Tuesday, March 20, 2018

Mar 2018: Food for Kids, the do's and don'ts!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
مشترک ذمہ داری!
کھانے پینے کی اِشیاء اُور عادات ’بچوں کی نفسیات‘ پر اَثرانداز ہوتی ہیں۔ بچوں کے روئیوں (بدتمیزی) کی شکایت کرنے والوں کو جہاں اپنے سلوک (تعلقات) کا جائزہ لینا چاہئے‘ وہیں ’’پہلی فرصت میں‘‘ بچوں کے زیراِستعمال اَشیائے خوردونوش (بالخصوص معمولات) کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی جائیں کیونکہ بچے‘ بڑوں کی دیکھا دیکھی یا بڑوں کی مہربانی (عطا) جو کچھ بھی کھا پی رہے ہیں‘ وہ اُن کی جسمانی صحت‘ مزاج اُور روئیوں سے ظاہر ہو رہا ہے۔ شعور کی اِس منزل پر ماہرین تعلیم اُور درس و تدریس سے متعلق اِنتظامی فیصلہ سازوں کو عام آدمی (ہم عوام) کی رہنمائی کرنی چاہئے کہ کس طرح بچوں کے شخصیت (مزاج) سازی پر اَثرانداز ہونے والی ’’خوراک‘‘ پر نظر کی جائے اُور صحت مندانہ تبدیلی (اِصلاح اَحوال) کی کوششوں میں سب مل کر کس طرح اپنا اپنا کردار اَدا کر سکتے ہیں۔ اِسی مرحلۂ فکر پر تعلیمی اِداروں کی حدود یا آس پاس فروخت ہونے والی اَشیائے خوردونوش پر ضلعی اِنتظامیہ کو نظر رکھنی چاہئے کہ کہیں والدین‘ سرپرستوں‘ اَساتذہ اُور نفسانفسی کے شکار معاشرے سے نظریں بچا کر ہمارے بچے کچھ ایسا تو نہیں کھا پی رہے جو اُن کے لئے ممنوع ہے یا جس کا بطور خوراک استعمال ’صحت مند‘ نہیں۔

سوچ کی تبدیلی ضروری ہے کہ ’’بچہ صرف اپنے والدین یا سرپرستوں کی ذمہ داری ہوتا ہے۔‘‘ ترقی یافتہ مغربی معاشروں میں بچوں سے ریاست زیادہ حساس دکھائی دیتی ہے اُور یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی بچہ ہنگامی اِمداد کے لئے ’نائن وَن وَن (911)‘ کے نمبر پر ’فون کال‘ کرے تو اُس کی مدد کے لئے پولیس پہنچ جاتی ہے کیا ہم ’ڈبل ون ڈبل ٹو (1122)‘ کو اتنا ہی حساس اُور فعال کر سکتے ہیں کہ وہ بچوں جیسی ذمہ داری کا بوجھ اٹھا سکے؟ یکساں سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہماری ریاست ہر بچے کو ’مشترک ذمہ داری‘ سمجھتی ہے؟ کیا تعلیمی ادارے بچوں کی جسمانی صحت اور روئیوں کے بارے میں اتنے ہی حساس جتنا کہ اِن کو ہونا چاہئے؟ اور کیا تعلیمی اِداروں کی چاردیواریوں کے اندر (حدود میں) یا آس پاس ایسی اشیائے خوردونوش کی خریدوفروخت تو نہیں ہوتی جو اصولاً نہیں ہونی چاہئے؟ اِس سلسلے میں سگریٹ اور شیشہ (ذائقے دار تمباکو) کی کھلے عام فروخت لمحۂ فکریہ ہے!

’عالمی اِدارۂ صحت‘ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ’’پاکستان میں 44 فیصد بچے ’غذائی کمی‘ کا شکار ہیں۔‘‘ جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ’غذائی کمی‘ سے وہ بچے بھی متاثر ہیں جو ’کھاتے پیتے گھرانوں‘ سے تعلق رکھتے ہیں اُور جنہیں اَشیائے خوردونوش کی ’جملہ نعمتیں بہترین حالت میں‘ (باآسانی) میسر ہیں۔ اکثر صورتوں میں ’مسئلہ خوردنی اشیاء کی قلت نہیں بلکہ بہتات بھی ہے۔‘ بچوں کے کھانے پینے پر اشتہارات کے ذریعے ترغیب اور والدین کا تن آسان طرزعمل اثرانداز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کی مرعوب اشیاء میں ’’جنک فوڈز (junk foods)‘‘ شامل ہوتے ہیں۔ اِس درجہ بندی (کٹیگری) میں ڈیپ فرائی چپس‘ تلی ہوئی دیگر اشیاء‘ کیمیائی مادے‘ مٹھاس اُور ذائقے سے بھرپور ’کاربونیٹیڈ مشروبات‘ بشمول ’اِنرجی ڈرنکس‘ ٹافیاں اُور چاکلیٹس کی وجہ سے نہ صرف بچوں کے ناک کان گلہ‘ دانت‘ چھاتی‘ نظام ہضم اُور گردے متاثر ہو رہے ہیں‘ وہیں اُن کا جسمانی وزن بھی بڑھ رہا ہے‘ جس سے سونے جاگنے کے اوقات میں بے ترتیبی‘ پڑھنے لکھنے میں مشکلات اور کھیلنے کودنے (جسمانی پھرتی) جیسی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں۔ ایسی تمام اشیاء جو کیلشیم کے جسم میں جذب ہونے کو روک کر ہڈیوں کی نشوونما کو متاثر کرتی ہیں ممنوع ہونی چاہیئں۔ جن کی فروخت تعلیمی اداروں میں نہیں ہونی چاہئے۔ 

غیرمعیاری تیل اُور مضر صحت رنگوں سے تیارکردہ چپس‘ پاپڑ‘ نمکو‘ سموسے‘ پکوڑے‘ مٹھائیاں اُور آئس کریم جن موذی امراض کا باعث بنتی ہیں‘ اُن میں سرطان (کینسر) اُور اَلسر (معدے و آنتوں کے زخم) شامل ہیں! ڈیری آئس کریم کے نام پر فروخت ہونے والی ’فروزن ڈیزرٹ‘ کے ڈبوں پر واضح طور سے لکھا ہوتا ہے کہ ’’یہ آئس کریم نہیں بلکہ ویجیٹیبل فیٹس سے بنی ہوئی ہے۔‘‘ 

بچوں کو ’فروزن ڈیزرٹ‘ دینے کی بجائے ’’دُودھ کی چکنائیوں (ڈیری فیٹس)‘‘ سے بنی ہوئی آئس کریم دینی چاہئے۔ بچوں کے لئے بنائے گئے ’فارمولا دودھ‘ کسی بھی طرح ’قدرتی اور ماں کے دودھ کا نعم البدل‘ نہیں۔ وفاقی حکومت اگرچہ ’’فارمولا خوردنی اشیاء‘‘ کو ضبط میں لانے (ریگولیٹ) کے لئے ضروری قانون سازی کر رہی ہے اُور اُمید ہے کہ مارکیٹنگ‘ فری سیمپلنگ اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ’گمراہ کن اشتہارات‘ پر پابندی عائد کی جائے گی اور مذکورہ ایسی اشیاء کی لیبلنگ (labelling-theory) حکمت عملی کی اصلاح بھی ضرورت ہے۔ 

بچوں کے لئے ’’مارجرین پراڈکٹس (مصنوعی مکھن)‘‘ ذہنی و جسمانی نشوونما کی ضروریات پوری نہیں کرتا۔ اِسی طرح ’ٹی وائٹنرز (Tea Whiteners)‘ دُودھ جیسی رنگت والے محلول کا چائے کافی یا دیگر ٹھنڈے یا گرم مشروبات میں استعمال بالخصوص بچوں کی صحت کے لئے مضر ہے جس سے پیچیدہ اَمراض قلب‘ دل کی دورہ (ہارٹ اٹیک) اُور ذیابیطس (شوگر) لاحق ہو سکتے ہیں۔ فوری تیار ہونے والے مشروبات (انسٹنٹ ڈرنکس) جیسا کہ ٹینگ‘ سن سپ‘ فروٹین وغیرہ کیمیائی مادوں سے بنائے جاتے ہیں جبکہ ڈبوں میں بند جوسیز میں صرف دس سے پچیس فیصد ہی پھلوں کا عرق شامل ہوتا ہے‘ جن کی وجہ سے بچوں میں ’شوگر کا مرض‘ پھیل رہا ہے اور عجب نہیں کہ ماضی میں ’ٹائپ ٹو شوگر‘ کی تشخیص صرف بڑوں میں ہوتی تھی لیکن اب چھوٹے بچے بھی اِس انتہائی قسم کی بیماری میں مبتلا ہو رہے ہیں! 

’’صحت مند بچے‘ محفوظ مستقبل‘‘ کا نعرہ (بطور اَصول) یاداشتوں میں محفوظ تو ہے عمل میں پیش پیش نہیں۔ کیا عام آدمی (ہم عوام) پوچھ سکتے ہیں کہ صوبائی وزیرخوراک قلندر خان لودھی اُور سیکرٹری فوڈ محمد اکبر خان کی توجہات و ترجیحات میں ’بچے‘ شامل ہیں؟ کیا صوبہ پنجاب کی طرز پر ’خیبرپختونخوا فوڈ اِتھارٹی‘ کو بھی عملاً فعال کیا جائے گا‘ جو غیرمعیاری‘ مضرصحت اَشیائے خوردونوش سے نہ صرف بڑوں بلکہ بالخصوص بچوں کو بچانے کے لئے خاطرخواہ اِقدامات و اِنتظامات کرے؟ 

بچے ۔۔۔’’اگر‘‘ ۔۔۔ ریاست‘ والدین اُور تعلیمی اِداروں کی ’مشترک ذمہ داری‘ ہیں تو اِس کی ’اَحسن اَدائیگی‘ کے لئے مربوط کوششیں ہونی چاہیءں۔ شاعر اَعظم خان کی نظم ’’مسئلہ یہ نہیں‘‘ لائق مطالعہ ہے جس میں ایک مرحلے پر کہا گیا کہ ’’درد اپنے پرائے کئی مشترک ۔۔۔ سوچ کی دُوزخیں!‘‘ سوچ کی دوزخ اُور اپنے پرائے مشترک دُکھوں میں بچے ہماری توجہات و ترجیحات کا مرکز ہیں‘ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment