ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سرمایہ کاری برائے مستقبل!
کسی ملک یا معاشرے کے رہنے والوں کی صحت کا معیار جانچنے کا عالمی معیار (پیمانہ) ’ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس‘ ہے جس کے مطابق دنیا کے ’188 ممالک‘ میں پاکستان ’147ویں‘ نمبر پر ہے۔ یہ صورتحال کسی بھی صورت مثالی نہیں بالخصوص ایک ایسے ملک میں جہاں تعمیروترقی پر صحت سے زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ پختہ سڑکیں‘ موٹروے‘ آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں‘ درآمد شدہ آسائشیں ایک طرف اور دوسری طرف اگر آبادی کے نصف سے زائد اگر غذائی قلت کا شکار ہیں یا اُنہیں حسب ضرورت غذا نہیں مل رہی تو قصوروار کون ہے؟
ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کے مطابق پاکستان میں فی کس خوراک ملنے کا تناسب اور حسب آبادی صحت کی سہولیات کی فراہمی میں اسلام آباد سرفہرست (ویری ہائی لیول) ہے جبکہ اِیبٹ آباد اُور لاہور دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں‘ جن کا شمار اُن اضلاع میں ہوتا ہے کہ جہاں صورتحال نسبتاً بہتر (ہائی لیول) ہے لیکن بدقسمتی سے تین صوبوں (سندھ‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا) کے کئی ایسے اضلاع ہیں جن کا شمار انگلیوں پر گننا تک ممکن نہیں کہ جہاں ’غربت نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے!‘
پاکستان میں 58 فیصد خاندان ’غذائی عدم اِستحکام (فوڈ اِن سیکورٹی)‘کا شکار ہیں جن میں سے قریب 10فیصد (9.8%) ایسے ہیں‘ جنہیں یومیہ ایک وقت کا کھانا تک میسر نہیں اُور یہ اعدادوشمار سال دوہزار گیارہ کے سروے (جائزے) سے معلوم ہوئے تھے جس کے بعد سے تاحال ’نیشنل نیوٹریشن سروے‘ نہیں ہو سکا ہے‘ جس پر اِظہار اَفسوس کرتے ہوئے ماہرین نے ’قومی صحت کو ترجیح‘ بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ایبٹ آباد میں ’صحت سے متعلق عمومی شعور اُجاگر کرنے کی غیررسمی نشست میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے ’دوہزارسترہ‘ میں ہوئی مردم شماری میں صحت سے متعلق اعدادوشمار اکٹھا نہ کرنے پر بھی دکھ کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ سات سالہ پرانے اعدادوشمار کی بنیاد پر قومی اور صوبائی حکمت عملیاں مرتب کرنے کی بجائے بلاتاخیر سروے کروایا جائے‘ قومی وسائل کا بڑا حصہ کم آمدنی والے طبقات کو خوردنی اشیاء کی فراہمی پر خرچ ہونا چاہئے کیونکہ آبادی میں اضافے کا سیدھا سادا مطلب یہی ہے کہ غربت کی شرح میں غیرمعمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ نشست میں ’فوڈ سیکورٹی اینڈ ٹیوٹریشن اسٹریٹجک ریویو فار پاکستان 2017ء‘ نامی حکمت عملی کا بھی سرسری جائزہ لیا گیا جس سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کی کل آبادی کا 18فیصد ’خوراک کی کمی‘ کا شکار ہے۔ بچوں کی اکثریت کا وزن اُن کی عمروں کے تناسب سے کم ہے اور جب تک ’تعلیمی پالیسی‘ میں خوراک کو شامل نہیں کیا جاتا‘ اُس وقت تک بچوں کو لاحق ہونے والے امراض میں کمی نہیں آئے گی۔ حاملہ خواتین کی صحت و خوراک اور بچے کی بعداز پیدائش سے نشوونما کے مختلف مراحل سے متعلق ایک ایسی قومی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں سرکاری طور پر کم آمدنی رکھنے والے طبقات کی مالی سرپرستی کی جائے۔ اِس سلسلے میں مغربی (ترقی یافتہ) ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں عوام کی قوت خرید ہونے کے باوجود بھی حاملہ خواتین اور نومود بچوں کو حکومت کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے اور اُن کی خوردنی ضروریات پوری کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں نہ صرف بچوں کی جسمانی نشوونما بہتر ہوتی ہے بلکہ اُن کی ذہانت کا معیار بھی پاکستان سے کئی درجے بلند ہوتا ہے۔ ماں اور بچے کی صحت میں سرمایہ کاری درحقیقت مستقبل میں سرمایہ کاری کرنے کے مترادف عمل ہے لیکن افسوس کہ صحت کے حوالے سے بالخصوص ہمارے سیاسی و غیرسیاسی پالیسی سازوں نے قوم کو سوائے بیماریوں اور مشکلات کے اُور کچھ نہیں دیا۔
