ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پشاور کی خبریں!
’روزنامہ آج‘ کی اشاعت میں شامل ’’پشاور کی خبریں‘‘ مستقل و مسلسل اُور مربوط سلسلہ ہے‘ جو نہ صرف ’اپنے شہر‘ سے آگاہی کا ’(مستند) وسیلہ ہے بلکہ مقامی اور غیرمقامی اہل پشاور یا ایک جیسی دلچسپی رکھنے والے قارئین آپس میں جڑے رہتے ہیں تاہم ’صفحہ 2‘ کے ذریعے ’پشاور شناسی‘ میں اضافہ ہونے کے امکان بارے ادارتی فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ صحافت ایک مشن بھی تو ہوسکتا ہے۔
نہایت ہی شدت سے کمی اِس بات کی بھی محسوس ہو رہی ہے کہ پشاور سے متعلق درپیش مسئلے مسائل کی بابت عام آدمی (ہم عوام) کی آراء خصوصیت اور تواتر سے شائع ہوں۔ فی الوقت پشاور کے لئے مختص جگہ (space) کا بڑا حصہ اعلامیوں (احکامات)‘ روائتی سیاسی و غیرسیاسی بیانات اور اُن واقعات کی خبروں نے لے رکھی ہے‘ جن کا اِرتکاب بصورت معمول یا جرائم ہوتا ہے۔ تین مارچ کی اشاعت میں چار کالم شہ سرخی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ ’’(پشاور:) قبرستان پر قبضہ مافیا کے خلاف کاروائی‘ اُوقاف سے رابطہ۔‘‘ اِس خبر کو صفحے کے بالائی حصے میں نمایاں کرکے شائع کرنے کا مقصد یہی ہوگا کہ ’صوبائی اور ضلعی حکومتوں‘ کی جانب سے ’فوری توجہ (نوٹس)‘ لیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اب تو یہ بات پشاور سے شائع ہونے والے اور پشاور کی محبت کا دم بھرنے والے بہت سے اخباروں کے لئے خبر بھی نہیں رہی کہ ’’قبرستانوں کی اراضی قبضہ ہو رہی ہے اور صوبائی حکومت کی ناک کے نیچے قبضہ مافیا کی کاروائیاں جاری ہیں۔‘‘ عجب ہے کہ نہ تو خبر کا اثر ہو رہا ہے اور نہ ہی قانون کا خوف محسوس کرنے والوں کی کمی ہے!
سیاسی پشت پناہی رکھنے والے اِیسے عناصر معلوم ہیں‘ جن کے لئے ’انٹرپول‘ یا ڈرون طیاروں کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اِن ’دیدہ دلیر قانون شکنوں‘ نے کسی ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہے جس سے متعلق قانون کی کتابیں خاموش ہیں اور معلوم ہی نہیں ہو رہا کہ کن دفعات کا اطلاق کیا جائے!
صد افسوس کہ ماضی کی طرح ’تبدیلی کی علمبردار‘ موجودہ صوبائی و ضلعی حکومتیں بھی مصلحتوں کا شکار ہیں‘ جن کے لئے ذرائع ابلاغ کی طرف سے ’’نشاندہی اور رہنمائی‘‘ کی خاطرخواہ اہمیت نہیں تو اِس (تجاہل عارفانہ پر مبنی) طرزِعمل سے ’صحافت یا اہل صحافت‘ کا نہیں بلکہ ’اہل سیاست‘ اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ المیہ ہے کہ خبروں کی قدر و اِہمیت تو باقی ہے لیکن چونکہ متعقلہ حکام اِن کے بارے میں ’حساس‘ نہیں رہے تو خبریں خبروں کے بوجھ تلے دب کر دم توڑ رہی ہیں!
تین مارچ کو شائع ہوا کہ ’’(پشاور کے) زاہد آباد علاقے میں سرکاری قبرستان کی کھدائی جاری ہے۔ کچھ لوگ قبضہ کرنا چاہتے ہیں لیکن آغا میرجانی شاہ پولیس نے (بروقت کاروائی کرتے ہوئے) ملوث افراد کو غیرقانونی اقدام سے روک دیا۔‘‘ لمحۂ فکریہ ہے کہ پولیس نے ’غیرقانونی اقدام‘ میں ملوث افراد کو روکا لیکن اُن کے خلاف کاروائی نہیں کی اور یہی وجہ رہی کہ نہ صرف زاہد آباد بلکہ دیگر قبرستانوں کی اراضی پر قبضہ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی نہیں ہوئی۔ حال تو یہ ہے کہ قبرستانوں کی اراضی ہڑپ کرنا نہ تو اخلاقی اور نہ ہی قانونی جرم تصور ہو رہا ہے اور اگرچہ یہ معاملہ پشاور ہائی کورٹ تک جا پہنچا ہے جہاں صوبائی حکومت نے دو ماہ کی مہلت لے رکھی ہے لیکن قبرستان محفوظ نہیں کئے جاسکے۔ یوں لگتا ہے کہ دو ماہ کی مہلت باقی ماندہ قبرستانوں کی اراضی مل بانٹ کر تقسیم کرنے کے لئے لی گئی ہے!
