مہمان کالم
اجتماعی دانش کا امتحان!
درس و تدریس کے فروغ کے لئے کام کر رہی غیرسرکاری تنظیم ’الف اعلان‘ صوبوں کے درمیان ’تعلیمی معیار کی درجہ بندی‘ ہر سال جاری کرتی ہے‘ جس کا مقصد فیصلہ سازوں کو آئینہ دکھانے کے علاؤہ یہ بھی ہوتا ہے کہ صوبے ایک دوسرے سے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں اُور جو شعبے نظرانداز ہیں اُن کی بہتری کی جانب توجہ دی جائے۔
سال دوہزار سترہ کی درجہ بندی کے مطابق خیبر پختونخوا پانچویں درجے پر ہے۔ تعلیمی معیار اور سہولیات کے حوالے سے ’’پاکستان ڈسٹرکٹ ایجوکیشن رینکنگ‘‘ کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ میں ملک کے چاروں صوبوں‘ اِسلام آباد‘ قبائلی علاقہ جات (فاٹا)‘ کشمیر اُور گلگت بلتستان کی ضلعی تعلیمی درجہ بندی کی گئی ہے اور ملک کے 141اضلاع کی فہرست میں ضلع ہری پور (خیبرپختونخوا) پہلے نمبر پر جبکہ پاکستان میں تعلیم کے لحاظ سے 10بہترین اضلاع میں سے صوبہ پنجاب کے پانچ‘ آزاد کشمیر کے چار اور خیبر پختونخوا کا ایک ضلع شامل ہے۔ پاکستان میں اگر حکومت کی زیرنگرانی ’’تعلیمی نظام‘‘ کی بات کی جائے تو پہلے نمبر پر آزاد کشمیر‘ دوسرے پر اسلام آباد‘ تیسرے پر پنجاب جبکہ چوتھے نمبر پر گلگت بلتستان ہیں‘ جہاں سرکاری سکولوں کا معیار تعلیم اور نظم و ضبط بتدریج بہتر ہے۔ اس درجہ بندی میں خیبرپختونخوا پانچویں اور بلوچستان چھٹے نمبر پر ہے جبکہ تعلیم کے ناقص نظام کی وجہ سے سندھ اُور فاٹا سب سے پیچھے ہیں۔ البتہ پرائمری سکولوں کی عمارتیں اور وہاں سہولیات کی فراہمی کے لحاظ سے خیبر پختونخوا سب پر سبقت لے گیا ہے اُور پہلے دس اضلاع میں سے بہترین پرائمری سکولوں کے لحاظ سے ’9 اضلاع‘ کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔ مڈل درجے کے سکولوں کی عمارتیں اور تدریسی سہولیات میں صوبہ پنجاب دیگر صوبوں سے آگے ہے۔
سال دوہزار سترہ کی درجہ بندی کے مطابق خیبر پختونخوا پانچویں درجے پر ہے۔ تعلیمی معیار اور سہولیات کے حوالے سے ’’پاکستان ڈسٹرکٹ ایجوکیشن رینکنگ‘‘ کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ میں ملک کے چاروں صوبوں‘ اِسلام آباد‘ قبائلی علاقہ جات (فاٹا)‘ کشمیر اُور گلگت بلتستان کی ضلعی تعلیمی درجہ بندی کی گئی ہے اور ملک کے 141اضلاع کی فہرست میں ضلع ہری پور (خیبرپختونخوا) پہلے نمبر پر جبکہ پاکستان میں تعلیم کے لحاظ سے 10بہترین اضلاع میں سے صوبہ پنجاب کے پانچ‘ آزاد کشمیر کے چار اور خیبر پختونخوا کا ایک ضلع شامل ہے۔ پاکستان میں اگر حکومت کی زیرنگرانی ’’تعلیمی نظام‘‘ کی بات کی جائے تو پہلے نمبر پر آزاد کشمیر‘ دوسرے پر اسلام آباد‘ تیسرے پر پنجاب جبکہ چوتھے نمبر پر گلگت بلتستان ہیں‘ جہاں سرکاری سکولوں کا معیار تعلیم اور نظم و ضبط بتدریج بہتر ہے۔ اس درجہ بندی میں خیبرپختونخوا پانچویں اور بلوچستان چھٹے نمبر پر ہے جبکہ تعلیم کے ناقص نظام کی وجہ سے سندھ اُور فاٹا سب سے پیچھے ہیں۔ البتہ پرائمری سکولوں کی عمارتیں اور وہاں سہولیات کی فراہمی کے لحاظ سے خیبر پختونخوا سب پر سبقت لے گیا ہے اُور پہلے دس اضلاع میں سے بہترین پرائمری سکولوں کے لحاظ سے ’9 اضلاع‘ کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔ مڈل درجے کے سکولوں کی عمارتیں اور تدریسی سہولیات میں صوبہ پنجاب دیگر صوبوں سے آگے ہے۔
