Tuesday, March 20, 2018

Mar 2018: Nouroz Alam Afrooz


شبیرحسین امام 

نوروز: عالم اَفروز!

نئے شمسی سال کا پہلا دن ’’نو روز (نیا دن)‘‘ ہر سال ’’21 مارچ‘ کے دن بطور ’تہوار ‘منایا جاتا ہے۔ جمہوری اسلامی ایران‘ افغانستان‘ وسط ایشیائی کی مسلمان ریاستوں میں سرکاری سطح پر جبکہ دنیا بھر میں ’’نوروز (نئے شمسی سال) کے موقع پر گرمجوش مبارکبادوں کا تبادلہ سوشل میڈیا پر دیکھا جاسکتا ہے۔ نوروز کا ایک حوالہ ’ایرانی تہذیب‘ ہے‘ جس میں پارسی مذہب کے لئے یہ دن عید جیسا مقدس ہے۔ اِیرانی کلینڈر میں ’ماۂ فروردین (farvardin)‘ کا پہلا دن ’نوروز‘ کے موقع پر (حرف ’سین‘ سے شروع ہونے والے) ’سات کھانوں ‘ کے ساتھ ’موسم بہار‘ کا آغاز بطور سرکاری تعطیل و جشن کئی روز تک منایا جاتا ہے۔ موسم بہار کے آغاز کا جشن اور اِس موقع پر شہروں سے باہر نکل کر اجتماعات (میلوں) کی روایت اِیران کے کاشتکاروں کی ہے‘ جسے ایرانی ’’حلول بہار‘‘ یعنی باطل پر کامیابی کی تشبیہ یعنی ’زندگی کی علامت‘ قرار دیتے ہیں۔ قدیم زمانے سے یہ عوامی جشن غیر سیاسی ہونے کی وجہ سے مقبول رہا اور آج بھی ہے۔ ایران کے معروف دانشور‘ ریاضی داں اُور منجم ’’اَبو ریحانی‘‘ کے نزدیک نوروز خلقت کی پیدائش کا جشن ہے اور اِس سوچ کی ترغیب کا دن ہے کہ ’’پرانی چیزوں کو نئی چیزوں میں تبدیل کرکے خود کو آراستہ اُور روح کو تازگی عطا کی جائے۔‘‘ نئے شمسی سال کی تحویل اور بہار کے معتدل لمحات میں کیا ہم ماضی کی بجائے مستقبل کی طرف دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

’نوروز‘ کے موقع پر پاکستان کے سیاسی و سماجی حالات کے بارے میں پیشنگوئیاں بھی کی جاتی ہیں۔ ’نوروز (معتدل لمحات) اُور اِس موقع کی مناسبت کماحقہ سمجھتے ہوئے ’پرانی چیزوں کو نئی چیزوں سے تبدیل کرنے کی اہمیت سمجھی جائے‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ ’اِصلاح اَحوال‘ کا ہدف حاصل ہو۔ نئے شمسی سال میں عام انتخابات کا انعقاد بروقت نہیں ہو سکے گا اور اگر پاکستان اِس موقع پر اجتماعی شعور کا ثبوت دے تو عام انتخابات جب کبھی بھی ہوں ’’ذریعہ ووٹ سے تبدیلی لائی جا سکے گی۔‘‘ اگرچہ جنتری کے حساب سے نئے سال (21 مارچ سے 21مارچ دوہزار اُنیس) تک کا دورانیہ پاکستان کے لئے زیادہ خوشگوار نہیں لیکن شمسی سال کے بارہ مہینوں (فروردین‘ اربیہشت‘ خرداد‘ تیر‘ مرداد‘ شہریور‘ مہر‘ آبان‘ آذر‘ دی‘ بھمن اُور اسفند) کے لئے مثبت سوچ اُور اجتماعی بہبود کا کم سے کم ایک ایسا تصور تو پیش کیا ہی جا سکتا ہے جس پر پوری قوم کو متحد اور متفق کیا جاسکے۔ بدعنوانی سے پاک معاشرے کے قیام میں ’عہد اور تجدید عہد‘ کی خاص اہمیت ہوتی ہے اور پاکستان کے تناظر میں اِن دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے باشعور طبقات کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔


نوروز کا اسلامی حوالہ ’’18 ذی الحجہ سن 10ہجری بمطابق 21 مارچ 632 عیسوی‘‘ ہے‘ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے بعد ’غدیر خم (مکہ مکرمہ سے شمال مغرب میں قریب دوسوکلومیٹرز المعروف ’میقات اہل شام‘)‘ کے مقام پر خطبے میں امیرالمومنین حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولایت و مولائیت کا ذکر کیا۔ 

اسلام سے قبل اور اسلام کے بعد نوروز منانے کی الگ الگ وجوہات (جواز) ہیں البتہ ’دنیاوی تہذیب‘ کا جہاں کہیں سے بھی مطالعہ کیا جائے اُس میں ’’نوروز کی موجودگی‘‘ تازہ ہوا کے جھونکے جیسی ہے! شمسی کلینڈر ’بارہ سو نواسی ہجری‘ سے رائج ہے۔ نوروز کے حوالے سے کئی افسانوی کہانیاں بھی مشہور ہیں جو ایران کے قدیمی ادب کا حصہ ہیں‘ جیسا کہ شاہنامہ فردوسی اور تاریخ طبری وغیرہ میں ایسے حوالے موجود ہیں۔ ان کتابوں میں ’جمشید‘ اور ’گاہ کیومرث‘ کو نوروز کے بانیوں کے عنوان سے متعارف کرایا گیا ہے۔ شاہنامہ میں لکھا ہے کہ ’’جمشید بادشاہ نے آذربائیجان سے گزرتے وقت حکم دیا تھا کہ اس کے لئے وہاں ایک تخت رکھا جائے اور خود اپنے سر پر ایک زرین تاج رکھ کر اس پر بیٹھ گیا اور سورج کی کرنیں جب اس پر پڑیں تو وہ روشنی پوری دنیا میں پھیل گئی جس کا جشن منانے والوں نے اسے ’’نوروز‘‘ (ایک نئے دن کی شروعات) کہا۔ 

حکیم عمر خیام نیشاپوری نے ’چار سواسی شمسی‘ بمطابق ’گیارہ سو ایک عیسوی‘ میں نوروز کے متعلق مضمون باندھا۔ دیگر شعرأ کی طرح خیام نے بھی نوروز کے بارے میں اشعار کہے لیکن بنیادی فرق یہ ہے کہ خیامؔ نے ’نوروز کو مرکزی نکتہ بناتے ہوئے (موت و زندگی کے بارے میں) فلسفیانہ اور عمیق رباعیات کہی ہیں۔ نوجوان نسل کو ’نوروز شناسی‘ کی طرح ’خیام شناسی‘ کی ضرورت ہے۔ 

عمر خیام بلامبالغہ دنیا کے مقبول ترین شاعر ہیں اور اُن کے فارسی کلام کو سب سے زیادہ اُردو میں ترجمہ ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔ امریکہ کے خلائی ادارے ’ناسا‘ نے 1970ء میں چاند کے ایک گڑھے کا نام‘ جبکہ 1980ء میں ایک سیارچے کا نام ’عمر خیام‘ سے منسوب رکھا گیا۔ یوجین اونیل‘ اگاتھا کرسٹی اور سٹیون کنگ جیسے مشہور ادیبوں نے اپنی کتابوں کے نام ’عمر خیام‘ کے اقتباسات پر رکھے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خیام کو آج شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے لیکن اپنے دور اور بعد میں کئی صدیوں تک وہ نابغۂ روزگار عالم کی شہرت رکھتے تھے۔ شبلی نعمانی نے اپنی کتاب ’’شعر العجم‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’خیام فلسفہ میں بو علی سینا کا ہم سر اور مذہبی علوم اور فن و ادب اور تاریخ میں امامِ فن تھا۔‘‘ جب کہ جی سارٹن نے اپنی سائنس کی تاریخ کی کتاب میں خیام کو عظیم ترین ریاضی دانوں میں شمار کیا ہے۔ نئی نسل کو مسلم تہذیب و ثقافت کے اِن روشن رنگوں سے توانائی لینے کی ضرورت ہے۔

۔

No comments:

Post a Comment