Monday, March 19, 2018

Mar 2018: Ignored factors about education

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
خود فریبی: جبر کی حقیقت!
’اِستحصال کروٹ کروٹ‘ بھی ہو سکتا ہے اُور ’لمحہ لمحہ‘ بھی۔ ’معلوم حقائق‘ سے ’حقیقت حال کی تہہ تک پہنچنا‘ اُور ’عمومی روئیوں‘ میں ’اِظہار و سلوک‘ کی خوبیاں (گوہر) تلاش کرنے کی شعوری (دانستہ) کوششوں کے بغیر ’’تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔‘‘ خیبرپختونخوا میں سماجی اِنصاف کی فراہمی کا وعدہ کرنے والوں (پاکستان تحریک انصاف) کی توجہ چاہئے کیونکہ جہاں ہر مرحلے‘ سوچ‘ زوایۂ نگاہ اور ہر ایک صاحب نظر و اِختیار پر ’اِنکارِ‘ طاری ہو‘ وہاں (باوجود خواہش و غیرمتعلقہ شعبوں میں کوششوں) صنفی‘ جنسی اُور مالی اِمتیازات کو تقویت دینے سے ’’انسانی حقوق کی بلاامتیاز ادائیگی‘‘ ممکن نہیں رہتی۔ ’انقلاب‘ سطحی یا غیرسطحی منصوبہ سازی کا نہیں بلکہ عوامی مفادات کے خلاف متحرک منصوبوں پر حاوی ہونے کا نام ہوتا ہے۔ افسوس کہ جس دیس میں ’بے اصولی‘ اصول بن جائے وہاں اِس زراعت سے حاصل شجر چاہے کتنے ہی سایہ دار دکھائی دیں لیکن اُن کا پھل (حاصل و نتیجہ) کڑوا رہتا ہے۔ توجہات کی نذر ہے کہ کسی ملک‘ صوبے‘ علاقے یا اِدارے کا نظام ’’کفریہ عقائد‘‘ پر یقین سے تو چل سکتا ہے لیکن ظلم سے نہیں! خوداحتسابی کی گھڑی سوچنے‘ سمجھنے اُور دوسروں کو دعوت فکر دینے (شریک کرنے) کی ہے کہ ۔۔۔ کہیں ہم اپنے قول و فعل میں ظالم (اپنی اپنی اختیاراتی مملکت کے فرعون) تو نہیں؟

سب جانتے ہیں اُور (جیسے) کوئی نہیں جانتا۔ خیبرپختونخوا کے بالائی (پہاڑی) علاقوں میں موسم سرما کی تعطیلات کے بعد ’نئے تعلیمی سال (دوہزاراٹھارہ)‘ کا آغاز ہو چکا ہے اور اِس موقع پر والدین اور طلباء و طالبات کو درپیش ’تین پریشانیاں‘ بالخصوص توجہ طلب ہیں۔ 

داخلہ فارم کی قیمت سے لیکر داخلہ فیسوں کی شرح اور دیگر مدوں میں بھاری وصولیاں کرنے والے اداروں کے منہ کو خون لگ گیا ہے جو معیاری تعلیم کے خواہشمند والدین کی مجبوری کا ’ناجائز‘ فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ لالچ و حرص کے تابعداروں کو روکنے کے لئے عوام کے منتخب نمائندے اور اِن نمائندوں پر مشتمل مرکزی صوبائی یا ضلعی حکومتیں بشمول ضلعی انتظامیہ‘ ایک سے زیادہ نگران حکومتی محکموں کا دُور دُور تک نام و نشان دکھائی نہیں دیتا۔ تعلیم کی اہمیت پر انگریزی زبان میں گھنٹوں لیکچر دینے والوں کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ انہوں نے بذریعۂ تعلیم ’’سماجی و قومی ترقی کے وسیع و بلیغ نظریئے (تصور)‘‘ کو کس حد تک محدود کر دیا ہے اور تعلیم کو ایک ایسے ’’خالص کاروبار‘‘ میں ڈھال دیا ہے‘ جہاں ’علم و دانش‘ کی اہمیت فقط اسناد (ڈگریوں) کی محتاج اور ملازمت کے حصول سے زیادہ معنی نہیں رکھتی۔ ’المیہ در المیہ‘ یہ بھی ہے کہ نجی اِداروں کی دیکھا دیکھی ’پاک فوج کی ذیلی شاخ ’اِیجوکیشن کور‘ جیسے معزز‘ مستند اور معتبر ریاستی اِدارے کی زیرنگرانی ’سکولز و کالجز‘ بھی ’منافع خوری‘ کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں! اگر معاشرے کو امتیازات کی بنیاد پر تقسیم نہیں کرنا تو سکول داخلے سے لیکر ماہانہ ٹیوشن فیسوں کی شرح تک ہر پاکستانی سے یکساں وصولیاں ہونی چاہیئں۔