رواں برس (دوہزار اٹھارہ) کی درجہ بندی میں زیادہ بہتر پوزیشن حاصل کرنے کے لئے خیبرپختونخوا حکومت نے انقلابی اقدام متعارف کرایا ہے جس کے ذریعے پرائمری اور سیکنڈری سطح پر تعلیمی اِداروں کی نہ صرف عمارتیں بہتر بنائی جائیں گی بلکہ درسگاہوں سے بہتر تدریسی نتائج حاصل کرنے کے لئے نصاب کی تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے‘ کلاس رومز میں ٹیکنالوجی کے استعمال اور سکولوں میں بہترین و سازگار ماحول یقینی بنانے کے لئے ’سکول کوالٹی مینجمنٹ انیشی اٹیو‘ کے نام سے حکمت عملی مرتب کے تحت سکولوں کے معائنے کا عمل پہلے سے زیادہ سخت اور بہتر بنایا جائے گا۔ مذکورہ منصوبہ معلم اُور نگران معلم (ہیڈماسٹر) کو تعلیمی نظام‘ نگرانی‘ تشخیص اور سیکھنے کے ماحول کے حوالے سے رائے بھی فراہم کرے گا۔ واضح رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے گزشتہ پانچ برس میں تیس ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کر چکی ہے‘ یہ رقم سرکاری سکولوں میں کمرے بنانے‘ چاردیواریوں اور عمارتوں کی تعمیر‘ بجلی کی فراہمی‘ بیت الخلاء‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسی سہولیات کی فراہمی پر خرچ کی گئی ہیں۔
’’الف اعلان‘‘ کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت نے سرکاری سکولوں کے انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لئے دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ مالی وسائل خرچ کئے لیکن تعلیم کے معیار میں خاطرخواہ بہتری نہیں آ سکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا پنجاب اور سندھ سے پیچھے ہے۔ نئی حکمت عملی کے تحت خیبرپختونخوا حکومت پانچ سو ’’اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز‘‘ کو سمارٹ (انڈرائیڈ) موبائل فون فراہم کئے جائیں گے‘ جو اپنے متعلقہ علاقے میں موجود سرکاری سکولوں کا دورہ کرکے طلباء و طالبات‘ اساتذہ اور کلاس رومز سے متعلق معلومات (ڈیٹا) جمع کریں گے۔ متعلقہ اہلکاروں کو پہلے ہی موبائل فون ایپلیکیشن کے استعمال کی تربیت دی جا چکی ہے تاکہ پرائمری اور ثانوی سکولوں کے بارے میں معلومات (ڈیٹا) باآسانی جمع اور بلاتاخیر مرکزی ڈیٹابیس میں منتقل کریں۔ پہلے مرحلے میں ’ایجوکیشن افسران‘ سکولوں میں انگریزی‘ اُردو اور حساب کے مضامین سے متعلق طلبہ کا ڈیٹا جمع کریں گے۔
نئی حکمت عملی کا آغاز ’’ضلع ایبٹ آباد‘‘سے تجرباتی بنیادوں پر شروع کیا گیا ہے‘ جسے بعدازاں دیگر اضلاع تک توسیع دی جائے گی۔ منصوبے کو مڈل‘ ہائی اور ہائر سکینڈری سکولوں میں لانے کی تجویز بھی
’’الف اعلان‘‘ کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت نے سرکاری سکولوں کے انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لئے دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ مالی وسائل خرچ کئے لیکن تعلیم کے معیار میں خاطرخواہ بہتری نہیں آ سکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا پنجاب اور سندھ سے پیچھے ہے۔ نئی حکمت عملی کے تحت خیبرپختونخوا حکومت پانچ سو ’’اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز‘‘ کو سمارٹ (انڈرائیڈ) موبائل فون فراہم کئے جائیں گے‘ جو اپنے متعلقہ علاقے میں موجود سرکاری سکولوں کا دورہ کرکے طلباء و طالبات‘ اساتذہ اور کلاس رومز سے متعلق معلومات (ڈیٹا) جمع کریں گے۔ متعلقہ اہلکاروں کو پہلے ہی موبائل فون ایپلیکیشن کے استعمال کی تربیت دی جا چکی ہے تاکہ پرائمری اور ثانوی سکولوں کے بارے میں معلومات (ڈیٹا) باآسانی جمع اور بلاتاخیر مرکزی ڈیٹابیس میں منتقل کریں۔ پہلے مرحلے میں ’ایجوکیشن افسران‘ سکولوں میں انگریزی‘ اُردو اور حساب کے مضامین سے متعلق طلبہ کا ڈیٹا جمع کریں گے۔
