Wednesday, May 23, 2018

May 2018: Guest in town - A biker with thoughts and love for Pakistan!

میری خواہش ہے کہ یادوں کے ساتھ اِس دنیا سے رخصت ہوں‘ خوابوں کے ساتھ نہیں!
موٹرسائیکل پر جنوب ایشیاء کی سیر کرنے والے برطانوی نوجوان کی پاکستان یاترا: ایبٹ آباد پہنچ گئے!
پاکستان کے لوگ مہمان نوازی اور یہاں کی شاہراہیں بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہیں!
شمالی علاقہ جات سے زیادہ خوبصورتی کہیں نہیں دیکھی‘ ویزا پالیسی اور ٹریفک نظام سمجھ سے بالاترہیں

شبیرحسین اِمام

موٹرسائیکل پر جنوب اِیشیاء کی سیر کرنے والے پینتس سالہ برطانوی شہری ’جون اُو برائن (John O' Brien)‘ پاکستان پہنچے ہیں اور لاہور کے بعد اُنہوں نے ایبٹ آباد میں مختصر قیام کے بعد شمالی علاقہ جات کی سیر مکمل کر لی ہے۔ دسمبر 2017ء میں برطانیہ سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے پینتیس سالہ ’جون اُو برائن‘ اَب تک تھائی لینڈ‘ ویتنام‘ لاؤ اُور کمبوڈیا دیکھ چکے ہیں اور اٹھارہ اپریل سے پاکستان وارد ہوئے جہاں سے ہزارہ ریجن و شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) کی خوبصورتی کو اپنی یادوں اور کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر رہے ہیں۔ اُن کے سفرمیں ممکنہ اگلے پراؤ چین اور منگولیا ہوں گے۔

موٹرسائیکل پر سیر کے شوقین ’جون اُو برائن‘ کی کہانی بڑی دلچسپ ہے‘ انہوں نے طب کے شعبے میں بیچلرز کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈیڑھ برس تک مختلف ملازمتیں کیں اور پھر سب کچھ چھوڑ کر کل جمع پونجی سے جنوب ایشیاء کی سیر کے لئے نکل پڑے۔ وہ جس ملک جاتے ہیں وہاں موٹرسائیکل خرید کر چند ماہ سفر اور قیام کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہوٹلوں کا کرایہ اور قیام و طعام کے معیار پر انہوں نے اطمینان کا اظہار تو کیا لیکن خدمات کے معاوضے پر سوال اٹھایا‘ جس پر حکومتی اداروں کا کنٹرول نہیں۔ وہ کسی ملک میں سفر کے بعد وہاں موٹرسائیکل فروخت کرکے بذریعہ ہوائی جہاز سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ موٹرسائیکل کی پشت پر سفر کرنے والے عمومی بائیکرز (bikers) کے مقابلے ’جان اُو برائن‘ مختلف سفری حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہیں‘ جس میں اُنہیں آرام کا موقع بھی مل جاتا ہے اور وہ انجان مقامات سے گزرنے اور قیام و طعام سے جڑے خطرات سے دوچار بھی نہیں ہوتے۔

’جان اُو برائن‘ کے لئے پاکستان کی ٹریفک بطور خاص ’ویتنام‘ سے کم لیکن ’’خطرناک ترین‘‘ زمرے ہی میں شمار ہوتی ہے۔ اُن کے خیال میں اگر پاکستان میں شاہراؤں (مواصلاتی ذرائع) کا نظام وسیع اور بہتر بنا دیا جائے تو بڑی حد تک ٹریفک کے نظام کی اصلاح ہو سکے گی۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے شمالی علاقہ جات کو ’’حسین ترین اور نایاب‘‘مقام قرار دیا اور کہا کہ ’’پاکستان کے سیاحتی مقامات کو دنیا میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔‘‘

برطانیہ کے شہر بورن ماؤتھ (Bournemouth) سے تعلق رکھنے والے موٹرسائیکلسٹ امریکہ میں پیدا ہوئے جہاں اُن کے والدین کچھ عرصہ مقیم رہے تھے اور اِسی وجہ سے انہیں امریکہ کی شہریت مل گئی لیکن وہ بعدازاں برطانیہ منتقل ہوئے اور اُن کی تعلیم و رہائش جنوبی برطانیہ کے ساحلی شہر بورن ماؤتھ میں ہے جو سات میل طویل ساحلی پٹی اور وکٹورین (شاہی) فن تعمیر کی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہے۔ سالانہ 70 لاکھ سے زائد سیاح برطانوی شہر ’بورن ماؤتھ‘ کی سیر کے لئے آتے ہیں جبکہ پاکستان آنے والے کل سیاحوں کی تعداد دس لاکھ سے کم ہے۔ ’جان اُو برائن‘ نے پاکستانی نوجوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ موسم گرما کی تعطیلات میں شمالی علاقہ جات کی خوبصورتی کا قریب سے مشاہدہ کرنے موٹرسائیکل پر نکل کھڑے ہوں کیونکہ ’’اِنسان کی زندگی میں بہتر یہی ہے کہ وہ خوابوں کی بجائے اچھی یادیں جمع کرے۔‘‘ امریکہ اور برطانیہ کی دوہری شہریت رکھنے والے ’جون اُو برائن‘ کی آنکھوں میں ایک ایسی دنیا کا نقشہ اور پاؤں میں سفر ہیں جو ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہونی چاہئے! وہ خود کو ’’آزاد دنیا‘‘ کا ’’آزاد باشندہ‘‘ قرار دیتے ہیں‘ ایک ایسی دنیا جو سرحدوں میں تقسیم نہ ہو۔ 

سیاحت کے فروغ کے لئے ’ویزا پالیسی‘ میں نرمی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ’جون اُو برائن‘ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان میں وہ سب کچھ ہے‘ جو غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد کو یہاں کھینچ کر لا سکتا ہے‘ لیکن اِن سیاحتی وسائل سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا رہا۔‘‘
۔۔۔








No comments:

Post a Comment