9 مارچ کو (دو کالم) شائع ہونے والی اِس دوسری خبر کی سرخی تھی ۔۔۔ ’’اخون بابا قبرستان پر قبضہ مافیا کے خلاف احتجاج‘‘ رنگ روڈ بلاک (جبکہ) بیری باغ میں 80 مرلے اراضی پر دوبارہ قبضہ کر لیا گیا‘ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ ’انتظامیہ نوٹس لے۔‘‘ منظرنامہ ملاحظہ کیجئے کہ ۔۔۔ ایک طرف قانون شکن ہیں جن کے سامنے پولیس بے بس ہے تو اُن کے مدمقابل مقامی افراد (اپنی مدد آپ کے تحت) قبرستانوں کی اراضی بچانے کے لئے احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر پولیس اپنی حقیقی موجودگی کو ثابت کرتی ہے تو صوبائی دارالحکومت کے علاقہ ہزار خوانی کے مکینوں کو احتجاج کی نوبت نہ آتی۔ ٹاؤن ون کی حدود ’اَخون بابا‘ اور ’بیڑی باغ‘ قبرستانوں پر قبضہ نہ تو راتوں رات ہوا‘ اُور نہ ہی یہ واردات جادوئی تھی کہ کسی کو کانوں کان اور نظروں نظر خبر ہی نہ ہو سکتی لیکن چونکہ پشاور دل و جاں کا حصہ نہیں اِس لئے عوام کے منتخب کردہ ’ضلعی نمائندے‘ صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر اور متعلقہ پولیس اسٹیشنوں کی پولیس کا رویہ عملاً ’پشاور دوست‘ بھی نہیں!
تیسری خبر‘ تین کالم سائز میں ’10 مارچ‘ کے روز ’صحفہ دو‘ کی زینت بنی‘ جس کی ’شہ سرخی‘ میں ڈیزائن کی خوبیاں کے ساتھ ’عوام الناس‘ کو مطلع کیا گیا کہ ’’بیری باغ قبرستان میں قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن‘ کارِ سرکار میں مداخلت پر جھڑپیں۔‘‘ ماضی میں بھی ’بیڑی باغ‘ کے مقام پر ضلعی اِہلکاروں اُور اِحتجاج کرنے والے مقامی اَفراد کے درمیان اِسی قسم کی جھڑپیں ہو چکی ہیں لیکن قانون شکن عناصر کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی نہیں کی گئی! ضلعی حکومت پشاور کے طول و عرض میں تجاوزات کے خلاف ’گرینڈ آپریشن (بڑی کاروائیاں)‘ کرنے کی (زبانی) دعویدار تو ہے لیکن شہرخموشاں (قبرستانوں) سے لیکر ’عالم طلسم‘ تک برسرزمین صورتحال میں تبدیلی نہیں آ رہی۔
پشاور کے رہنے والوں کے لئے اِس سے زیادہ صدمہ اُور کیا ہو سکتا ہے کہ ہر چند ہفتوں بعد اُن کے آباؤ و اجداد کی قبریں مسمار کرنے والے ہاتھ کر جاتے ہیں جبکہ صاحبان اِختیار (حکومتیں) خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ یہی وہ مقام فکر و بیان ہے کہ جہاں ’پشاور کو لاوراث‘ قرار دیا جاتا ہے کہ اِس شہر کی فیصلہ سازی پر ایسے لوگ مسلط (حاوی) ہو گئے ہیں جن کی پشاور میں نہیں بلکہ اِس کے وسائل اور اراضی میں زیادہ دلچسپی ہے۔ آئندہ عام انتخابات (دوہزار اٹھارہ) کے موقع پر اگر اہل پشاور (ہندکووانوں) نے ایک مرتبہ پھر ماضی کی غلطیاں دُہرائیاں اُور اپنا ووٹ ’جانے پہچانے اَنجانوں‘ کے حق میں استعمال کیا تو پھر اُنہیں قبرستانوں اور بازاروں میں تجاوزات کے خلاف بولنے یا احتجاج کرنے کا بھی حق نہیں‘ پھر بنیادی سہولیات کی محرومی کا رونا بھی نہیں بنے گا۔
عام اِنتخابات کے موقع پر ۔۔۔ پشاور کے عام آدمی (ہم عوام) کو اپنی سوچ اُور عمل کی اصلاح کے ساتھ خوداحتسابی جیسے شعوری سفر کی منازل طے کرنی ہیں کیونکہ فیصلے کی گھڑی‘ ہر گھڑی قریب آ رہی ہے۔
’’عالم طلسم شہرخموشاں ہے سر بسر
یا میں غریب کشور گفت و شنود تھا (مرزا غالب)۔‘‘
۔
![]() |
Three news items picked from Page 2 also known as City Page regarding encroachments in Graveyards of Peshawar |
![]() |
Layout of the editorial page of Daily Aaj - Mar 11, 2018 Sunday |
No comments:
Post a Comment