Wednesday, March 28, 2018

Mar 2018: The case of Village Majohan of UC Nambal, Abbottabad

مہمان کالم
مجہوہاں: محروم توجہ!
یونین کونسل نمبل کا گاؤں ’مجہوہاں (Majohan)‘ موجودہ انتخابی حلقہ بندیوں کے مطابق صوبائی اسمبلی کے حلقہ ’PK-45‘ اور قومی اسمبلی کے حلقہ ’NA-17‘ کا حصہ ہے۔ عام انتخابات کے دوران ’مجوہاں‘ کے مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر قریب چھ ہزار ووٹ پول ہوتے ہیں جبکہ گاؤں کی مجموعی آبادی بارہ ہزار نفوس سے زیادہ ہے۔ خیبرپختونخوا کے اِس گاؤں کے رہنے والوں کو معمولی علاج معالجے کے لئے متصل ’آزاد کشمیر‘ جانا پڑتا ہے۔ 

ہنگامی حالات میں کسی مریض کو ’مجہوہاں‘ سے ’مظفرآباد (کشمیر) تک ’خصوصی گاڑی (اسپیشل ٹرانسپورٹ)‘ میں ہسپتال منتقل کرنا پڑتا ہے جس کا یک طرفہ کم سے کم کرایہ تین ہزار روپے ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ نمبل میں ہسپتال چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن وہاں علاج کی سہولیات معیاری نہیں اور نمبل ہسپتال پہنچنے والے اکثر مریضوں کو مظفرآباد ’ریفر‘ کر دیا جاتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ مقامی اَفراد ڈاکٹروں کے اِس مشورے سے قبل ہی مظفرآباد کا رُخ کرتے ہیں تاکہ پہلے نمبل اور بعدازاں مظفرآباد جانے سے بہتر ہے کہ خود ہی مظفرآباد کی راہ لی جائے۔

فوج کی ’ایف ایف یونٹ‘ سے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لینے والے ’’عظیم خان عباسی‘‘ المعروف ’فوجی‘ گاؤں مجہوہاں کے سماجی کارکن ہیں جن کی اہلیہ ’شرین بی بی‘ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی خاتون کونسلر کے طور پر الگ شناخت رکھتی ہیں۔ دو بیٹوں (عثمان و احسان) اور بیٹی (فروا عظیم عباسی) کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں نبھاتے دونوں میاں بیوی ’مجہوہاں‘ کے مسائل کے حل کے لئے اکثر ایبٹ آباد میں درخواست گزار پائے جاتے ہیں۔ اہل گاؤں کی غربت اور مسائل کی شدت سے بے چین یہ دونوں نفوس انتہائی حساس ہیں اُور ہر اُس در پر دستک دینے میں عار محسوس نہیں کرتے‘ جہاں سے اجتماعی بہبود کے منصوبوں کے لئے کچھ ملنے کی اُمید ہو۔ 

منتخب اراکین اسمبلی کی توجہ انتخابی وعدوں کو ایفاء کرنے کی جانب مبذول کروانے کی ہر کوشش اگرچہ (ابتک) رائیگاں گئی ہے لیکن آئندہ عام انتخابات کے قریب آنے پر اہل مجہوہاں پراُمید ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت میں صوبائی حکومت اپنی آئینی مدت کے آخری چند ماہ کے دوران ’یونین کونسل نمبل‘ اور بالخصوص ’مجہوہاں‘ کے لئے ’خصوصی ترقیاتی پیکج‘ کا اعلان کرے گی۔ 

مجہوہاں کے جذباتی نوجوان تحریک انصاف سے ہزار اختلافات کے باوجود بھی اِس کا حصہ ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ اُن غیرمتزلزل اور غیرمشروط سیاسی حمایت کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔

اُمیدوں کا سفر ’’مجہوہاں سے ایبٹ آباد‘‘ تک مسلسل ہے۔ قریب تین گھنٹے کی اِس سفری مسافت طے کرنے کے لئے دو گاڑیاں تبدیل کرنی پڑتی ہیں اُور یک طرفہ ’ڈھائی سو روپے‘ کرایہ (نقد) اَدا کرنا پڑتا ہے۔ ’مجہوہاں‘ میں پینے کے صاف پانی کی قلت‘ سڑکوں کی خراب حالت‘ طالبات کے لئے مڈل و ہائی سکول‘ طلباء کے لئے کمپیوٹر اور فنی تعلیم کی درسگاہ اُور علاج معالجے کی سہولت نہ ہونے جیسے مسائل حل طلب ہیں! تصور کیجئے کہ بالائی ایبٹ آباد کی ’’8 یونین کونسلوں‘‘ پر مشتمل ’سرکل بکوٹ‘ پسماندگی کی تصویر ہے! حال ہی میں یونین کونسل ’’کرلی (Kurli)‘‘ میں خیبرپختونخوا حکومت نے ’ڈسپنسری‘ قائم کرنے کی اصولی منظوری دی ہے جبکہ (ویلیج کونسل) ’کرلی‘ کی آبادی ’مجہوہاں‘ سے کم ہے لیکن اعلیٰ ظرف اہل مجہوہاں سمجھتے ہیں کہ ’’اگرچہ حق تلفی ہوئی ہے جس کی تلافی ممکن ہے۔‘‘ عظیم عباسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’مجہوہاں کا حق تھا کہ اُسے ڈسپنسری دی جاتی لیکن یہ حق کسی دوسرے کی حق تلفی یا ترجیح کی صورت نہیں چاہئے۔‘‘ افسوس کا مقام ہے کہ یونین کونسل نمبل سمیت سرکل بکوٹ کے درجنوں ایسے دیہات جن میں مجہوہاں سے متصل ’ترہیٹی (گاؤں) بھی شامل ہے جہاں علاج معالجے کی بنیادی تو کیا ابتدائی سہولیات تک میسر نہیں اور اہل علاقہ معمولی بیماریوں کے لئے جمع پونجی کا بڑا حصہ مجبوراً خرچ کر رہے ہیں۔ عظیم عباسی ایک کھلے دل کے انسان ہیں جو اپنے گاؤں (مجہوہاں) میں ڈسپنسری کے لئے دوڑ دھوپ کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ اُن کے گاؤں سے زیادہ مستحق دیہی علاقوں کی ضروریات کا سروے کیا جائے اور ترقی کا عمل مربوط کیا جائے جس سے مقامی افراد کی محرومیاں ختم ہوں نہ کہ ترقیاتی عمل سے محرومیوں میں اضافہ ہو۔ 

سرکل بکوٹ میں شاہراؤں کا ’نیٹ ورک‘ مثالی نہیں بالخصوص دور دراز دیہات نظر انداز ہیں جہاں علاج معالجے کی سہولیات کا دائرہ وسیع ہونا چاہئے۔ قابل ذکر ہے کہ ’مجہوہاں‘ پاکستان تحریک انصاف کا گڑھ ہے۔ 

’مئی دوہزار تیرہ‘ کے عام انتخابات میں مجہوہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے نامزد اُمیدواروں ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون اور عبدالرحمان عباسی کامیاب رہے۔ بعدازاں ضمنی انتخاب کے موقع پر بھی تحریک انصاف ہی کے نامزد ’علی اصغر خان‘ کو مسلم لیگ نواز کے ’فرید خان‘ نامزد اُمیدوار فرید خان پر ترجیح دی گئی۔ علی اصغر غیر مقامی تھے اِس لئے مجموعی طور پر ’ضمنی انتخابی معرکہ‘ نہ جیت سکے لیکن مجہوہاں گاؤں کی تحریک انصاف کے ساتھ وفاداریوں میں کوئی فرق نہ آیا۔ حسب سابق ضمنی انتخاب میں بھی ’اِہل مجہوہاں‘ کی اکثریت نے ’تحریک انصاف‘ ہی کے حق میں ووٹ دے کر عمران خان سے اپنی دلی محبت کا عملی ثبوت دیا لیکن اَفسوس کہ توقعات کے برعکس ’مجہوہاں کی خاطرخواہ قدر نہیں کی گئی!‘

ضلع ایبٹ آباد میں ’تحریک انصاف‘ کا تنظیمی ڈھانچہ باہمی اختلافات کی وجہ سے کمزور ہے۔ چھبیس مارچ (دوہزار اٹھارہ) کے روز چیئرمین عمران خان نے ’رکن سازی مہم‘ کے سلسلے میں ایبٹ آباد کا ایک روزہ مختصر دورہ کیا اور اِس موقع پر کارکنوں کے دو الگ الگ اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے باہمی اختلافات ختم کرنے کی تلقین فرمائی لیکن اگر وہ اپنی موجودگی کے باوجود بھی کارکنوں کے اختلافات ختم نہیں کر سکے تو پھر اُن کی عدم موجودگی میں کیونکر ممکن ہوگا کہ کارکن زیادہ بڑے مقصد کے لئے باہم شیروشکر ہو جائیں۔ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت (بنی گالہ) کو سمجھنا ہوگا کہ صوبائی حکومت ضلع ایبٹ آباد کے بالائی علاقوں میں حسب ضرورت تعمیروترقی اور سہولیات کی فراہمی نہیں کر پائی ہے۔ 

بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ بالائی ایبٹ آباد کے بہت سے ایسے دیہی علاقے ہیں جہاں بہتری کے لئے عملی کوشش دیکھنے میں نہیں آئیں۔ 

’اہل مجہوہاں‘ سمیت سرکل بکوٹ کی جنت نظیر وادیوں میں رہنے والے ’تحریک انصاف‘ کے کارکنوں کو جہاں ’مضبوط تنظیمی ڈھانچے‘ کی ضرورت ہے وہیں صحت و تعلیم‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور رابطہ شاہراؤں کی تعمیر و توسیع سے اِس علاقے کی قسمت بدلی جا سکتی ہے۔ سیاحت کے وسیع اِمکانات سے مالامال بالائی ایبٹ آباد کے دیہی علاقے ’ترقیاتی توجہ‘ کے مستحق ہیں۔ ’’زندگی ہم سے تو اِس درجہ تغافل نہ برت ۔۔۔ ہم بھی شامل تھے‘ ترے چاہنے والوں میں کبھی (سلمان اختر)۔‘‘
۔۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-03-28

No comments:

Post a Comment