Tuesday, March 20, 2018

Mar 2018: School Bags, weight, size and quality of education in KP

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
تعلیم: وزن اُور معیار!
خیبرپختونخوا کے محکمۂ ابتدائی (بنیادی) و ثانوی تعلیم (ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ) کے حکام پر مشتمل ’اعلیٰ سطحی کمیٹی‘ تشکیل دی گئی ہے جس کے اراکین میں اسپیشل سیکرٹری ایجوکیشن‘ اساتذہ کے تربیتی ادارے کے سربراہ اور محکمہ صحت کے صوبائی سربراہ (ڈائریکٹر جنرل) شامل ہیں۔

رواں ہفتے (مارچ دوہزار اٹھارہ کے تیسرے ہفتے) قائم ہونے والی یہ کمیٹی بچوں کے سکول بیگز کے وزن اور اِس وزن کے بچوں کی جسمانی صحت پر مرتب ہونے والے ’منفی اثرات کا جائزہ‘ لے گی لیکن یہ مرحلۂ فکر متقاضی ہے کہ مذکورہ کمیٹی کے معزز اراکین اپنی ذمہ داری کو محدود نہ سمجھیں اور اُن دیگر ضمنی و متعلقہ امور کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے جائزے (مطالعے) کا حصہ بنائیں جس کی وجہ سے تعلیم کا عمل ہر دن زیادہ مشکل‘ پیچیدہ اور وزنی ہو رہا ہے۔ جن امور پر خصوصی توجہ ہونی چاہئے اُن میں (اوّل) بچوں پر درسی کتب کے بوجھ کی بجائے تعلیم کا معیار کیسے بلند کیا جائے۔ (دوئم) اگر سرکاری سکولوں کی سطح پر ’سمارٹ بورڈز‘ اور ’ملٹی میڈیا‘ جیسی سہولیات فراہم کر دی جائیں تو بچوں کو صرف کاپیاں اور ہوم ورک ڈائری ہی لانا لیجانا ہوگی۔ (سویم) درس و تدریس کے عمل میں تجرباتی طور پر الیکٹرانک آلات (آئی پیڈز یا ٹیبلیٹس) کو متعارف کرانے کے امکانات و اخراجات کیا ہیں اور اگر حکومت صوبائی بینک کے ذریعے آسان اقساط پر تعلیمی اداروں اور بچوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی آلات خریدنے میں مدد کرتی ہے تو یہ تجربہ کس قدر کارگر اور مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ (چہارم) درسی کتب اور کاپیوں کو یکجا کرنے سے کاپیوں کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔ (پنجم) عملی اسباق کے لئے الگ کتابیں سکول کی حد تک رکھی جا سکتیں ہیں‘ جن کے ذریعے بچوں کے کسی علم سے متعلق تصورات عملی مشقوں سے واضح کئے جا سکتے ہیں۔
عالمی معیار یہ ہے کہ کسی بچے کے ’سکول بیگ‘ کا وزن اُس کے جسمانی وزن کا ’10 فیصد‘ ہونا چاہئے لیکن ہمارے ہاں یہ ’پچاس فیصد‘ کی نفسیاتی حد عبور کر چکا ہے! سردست یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ مذکورہ کمیٹی میں جن مصروف ترین شخصیات کو شامل کیا ہے انہیں پہلی فرصت کب ملتی ہے اور وہ پہلی فرصت میں ’سکول بیگز‘ کے حوالے سے پہلا اجلاس کب طلب کرتے ہیں لیکن واقف حال کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت سرکاری سکولوں میں ایسا فرنیچر متعارف کرانے کا بھی سوچ رہی ہے جس میں کتابیں تالہ لگا کر محفوظ رکھی جا سکیں اور یوں بچوں کو درسی کتب لانے لیجانے کی زحمت نہ ہو۔

تبدیلی کے علمبرداروں نے عوامی شکایات پر ’سکول بیگز (بستوں) کے وزن‘ سے متعلق تحقیقات کا آغاز تو کر دیا ہے لیکن آخر ایسی تحقیقات کی نوبت ہی کیوں آئی جبکہ روزمرہ کے مناظر میں بیچارے بچے سکول بیگز گھسیٹتے دکھائی دیتے ہیں!؟ ’’ہو ایک فرد تو ہو فرد جرم بھی آید ۔۔۔ ستم گری تو یہاں کاروبار سب کا ہے (ظفر مراد آبادی)۔ مذکورہ مسئلے سے زیادہ مسئلے کی شدت سنگین ہے۔ صرف ’سکول بیگز‘ کا وزن ہی نہیں بلکہ نجی سکولوں کی جانب سے اُن غیرضروری کتب کا بھی ہے جو ’پبلشرز (کتابیں شائع کرنے والے اِداروں)‘ کی فرمائش پر ’شامل (داخل) نصاب‘ کی جاتی ہیں۔ اَمر واقعہ یہ ہے کہ جس طرح کچھ ڈاکٹرز (طبیب) مریضوں کو ایسی ادویات بھی لکھ دیتے ہیں کہ جن کا اُن کی بیماری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بالکل اِسی طرح نجی سکولوں میں ایسی کتب اُور ایسا یونیفارم بھی مقرر کیا جاتا ہے جن کا تعلیم سے زیادہ کمائی کے دیگر ضمنی ذرائع سے ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نجی تعلیمی اِداروں کے منافع (لالچ‘ حرص و طمع) کی کوئی حد نہیں۔ کمیٹی کو اِس بات کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ 1: خیبرپختونخوا کی حدود میں جتنے بھی نجی سکول ہیں چاہے اُن میں کسی بھی صوبے یا بورڈ کا نصاب پڑھایا جا رہا ہو لیکن اُن پر صوبائی (تعلیمی) قواعد و ضوابط کا اطلاق ہوگا۔ 2: وفاقی امتحانی و دیگر بورڈز کے زیرانتظام تعلیمی اداروں کو صوبائی حکومت کے قواعد کے تابع لانے کے لئے قانون سازی کی سفارش کی جائے اور اِس سلسلے میں صرف سفارش ہی نہیں بلکہ مذکورہ کمیٹی لائحہ عمل اُور ضابطۂ اخلاق بھی وضع کرے‘ جس کی روشنی میں عوام کے منتخب اراکین (قانون ساز ایوان) رہنمائی حاصل کرسکے۔

