس اقرباء پروری کی پالیسی کا بھی خاتمہ بھی نہ کیا گیا‘ جس کی وجہ سے سیاسی اثرورسوخ رکھنے والوں کو فائدہ ہو رہا ہے تو سوائے احتجاج کرنے کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہے گا۔
پشاور کے ٹاؤن ٹو ناظم ’فرید اللہ خان کافورڈھیری‘ گنے کے کاشتکاروں کی آواز بنے ہوئے ہیں جن کی زیرصدارت اجلاس میں اگرچہ صرف ’ٹاؤن ٹو‘ کی حدود میں گنے کے کاشتکاروں نے شرکت کی لیکن اگر وہ اپنے اصولی مؤقف کو منوانے اور حکومت پر دباؤ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اِس سے خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی چھوٹے بڑے کاشتکاروں کو فائدہ ہوگا‘ جن کی آنکھیں انصاف کی راہ دیکھتے پتھرا چکی ہیں۔ ’’پھرے تو پھرے جیسے آفت زدہ ۔۔۔ رہے تو رہے جیسے محنت زدہ (میر تقی میرؔ )۔
لمحۂ فکریہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ’گنے کی سپورٹ پرائس‘ مقرر کرنے اور زمینداروں کو حسب قیمت ادائیگیاں کرنے کی یقین دہانی ’کین کمشنر‘ کی جانب سے کروائی گئی تھی‘ جس کی وجہ سے کاشتکاروں نے اپنا احتجاج مؤخر کردیا تھا لیکن صورتحال جوں کی توں ہے۔ جب معاملہ گرم تھا اور کاشتکاروں کا غم و غصہ عروج پر تھا‘ تب درجۂ حرارت کو ٹھنڈا کرنے کے لئے شوگرملز مالکان نے ابتدأ میں گنے کی پوری ’سپورٹ پرائس‘ ادا کی لیکن بعدازاں 180کی بجائے 140 روپے اور اِس سے بھی کم کی ادائیگیاں کی جانے لگیں کیونکہ ایک تو شوگر ملز مالکان سیاسی اثرورسوخ رکھتے ہیں اور دوسرا کاشتکاروں کے مقابلے سرمایہ دار ہونے کی وجہ سے وہ کسی قانون اور عدالت سے خوفزدہ نہیں کیونکہ اگر کاشتکار عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے یا عدالت ازخود نوٹس لے گی تو دونوں ہی صورتوں میں شوگرملز بذریعہ مہنگے ترین نامور وکلاء کی خدمات حاصل کر لیں گے‘ جو عدالتی کاروائی (مقدمے اور سماعتوں) کو اتنا طول دیں گے کہ فوری طور پر کسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے گنے کا کاشتکاروں کی اُمیدیں گنے کے ریشوں میں چھپے رس کی طرح خشک ہو چکا ہوگا۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ ایک یا دو روپے مہنگی جنس فروخت کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کے چرچے کئے جاتے ہیں لیکن کھلے عام کاشتکاروں کو استحصال کرنے والوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حکومت کی ’رٹ (عملداری)‘ قائم کرنے کے لئے متعلقہ محکمہ (سرکاری اہلکار) ماضی کی طرح آج بھی ’’مصلحتوں کے شکار (ذاتی مفادات کے اسیر)‘‘ دکھائی دیتے ہیں!
درحقیقت کسی معاشرے کے سب سے اہم افراد (VVIPs) وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی محنت اور خون پسینے سے پیداواری عمل کو آگے بڑھاتے ہیں‘ جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ اپنے تجربے سے دوسروں کے لئے بھی روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ زراعت سے وابستہ 70فیصد افراد کا روزگار اور بالخصوص خیبرپختونخوا کی معیشت کو زرعی پیداوار (سبزی و پھل) اور لائیوسٹاک ہی نے سہارا دیا‘ بصورت دیگر دہشت گردی کے سبب امن و امان کی خراب صورتحال نے تباہی و بربادی میں کوئی کسر چھوڑ نہیں رکھی تھی لیکن افسوس کہ بالخصوس کاشتکاروں اور زمینداروں و باغبانوں کے مسائل کی جانب توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے بعد مذکورہ ’خون پسینہ ایک کرنے والے‘ طبقات کی خدمات اور ہمت کا عملاً اعتراف کیا جا رہا ہے!