کیا قومی سطح پر ’نجی یا سرکاری اِدارے‘ فوجی بہن بھائیوں سے اِمتیازی سلوک روا رکھتے ہیں؟ جس کا جواب دیتے ہوئے (شکوہ جواب شکوہ کے طور پر) پاک فوج کے انتظامی وسائل سے چلنے والے سکولوں اور علاج گاہوں میں ’سویلینز (civilians)‘ سے (ایک جیسی خدمات (سروسیز) کی) دوگنا سے بھی زیادہ قیمتیں وصول کی جاتی ہیں؟ 
’سویلین نان انٹائٹل (CNE)‘ کیوں ہیں؟ 
کیا عوام عدالت عالیہ سے رجوع کرے؟

چیف جسٹس آف پاکستان کو اِس بات کا بھی نوٹس لینا چاہئے؟ کیا ’یونیفارم‘ پہنے ’فیصلہ سازوں‘ کو زیب دیتا ہے کہ اُن کا بوجھ اُٹھانے (ٹیکس اَدا کرنے) والے عام آدمی (ہم عوام) کو یوں حقارت کی نظر سے دیکھیں؟ اطلاع کے لئے عرض ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے فراہم کردہ مالی وسائل ہی سے دفاع کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ باسہولت چھاؤنیوں کی خوبصورتی سے لیکر باادب گھریلو ملازمین کی قطاریں‘ ملٹری ڈیری فارم کے دودھ‘ دہی اور مکھن کی چکناہٹ اُور وردی پر سجے چاند ستاروں (اعزازات) کی چمک دمک کا راز ’صرف اُور صرف‘ یہ ہے کہ عام آدمی (ہم عوام) اپنی مالی حیثیت سے بڑھ کر ٹیکس اَدا کر رہے ہیں! ہم ایک ایسے معاشرے (پاکستان) کی تشکیل کر رہے ہیں جہاں معیاری تعلیم‘ صحت و معاشرتی مقام صرف اُنہی طبقات کا حق سمجھا جا رہا ہے‘ جن کے پاس ’مالی وسائل‘ کی فراوانی ہے‘ جو مذکورہ بنیادی حقوق (صحت و تعلیم) ’خریدنے‘ اور کسی بھی شے کی منہ مانگی قیمت ادا کرنے کی مالی سکت رکھتے ہیں؟ تو کیا کسی ایسے معاشرے میں حلال و حرام کی تمیز باقی رہے گی؟

تعلیمی اصلاحات کرنے والے بڑی بڑی باتیں تو کرتے ہیں لیکن وہ آج تک سکول کے بستے (بیگ) کا وزن کم نہیں کرسکے جو ہر سال بڑھتا چلا جا رہا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ بچوں کے وزن اٹھانے کی سکت اور والدین کا صبر جواب دے رہا ہے! اِسی طرح فی کلاس روم (زیادہ سے زیادہ) بچوں کی تعداد کے حوالے سے کیا قواعد موجود ہیں اگر ہیں تو اُن پر کس حد تک عمل درآمد ہو رہا ہے۔ تمام تعلیمی اداروں میں دن کے آغاز اور اختتام (حاضری اور اخراج) کے اوقات ایک ہی جیسے مقرر کرنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی ٹریفک مشکلات باآسانی حل کی جاسکتی ہیں۔ تعلیمی اداروں کو آمدورفت کے لئے زیراستعمال نجی ٹرانسپورٹ وسائل کی گرانی‘ ٹرانسپورٹرز کی من مانیاں‘ اخلاقی مسائل الگ سے توجہ طلب ہیں کہ ماہانہ لاکھوں روپے منافع کمانے والے اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ ’’سکول ٹرانسپورٹ‘‘ کا بندوبست کریں۔ اگر انتظامیہ کی زیرنگرانی سکولوں کی حدود میں کتابوں کی دکانیں (سٹیشنری شاپ) اور کنٹین جیسے منافع بخش شعبوں کا اضافہ ہو سکتا ہے تو طلباء و طالبات کو لانا لیجانا بھی نیم سرکاری و نجی سکولوں کی ذمہ داری قرار دی جا سکتی ہے۔ وقت کے فریب سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ’’تعلیمی عمل‘‘ جامع اِصطلاح ہے‘ جس میں طلباء و طالبات کی جسمانی مشقت کم سے کم کرنے‘ انہیں باعزت اُور باوقار سہولیات کی فراہمی کے لئے اِنتظامی فیصلہ سازوں کو دردمندی (خوداِحتسابی کے نظریئے) سے سوچنا چاہئے کہ اگر حکومت اُور حکومتی اِدارے ’ریاستی عمل داری‘ نافذ کرنے میں عملاً کمزور (ناکام) ہیں تو وہ اپنے ضمیر اور اُس یوم الحساب (عدالت کو) کیا جواب دیں گے‘ جب استحصال کرنے کے بارے میں کوئی بھی حیل و حجت کام نہیں آئے گی۔

احمد ندیم قاسمی نے ’لذت آگہی‘ کے عنوان سے لکھا تھا
’’یہی علم ہے ۔۔۔ یہی علم میرا سرور ہے ۔۔۔ یہ علم میرا عذاب ہے!‘‘
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=abbotabad&page=20&date=2018-03-19

No comments:

Post a Comment