’سکول بیگز‘ کا مسئلہ بظاہر معمولی دکھائی دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خصوصی کمیٹی میں نہ تو صوبائی وزیرتعلیم (صاحب بہادر) شامل ہیں اور نہ ہی کسی منتخب رکن صوبائی و قومی اسمبلی یا سینیٹر کو شامل کیا گیا ہے‘ جو معاملے کی کھوج و تحقیقات کے دوران مختلف پہلوؤں سے جائزہ لے سکے۔ عجیب ہے کہ دنیا علم و حکمت میں چاند ستاروں کو عبور کر گئی ہے اور ہمارے ہاں (پاکستان میں) ابھی یہ بھی طے نہیں ہو رہا کہ بچوں کے سکول کا وزن کتنا ہونا چاہئے اور بچوں پر گدھوں کی طرح درسی کتب کی صورت کتنا بوجھ لادا جائے؟ آنے والے دنوں میں اِس سوال کا جواب تلاش کرنے والوں کو زیادہ پیچیدہ موضوعات سے واسطہ پڑے گا اور یہی وجہ ہے کہ کمیٹی میں ایسے ماہرین تعلیم بھی شامل ہونے چاہیءں تھے جو حکومتی وظیفہ خور نہ ہوتے کیونکہ سرکاری ملازمین وہی کچھ کہتے ہیں جو حکومت سننا چاہتی ہے۔ درس و تدریس کے عمل اور مجموعی طور پر شعبۂ تعلیم میں اصلاحات صرف سکول بستے کے وزن اور حجم سے متعلق ہی نہیں بلکہ تدریسی نصاب (مضامین و موضوعات)کا باریک بینی سے جائزہ بھی وقت کی ضرورت ہے۔ غورطلب سوال یہ بھی ہے کہ بچوں کو ابتدائی کلاسوں سے کن مضامین کی تعلیم دینی چاہئے؟ کیا دنیا کا ہر موضوع اور ہر مضمون بچوں کے نصاب میں شامل ہو؟

صوبائی حکومت کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ نجی سکول اُس کے بنائے ہوئے قوانین اور قواعد و ضوابط کا کس حد تک احترام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر سکولوں میں (مسلمان طلباء و طالبات کے لئے) ’ناظرہ قرآن‘ کی تعلیم لازمی قرار دی گئی تاکہ بچہ ابتدائی پانچ کلاسیں مکمل کرنے تک نہ صرف ناظرہ ’قرآن کریم‘ کی تلاوت کر سکے بلکہ آخری پارے کی کم سے کم وہ بیس سورتیں بھی اُسے زبانی ازبر ہوں‘ جن کی تلاوت نماز میں کی جاتی ہے۔ ابتدائی پانچ درجات (کلاسوں) تک ناظرہ قرآن اور میٹرک (کلاس دہم) تک ’قرآن شناسی‘ سے متعلق مضامین سے نہ صرف بچوں کی سیرت بہتر بنائی جاسکتی ہے بلکہ اُنہیں تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ’ایک بہتر انسان‘ کے سانچے میں بھی ڈھالا جا سکتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں انگریزی زبان کو علم و دانش اور خواندگی کا معیار سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ دنیا کی ایسی کئی ترقی یافتہ اقوام ہیں جنہوں نے علوم و فنون کے شعبوں میں گرانقدر منازل عبور کی ہیں لیکن اُن کے ہاں انگریزی نہیں بولی جاتی اور نہ ہی انگریزی زبان و ثقافت‘ رہن سہن‘ لباس اور نصاب سے متعلق رہنے پر ہم پاکستانیوں کی طرح فخر کیا جاتا ہے۔ سکول بیگ کا وزن ہو یا نصاب تعلیم سے متعلق ہمارے رویئے‘ بچوں کو راتوں رات عالم فاضل بنانے اور احساس کمتری کے مظہر اندھی تقلید کی اصلاح ضروری ہے۔
’’اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر ۔۔۔
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔علامہ اقبالؒ ۔

No comments:

Post a Comment