خیبرپختونخوا حکومت کو سوچنا چاہئے کہ جن ’شوگر ملز‘ نے گنے کی مقررہ سپورٹ پرائس پر خریداری سے انکار کر رکھا ہے یا جنہوں نے حکومت کے مقرر کردہ نرخنامے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے گنے کی قیمت خرید بھی تاحال مقرر کی نہیں کی تو ایسے ناجائز منافع خوروں (مفادپرستوں) سے نمٹنے کی حکمت عملی کیاہونی چاہئے اور اگر اِس ’مستقل مسئلے‘ کا کوئی ’پائیدار عملی حل‘ تلاش کرنے کی نیت ہے تو اُس کے لئے قانون سازی کے سوأ راستہ نہیں۔ حد سے زیادہ گنے کی کاشت نہ ہو اور شوگر ملز اپنی استعداد (پیداواری صلاحیت) کے مطابق گنے کی فوری خریداری کریں‘ تو زرعی پیداوار سے لیکر شوگرملز کی خریداری تک پورے نظام کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ یادش بخیر اراکین صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی تنخواہوں اور میں مراعات میں اضافے کی ترمیم اگر ’آن کی آن (کھڑے کھڑے)‘ منظور ہو سکتی ہے اور سبھی سیاسی جماعتیں کسی ایک نکتے پر متفق ہو سکتی ہیں تو زمینداروں اور کاشتکاروں کے مسائل حل کرنے کے لئے قانون ساز کیوں متحد نہیں ہو سکتے؟
عام آدمی (ہم عوام) کو بھی سوچنا چاہئے کہ جن سیاسی جماعتوں کو وہ اب تک اپنے ووٹ (نمائندگی) کا حقدار سمجھتے رہے ہیں درحقیقت وہ عوام کے نہیں بلکہ خواص کے ترجمان ہیں اور اُن سے خیر کی ہر توقع کا ہمیشہ خون ہوا ہے اور آئندہ بھی ہوگا!
کیا خیبرپختونخوا‘ ایک مرتبہ پھر اُنہی آزمودہ (بار بار آزمائی ہوئی) سیاسی جماعتوں اُور دھڑوں (عوامی نیشنل پارٹی‘ پیپلزپارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ (نواز)‘ پاکستان تحریک انصاف یا پھر دینی و سیاسی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن)‘ جماعت اسلامی اور دیگر بشمول دینی جماعتوں کے اتحاد ’متحدہ مجلس عمل‘) کو ووٹ دینے جیسی ’دانستہ غلطی کا ارتکاب‘ گا‘ جنہوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کو عزیز (پیش نظر) رکھا؟
اَمر واقعہ یہ ہے کہ ’کین کمشنر‘غریب کاشتکاروں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے جبکہ (صاحب بہادر) ڈپٹی کمشنر پشاور بھی اپنے فرائض سے پہلوتہی کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ ایسی صورت میں اَگر کاشتکار ’بہ اَمر مجبوری‘ اِحتجاج کرتے ہیں اُور اِس سے امن و امان کی کوئی صورتحال پیدا ہوتی ہے جس سے پشاور میں پہلے سے متاثرہ ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے تو اِس کے لئے ذمہ دار کون ہوگا؟
کیا ڈپٹی کمشنر پشاور سمیت سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کو ’رَتی بر اِحساس‘ ہے کہ کاشتکار کتنی محنت اور پیٹ کاٹ کر کوئی ایک فصل تیار کرتے ہیں‘ جس کی اُنہیں پیداواری لاگت تک نہیں ملتی تو اُن بیچاروں کی بڑھتی ہوئی غربت و پسماندگی بھی فیصلہ سازوں کے پیش نظر نہیں؟ ’محروم توجہ زراعت‘ کو خاطرخواہ توجہ دیئے بغیر ’غذائی خودکفالت‘ کے مقررہ اہداف حاصل نہیں ہو پائیں گے۔ زرخیز ’زرعی اراضیوں (قطعات) کو اگر ہمیشہ کے لئے تباہ ہونے سے بچانا ہے اور اگر زراعت کو لاحق ’ہاوسنگ سوسائٹیز‘ جیسے جاری ’ناقابل تلافی نقصانات‘ پر حکومتی سطح تشویش پائی جاتی ہے تو کاشتکاروں اور کاشتکاری کے مسائل حل کرنا ہوں گے‘ کیونکہ خستہ حال کاشتکاروں کی حالت زار تبدیل کرنے کی دوسری کوئی ’پائیدار عملی صورت‘ باقی نہیں رہی!
۔
No comments:
Post a Comment