نئی حکمت عملی کا آغاز ’’ضلع ایبٹ آباد‘‘سے تجرباتی بنیادوں پر شروع کیا گیا ہے‘ جسے بعدازاں دیگر اضلاع تک توسیع دی جائے گی۔ منصوبے کو مڈل‘ ہائی اور ہائر سکینڈری سکولوں میں لانے کی تجویز بھی
زیر غور ہے۔
خیبرپختونخوا کے سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے پانچ سال تجربات کی نذر ہو گئے لیکن ماضی کی غلطیوں سے سبق پھر بھی نہیں حاصل کیا گیا۔ ضروریات معلوم تھیں لیکن غیرضروری اور نمائشی مقاصد کے لئے خطیر رقم معلومات (ڈیٹا) اکٹھا کرنے اور تشہیری ممہات پر خرچ کی گئی۔ اساتذہ کی تربیت برطانوی اِدارے ’برٹش کونسل‘ سے دلوائی گئی اور حسن اتفاق سے تربیت کے معیار اور نگرانی کے لئے ’برٹش کونسل‘ ہی کے سابق ملازمین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ تربیتی مواد کی اشاعت پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے اور جو تربیتی نصاب تشکیل دیا گیا‘ وہ نقل بمطابق اصل تھا۔ خیبرپختونخوا کے اساتذہ کو اپنے نصاب تعلیم اور اپنے حالات کے مطابق تربیت دینے کی بجائے غیرملکی نصاب اور تدریسی اصول سکھائے گئے جو ’’رات گئی بات گئی!‘‘ فراموش ہوتے چلے گئے۔ تربیت مکمل کرنے والوں نے اپنے اپنے اضلاع میں ہم عصر اساتذہ کی تربیت کرنا تھی لیکن یہ عمل بھی مکمل نہ ہو سکا جبکہ حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے میں دو ماہ سے کم عرصہ باقی رہ گیا ہے۔
’’تعلیمی ایمرجنسی‘‘ کا نفاذ خوش آئند تھا لیکن محض ہنگامی حالت کا اعلان اُور ہر کام کا اعزاز حاصل کرنے کی بجائے اگر ہر رکن صوبائی اسمبلی کو اپنے اپنے انتخابی حلقے میں سرکاری سکولوں کی کارکردگی اور کمی بیشی کی رپورٹ جمع کرانے کا کہا جاتا تو زیادہ تفصیلی اور کم خرچ میں معلومات حاصل ہو سکتیں تھیں۔
’’تعلیمی ایمرجنسی‘‘ کا نفاذ خوش آئند تھا لیکن محض ہنگامی حالت کا اعلان اُور ہر کام کا اعزاز حاصل کرنے کی بجائے اگر ہر رکن صوبائی اسمبلی کو اپنے اپنے انتخابی حلقے میں سرکاری سکولوں کی کارکردگی اور کمی بیشی کی رپورٹ جمع کرانے کا کہا جاتا تو زیادہ تفصیلی اور کم خرچ میں معلومات حاصل ہو سکتیں تھیں۔
بلدیاتی نظام متعارف ہونے کے بعد ہر ایک ’ویلیج نیبرہڈ کونسل‘ کی سطح پر سرکاری سکولوں کے تدریسی معیار‘ اساتذہ کے حسن سلوک اُور اِمتحانی نتائج کی نگرانی زیادہ شفاف اَنداز میں ممکن تھی لیکن اگر اجتماعی دانش پر بھروسہ کیا جاتا۔ سینکڑوں کی تعداد میں قیمتی موبائل فونز کی خریداری اِس بات کی ضمانت نہیں ہوں گے کہ اِس سے سرکاری سکولوں کے اِمتحانی نتائج میں تبدیلی (بہتری) آئے گی۔ سیاسی فیصلہ سازوں سے ایسے ماہرین تعلیم سے چھٹکارہ پانا ہوگا‘ جو ٹیکنالوجی کا اَندھادھند اِستعمال تجویز کرتے ہیں۔ توجہ طلب اَمر یہ بھی ہے کہ جمہوریت کسی ایک شخص یا کسی ایک جماعت کی کارکردگی نہیں ہوتی بلکہ اِس ’ٹیم ورک‘ میں حزب اقتدار سے زیادہ حزب اختلاف کے اراکین فعال کردار ادا کرتے ہیں‘ اے کاش ہم اپنے فکروعمل کی اصلاح کرتے ہوئے اُس نظام کی اساس پر غور کریں‘ جو ’’جمہوریت‘‘ کہلاتا ہے اور جمہور (اجتماعی مفادات) کے لئے تشکیل دیا جاتا ہے۔ اِسی جمہوریت کا تعارف ایسا طرزحکمرانی بھی ہے‘ جس میں ’قومی خزانے‘ پر بوجھ ’کم سے کم‘ ہو۔
۔
![]() |
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-03-27 |
No comments:
Post a Comment