مقام صد افسوس ہے کہ خیبرپختونخوا میں حاملہ خواتین کی پچاس فیصد سے زائد تعداد جبکہ عمومی طور پر تیئس فیصد آبادی ’فولاد کی کمی‘ کا شکار ہے۔ ’آئرن‘ کی کمی دور کرنے کے لئے عالمی ادارے خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں مفت ادویات تقسیم کرنے کی حکمت عملی بنائے ہوئے ہیں جس میں ’آئرن کی کمی‘ کے بارے شعور اُجاگر کرنے کی مہمات بھی شامل ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صرف شعور اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے توجہ دلانے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت اِس بات کی سکت ہی نہیں رکھتی کہ وہ فولاد سے بھرپور خوراک یا ادویات خرید سکیں! حکومت اگر بچوں کو ملنے والے ملاوٹ شدہ دودھ ہی کی خبر لے تو صورتحال بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ خیبرپختونخوا کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ زرعی معیشت و معاشرت رکھنے والے علاقوں کے رہنے والے یہاں کے لوگ بھی فولاد کی کمی کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے! وجہ یہ ہے کہ ہمارے شہروں کی طرح دیہی علاقوں میں بھی لوگوں نے ’صحت مند رہن سہن ترک کر دیا ہے۔‘ کاربونیٹیڈ ڈرنکس اور خطرناک کیمیائی مادوں سے بھرپور اشیاء کی بھرمار ہے اور یوں ہمارے بڑے اور بچے صحت جیسی دولت سے محروم ہو رہے ہیں۔ کیمیائی مادوں سے بھرپور غیرصحت مند اشیائے خوردونوش کھانے سے قوت مدافعت کم ہو رہی ہے‘ جس کی وجہ سے لاحق ہونے والے کسی معمولی مرض کا علاج بھی نہایت ہی پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سرشام ماہر ڈاکٹروں کے کلینکس پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی کیونکہ مناسب خوراک اور صحت مند طرز زندگی ترک کرنے کی وجہ سے بیماریاں نہ صرف پھیل رہی ہیں‘ بلکہ وہ ہمارے گھروں میں گھر کر چکی ہیں۔
خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں مختلف قسم کے ساگ اُور سبزی بڑی مقدار میں پیدا ہو سکتی ہے لیکن زرعی پیداوار کی سرکاری سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے موافق آب و ہوا اور زرخیز مٹی سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ تعجب خیزہے کہ خیبرپختونخوا میں غربت اِس انتہاء تک جا پہنچی ہے کہ خوراک کی کمی سے حاملہ خواتین کی پچاس فیصد اور عمومی سطح پر تیئس فیصد افراد فولاد کی کمی کا شکار ہیں۔ فولاد کی اِس کمی کے باعث بچوں کی جسمانی نشوونما اور ذہانت بالعموم متاثر ہے جبکہ بالغ افراد (مرد و خواتین) میں فولاد کی کمی باآسانی دور کی جا سکتی ہے کیونکہ قدرتی طور پر موجود یہ عنصر عام دستیاب ہے۔
آئرن ڈیفیشینسی بذات خود کسی بیماری کا نام نہیں لیکن اِس کمی کی وجہ سے کئی اقسام کے عارضے لاحق ہو سکتے ہیں اور ہمارے اردگرد پھیلی نمودونمائش پر مبنی ترقی بے معنی ہو کر رہ جائے گی اگر ہم جسمانی اور ذہنی طور پر لاغر اُور قوت مدافعت کے لحاظ سے صحت مند اعصاب کے مالک نہیں بن جاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment