Sunday, May 27, 2018

TRANSLATION PTI's 100-days agenda by Dr. Farrukh Saleem

PTI's 100-days agenda
تحریک اِنصاف: ’’100 دن کا لائحہ عمل‘‘
دنیا عمل کا نام ہے۔ یہاں انعامات اور نتائج کوششوں اور جدوجہد سے ملتے ہیں خواہشات سے نہیں۔ معروف بات ہے کہ اگر خواہشات گھوڑے ہوتے تو گھڑ سواروں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق بھیکاریوں سے ہوتا۔ باالفاظ دیگر اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ اگر محض خواہش کرنے سے اہداف حاصل ہو سکتے تو زندگی بہت آسان ہو جاتی ہے۔ کسی فرد واحد یا گروہ (سیاسی جماعت) کی جانب سے لائحہ عمل (ایجنڈا) درحقیقت اُس کے عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ آنے والے دنوں (ایک معلوم عرصے کے دوران) یہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ لائحہ عمل دو جزئیات یعنی قول و فعل کا مرکب ہوتا ہے۔ قول کے تحت فیصلہ جبکہ فعل کے ذریعے اُسے عملی جامہ پہنایا جاتا ہے لیکن اگر ہم ’لائحہ عمل (agenda)‘ کا موازنہ ’خواہش (wish)‘ سے کریں تو لائحہ عمل میں اُمید کی کرن پوشیدہ ہوتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے بھی ایک ایسے ہی ’لائحہ عمل‘ کا اعلان کیا گیا ہے جو اِس کے وفاق میں برسراقتدار آنے کے ’پہلے 100 ایام (100-days)‘سے متعلق ہے۔ اِس منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نہ ملک کے سیاسی اور نہ ہی اقتصادی حالات سازگار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نہایت ہی سوچا سمجھا یہ منصوبہ خواہشات کے بہت قریب دکھائی دیتا ہے۔

’پی ٹی آئی‘ پاکستان میں اقتصادی ترقی چاہتی ہے اُور اِس مقصد کے لئے اُس کی جانب سے ’’10نکات‘‘ پر مبنی لائحہ عمل تحریک کے چیئرمین عمران خان نے پیش کیا ہے۔

پہلا نکتہ: پاکستان میں ایک کروڑ ملازمتیں تخلیق کی جائیں گی۔ اِس پہلے نکتے کو اگر سب سے زیادہ بلندبانگ دعویٰ قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ ’پی ٹی آئی‘ کی خواہش ہے کہ ملک میں ایک کروڑ افراد کو روزگار ملے لیکن اِسے عملاً ممکن بنانے کے لئے حکمت عملی کہاں ہے؟

دوسرا نکتہ: پاکستان میں صنعتی پیداواری شعبے کو بحال کیا جائے گا لیکن اِس کے لئے توانائی کہاں سے آئے گی اور توانائی کی قیمتیں کم کیسے کی جائیں گی تاکہ پاکستان میں تیار ہونے والی مصنوعات عالمی منڈیوں میں مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔ پاکستان میں بجلی اور گیس کی قیمت خطے کے دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہیں۔ صنعتوں کی بحالی سے متعلق بھی ’پی ٹی آئی‘ کی خواہش کا زمینی حقائق سے تعلق دکھائی نہیں دیتا اور یہ عمل کس طرح ممکن بنایا جائے گا‘ اِس بارے میں لائحہ عمل کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔

تیسرا نکتہ: پچاس لاکھ گھر تعمیر کئے جائیں گے۔ کیا ’پی ٹی آئی‘ نے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ لگایا ہے کہ اِس پر کل لاگت کیا آئے گی؟ محتاط اندازے کے مطابق پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے لئے 10 کھرب روپے درکار ہوں گے اور 10کھرب روپے معمولی رقم نہیں۔ اگر ہم 10کے ہندسے کے ساتھ 12 صفر لگائیں تو یہ رقم 10کھرب کو عددی اعتبار سے بیان کرے گی۔ ’پی ٹی آئی‘ کو اُمید ہے کہ وہ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ نجی شعبے کی مدد سے مکمل کرے گا لیکن کیا ’پی ٹی آئی‘ کے فیصلہ ساز جانتے ہیں کہ نجی شعبے کی کل مالی سکت 5 کھرب روپے ہے؟

