Hybrid war
نئے محاذ: مسلط جنگ!
انگریزی زبان کی اصطلاح ’ہائبرڈ (Hybrid)‘ کا استعمال ایسی ٹیکنالوجی کے لئے کیا جاتا ہے‘ جو ایک سے زیادہ طاقت کے ذرائع رکھتی ہو۔ مثال کے طور پر ایسی گاڑی جو بیک وقت دو طرح کے ایندھن استعمال کرے۔ زراعت اور جنیاتی علوم میں ’ہائبرڈ‘ دوغلی نسل کے جانوروں اور سبزی یا پھل کے ایسے بیج کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جو زیادہ پیداوار اور کسی پھل یا سبزی کی دیگر جنیاتی خصوصیات میں تبدیلی کرکے حاصل کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’ہائبرڈ‘ اصطلاح کا ایک مفہوم ’دوغلی نسل‘ بھی ہے۔ اگر ’ہائبرڈ‘ جیسی کثیرالمعانی اصطلاح کا استعمال سیاسی‘ اقتصادی اور دفاعی شعبوں پر کیا جائے تو اِس کا مطلب ایک ’غیرروائتی طرزعمل‘ہوگا۔
یادش بخیر اٹھارہویں صدی کی بات ہے جب پہلی قسم کے جنگ و جدل میں افرادی عسکری طاقت پر بھروسہ کیا جاتا ہے جو صف بستہ ہو کر مخالف فوجیوں پر حملہ آور ہوتے یا اپنے ملک (علاقے) کا دفاع کرتے۔ اُنیسویں صدی میں جنگ کا ہتھیار بندوق اور بارود رہا جبکہ اُنیسویں صدی میں تیسری قسم کی جنگ رفتار‘ فوری اور اچانک حملہ آور ہونے کی صلاحیت و تیاری کے ساتھ لڑی جاتی تھی۔ اِس تیسرے جنگی دور میں جنگی طیارے‘ ٹینک اور بھاری گولہ باری کرنے والے خودکار ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔
سال 2004ء میں ’جان پرکنز (John Perkins)‘ نے جنگ کے میدان‘ حالات اور ہتھیاروں کی تبدیلی سے متعلق نظریات کو بیان کیا کہ کس طرح جنگ جاری ہے لیکن ایک مختلف جنگی حکمت عملی کے ساتھ۔ سال 2006ء میں ’امریکن فوج کے وار کالج‘ اور ’کینیڈین لینڈ فورسیز کے تربیتی مرکز‘ کے ماہرین کا ’کوئنز یونیورسٹی آف کنگسٹن‘ کینیڈا‘ میں مشترک اجلاس ہوا۔ اِس اہم و کلیدی ملاقات کے دوران دو باتوں (لائحہ عمل) پر اتفاق ہوا۔ جس میں پہلا اتفاق یہ تھا کہ ’روائتی دفاعی اسلوب اور جنگی تیاری جاری رکھی جائے جو اگرچہ ضروری ہے لیکن کافی نہیں۔‘ اور دوسرا چونکہ تغیرپذیر جنگ کا طریقۂ کار اُور حکمت عملی متقاضی ہیں کہ ایک کثیرالمحاذی اُور کثیرالجہتی جنگ کی تیاری کی جائے کیونکہ جنگ تبدیل ہو چکی ہے۔
پاکستان پر بھی ’دوغلی (ہائبرڈ)‘ جنگ 8 اطراف سے مسلط ہے۔ اقتصادی‘ غیرملکی دخل اندازی‘ غلط معلومات پھیلانے کی صورت‘ سفارتی محاذ‘ سائبر حملے‘ عمومی اور روائتی جنگی ہھتیاروں اور وسائل کے استعمال سے حملہ اور روائتی فوجی کاروائیوں کے ذریعے جنگ۔ بنیادی مقصد یہ ہے کہ کسی ملک کو اقتصادی طور پر اِس قدر کمزور کر دیا جائے کہ وہ اپنے دفاع کے قابل نہ رہ سکے اور نہ ہی اپنی دفاعی ترقی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے قابل رہ سکے۔ تبدیل ہوتے عالمی ماحول میں ’تجارت‘ بھی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
پاکستان پر مسلط نئے طرز کی جنگ اور اِس کی سنجیدگی کا ہمارے حکمرانوں کو اندازہ نہیں۔ 27کلومیٹر اورنج لائن منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 162 ارب لگایا گیا ہے۔ اِس ٹرین منصوبے میں سفر کرنے کا خرچ فی مسافر 175 روپے بنتا ہے لیکن حکومت 20 روپے کا ٹکٹ فروخت کرے گی۔ جس کا مطلب ہے کہ ہر روز حکومت کو 4 کروڑ روپے خسارہ ہو گا جو سالانہ 14 ارب ہوگا۔ اِسی طرح دیگر ترقیاتی منصوبوں پر لاگت زیادہ اور اُن سے حاصل ہونے والی آمدنی کم ہے۔ ایسے ترقیاتی منصوبے بھی ہیں جن پر لاگت کے تخمینہ جات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جیسا کہ نندی پور پاور پراجیکٹ جو 3 کروڑ 29لاکھ ڈالر کے تخمینے سے شروع ہوا لیکن اس کی لاگت 8 کروڑ 47 لاکھ ہو چکی ہیں۔
پاکستان پر مسلط جنگ کے اقتصادی سیاسی اور سماجی محاذ ہیں‘ جس سے نمٹنے کے لئے ہر محاذ کی الگ الگ حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ آنے والے وقتوں میں ہلکے اُور بھاری ہتھیاروں سے ضرورت اپنی جگہ رہے گی لیکن اقتصادی سیاسی اور سماجی محاذوں پر جنگ سے بھی نمٹنا ہوگا جس میں روائتی جنگوں کی طرح خون خرابہ نہیں ہوتا لیکن نقصانات کا حجم زیادہ ہوتا ہے۔ کیا پاکستان نے ایسی کسی ’ہائبرڈ جنگ‘ سے نمٹنے اور اپنے دفاع کی تیاریاں کر رکھی ہیں؟
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
First generation warfare was about uniformed soldiers fighting wars with ‘massed manpower using line and column tactics’. This was back in the 18th century. Second generation warfare used ‘rifled muskets and breach-loaders’, ending the line and column tactics. This was back in the 19th century. Third generation warfare is about three things: ‘speed, stealth and surprise’, in order to ‘bypass the enemy’s lines and collapse their forces from the rear’. The weapons of the third generation war are: fighter aircrafts, tanks and artillery.
ReplyDeleteIn 2004, John Perkins in ‘Confessions of an economic hit man’ admitted that “We (economic hitmen) work very much like some of the hitmen for the mafia-because like them, we are looking for a favour, except we do it on a large level with governments and countries.”
In 2006, the US Army War College and the Canadian Land Forces Doctrine and Training Centre got together at Queen’s University in Kingston, Canada. Two conclusions were drawn at the strategic gathering. One: “Time honoured concepts of national security and the classical military means to attain it, while still necessary, are no longer sufficient.” Two: “War has changed. New organising principles require a new paradigm that facilitates change from a singular military approach to a multidimensional, multi-organisational… approach to deal more effectively with the contemporary global security reality.”
Pakistan is in the midst of a ‘hybrid war’. A war is being waged; the weapons of war have changed. In essence, Pakistan is under an eight dimensional attack: (i) economic warfare; (ii) foreign support of domestic unrest; (iii) information warfare propaganda; (iv) diplomatic onslaught; (v) cyber attacks; (vi) offensive from irregular forces; (vii) operations by Special Forces; and (viii) regular military operations.
ReplyDeleteThe principal objective behind economic warfare is to weaken the target country’s economy so that the target country is unable to allocate sufficient resources to its armed forces. Debt is being used as a weapon of war. International trade is being used as a weapon of war. ‘Unsound economic projects’ are also the new weapons of war.
The 27-kilometre Orange Line, the light rail rapid transit system, is expected to cost Rs162 billion. The estimated break-even is Rs175 per ticket. At Rs20 a ticket, the Orange Line will lose Rs40 million a day or Rs14 billion a year every year. The Government of Pakistan, for instance, has guaranteed an annual Return on Equity (ROE) of 34.49 percent for the Thar Coal Block-I Power Generation Company. The project cost is estimated at $767 million, of which $575 million is debt. The interest rate used as the reference is the Inter Bank Offer Rate (LIBOR) of 0.45 percent plus 450 basis points.
The Nandipur Power Project has gone from $329 million to $847 million. Neelum-Jhelum has gone from Rs15 billion to Rs414 billion. The New Islamabad Airport has gone from Rs37 billion to over Rs105 billion.
This ‘hybrid attack’ on Pakistan has three dimensions: economic, political and societal. To be certain, our internal fault lines are being exploited – supported and financed – from across the borders. To be sure, to weaken the state, critical institutions are being attacked. Yes, there isn’t any physical damage because hybrid warfare aims at ‘degrading the morale and well-being of a nation’s citizens’.
Tanks, as weapons of war, are out. Unsound economic projects, as weapons of war, are in. Rifled muskets, as weapons of war, are out. Debt, as a weapon of war, is in. A hybrid war is being waged on Pakistan. There is no visible bloodshed because the weapons of war have changed. Are we prepared?