چوتھا نکتہ: سیاحت کو ترقی دی جائے گی۔ بہت اچھی بات ہے۔ فی الوقت پاکستان کی سیر کے لئے آنے والوں کی تعداد قریب 10لاکھ ہے اُور سیاحت سے سالانہ 30 کروڑ ڈالر آمدنی حاصل ہو رہی ہے لیکن سیاحت کو ترقی دینے کے لئے عملی اقدامات (طریقۂ کار) کیا ہوگا؟

پانچواں نکتہ: ٹیکسوں کی وصولی کے نظام کی اصلاح کی جائے گی۔ بہت خوب لیکن کیسے؟ کیا اِس لائحہ عمل کا مطلب ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)‘ میں ایک ایسا سربراہ مقرر کرنا ہے جو ادارے کی کارکردگی اور ساکھ میں اضافہ کرے؟ یہ تو کوئی حکمت عملی نہ ہوئی بلکہ یہ تو ایک پیچیدہ مسئلے کا زیادہ پیچیدگی سے حل کرنے سے متعلق خواہش ہے۔

چھٹا نکتہ: پاکستان کاو ایک ایسا ملک بنایا جائے گا‘ جس میں کاروبار کرنا آسان اور کاروباری سرگرمیاں نسبتاً پرکشش ہوں لیکن یہ ہدف حاصل کرنا بھی آسان نہیں ہوگا کیونکہ اِس کے راستے میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں جیسا کہ بجلی کی کمی‘ ٹیکسوں کا پیچیدہ نظام‘ جائیداد اور اراضی کی رجسٹریشن میں سقم‘ معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے میں خامیاں‘ سرحد پار تجارت‘ قرضہ جات کا حصول اور چھوٹے سرمایہ کاروں کے مفادات کا عدم تحفظ۔ اِن سب سے متعلق ’پی ٹی آئی‘ کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

ساتوں نکتہ: قومی اداروں میں اصلاحات لائی جائیں گی لیکن کیا یہ اصلاحات خیبرپختونخوا میں پانچ سالہ حکومتی دور کے دوران لائی گئیں جہاں کم سے کم 16 صوبائی حکومتی اداروں کی کارکردگی کا ماضی و حال ایک جیسا ہے!

آٹھواں نکتہ: پاکستان کو درپیش توانائی بحران کو ختم کیا جائے گا۔ اگر اِس نکتے کو دس نکاتی ایجنڈے کا دوسرا سب سے خطرناک جز کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

نواں نکتہ: چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے سے جڑے فوائد کو عملاً ممکن بنایا جائے گا کہ اِس سے پاکستان خاطرخواہ فائدہ اٹھائے لیکن تحریک انصاف کو سمجھنا ہوگا کہ اگر کوئی چیز پاکستان کو تبدیل کرسکتی ہے تو وہ کسی دوسرے ملک کی سرمایہ کاری و دلچسپی نہیں ہوگی بلکہ یہ کام پاکستان کے اندر موجود وسائل کی ترقی ہی سے ممکن ہے۔

دسواں نکتہ: عوام اور کاروباری و صنعتی طبقات کے لئے مالی وسائل کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی۔ مجھے اُمید ہے کہ ’پی ٹی آئی‘ کے فیصلہ سازوں کو علم ہوگا کہ وہ اوسطاً ہر پاکستانی اپنی آمدنی کا 41.4فیصد کھانے پینے کی اشیاء پر خرچ کرتا ہے جبکہ امریکہ کے رہنے والے بمشکل 6.5فیصد اشیائے خوردونوش کی خریداری پر خرچ کرتے ہیں۔ اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ فی کس آمدنی میں اضافہ کیا جائے اور ایسا کرنے سے قومی بچت بڑھے گی۔

تحریک انصاف نے ’10نکاتی لائحہ عمل‘ دے کر اپنے حصے کی ایک ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ اِس سیاسی جماعت کے منشور میں سرفہرست بدعنوانی کا خاتمہ بھی ہے۔ اگر تحریک انصاف اُور کچھ بھی نہ کرے اور صرف پاکستان سے مالی بدعنوانی کو ختم کر دے تو اِس سے ہر پاکستانی کی جیب میں اوسطاً سالانہ 70 ہزار روپے آنے کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

No comments:

Post a Comment