Wednesday, May 9, 2018

May 2018: Supreme Court of Bahria Town, effort to reform the real estate business!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
عوامی مفاد: متضاد کردار!
پاکستان میں جائیداد کی خریدوفروخت کے سلسلے کو نئے اِمکانات سے روشناس کرانے والے ایک اِدارے نے ’بحریہ ٹاؤن‘ کے نام سے ’اُنیس سو چھیانوے‘ میں رہائشی و تجارتی منصوبے کا آغاز کیا جو پھلتے پھولتے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے ایشیاء میں جائیداد کی خریدوفروخت کا سب سے بڑا نجی اِدارہ اُور فقیدالمثال بن گیا۔ کون نہیں جانتا کہ ’اُنیس سو نوے‘ میں چھوٹے پیمانے پر جائیداد کی خریدوفروخت کرنے والے ’ملک ریاض حسین‘ نے کس طرح ملکی اداروں‘ قوانین اور قواعد کو ذاتی مفاد کے لئے پائمال کرتے ہوئے اپنے اثاثہ جات میں اضافہ کیا۔ جس طرح ہر خوش بختی کے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے بالکل اِسی طرح پاکستان میں ہر کامیاب کاروبار کے درپردہ لازمی کوئی نہ کوئی قانون شکنی ہوتی ہے اُور ’بحریہ ٹاؤن‘ کے معاملے میں یہ قانون شکنی ہر حد کو عبور کر گئی!

بحریہ ٹاؤن منصوبے کے لئے اراضی کے حصول میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کے بارے میں جب پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے معاملہ زیرغور آیا تو اُن تمام اطلاعات کی تصدیق ہو گئی جن میں کہا گیا تھا کہ بلاتفریق و امتیاز سیاسی فیصلہ سازوں نے اِس نجی ادارے کو فائدہ پہنچایا جس پر ملک کی سب سے بڑی عدالت کا ردعمل منطقی ہے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ’بحریہ ٹاؤن‘ سے متعلق تین الگ الگ فیصلے سنائے۔ اکثیریتی فیصلے کے مطابق ریئل اسٹیٹ ڈیولپرز میں بڑا نام رکھنے والے ’بحریہ ٹاؤن‘ نے غیرقانونی طور پر اراضی حاصل کی جو کالعدم قرار دے دی گئیں اُور بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس پر عدالتی فیصلے کے مطابق ’پلاٹ‘ عمارت‘ اپارٹمنٹ وغیرہ‘ کی خرید و فروخت پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ریئل اسٹیٹ کی یہ زبردست اسکیم ’’تیس ہزار ایکڑ‘‘ تک پھیلی ہے۔ دوسرے فیصلے میں عدالت نے بحریہ ٹاؤن اور محکمۂ جنگلات کے درمیان ہونے والے معاہدے کو غیر قانونی ٹھہرایا‘ جس کے نتیجے میں اسلام آباد کی تقریباً دو ہزار کنال جنگل کی زمین پر قبضہ کیا گیا۔ اسی طرح‘ عدالت عالیہ کے فیصلے کے مطابق ’’نیو مری دویلپمنٹ اسکیم‘‘ کے لئے حاصل کی گئی اراضی بھی قانون کے منافی ہے۔ اِس فیصلے میں اُن تمام سرکاری محکموں کی سرزنش کی گئی ہے جنہوں نے خاموشی کے ساتھ بحریہ کو بڑے بڑے فوائد دیکھ کر سرکاری زمین کو تھوک کے حساب سے ناجائز طور پر فراہم کرنے میں سہولیات فراہم کیں۔ بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں‘ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کردار کی مذمت شامل ہے جس نے ’’ریاست اور عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی‘‘ جبکہ سندھ حکومت کو اِن بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کا ’مددگار‘ قرار دیا گیا۔ منافع بخش بحریہ کو کم قیمت والی ہاؤسنگ اسکیم کی قیمت کے برابر کم ترین داموں میں سرکاری زمین فروخت کی گئی‘ جس میں شامل افراد کی رشوت خوری کا اندازہ کرنا مشکل نہیں!

خیبرپختونخوا کو ’بحریہ ٹاؤن‘ کیس عدالتی فیصلے پر نظر رکھنی چاہئے کیونکہ بحریہ سے ملتی جلتی کئی رہائشی اسکیمیں اُنہی کاروباری اصولوں پر یہاں بھی پھل پھول رہی ہیں! بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں جن اہم نکات پر بات کی گئی‘ ان میں سے چند تشویش کا باعث ہیں۔ اربوں روپے کے مذکورہ تعمیراتی منصوبے نے دیہی علاقوں میں نسلوں سے آباد لوگوں سے اُن کا حق چھینا۔ اس ظلم میں شریک اسٹیبلشمنٹ‘ سیاسی اَشرافیہ اُور سرکاری اَفسران میں شامل بااثر افراد نے پہلے سے دیوار سے لگے حقیقی رہائیشیوں کو اُن کی جگہوں سے جبری طور پر ہٹانے کے لئے ریاستی جابرانہ اختیارات استعمال کئے تاہم مقامی لوگوں کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی میں شامل افراد کے خلاف کاروائی کے لئے قومی احتساب بیور (نیب) کو حکم تو دیا گیا ہے مگر اس کے ساتھ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی میں پیدا ہونے والے تھرڈ پارٹی انٹرسٹ کو تسلیم کرتے ہوئے‘ کوئی ایسا راستہ نکالا جائے جس سے سرمایہ کاری کرنے والوں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکے۔ عدالت بھی کیا سادا ہے اگر نیب کا اِدارہ ’’زندہ (فعال)‘‘ ہوتا تو کیا بحریہ ٹاؤن کی اس قدر بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ممکن ہوتیں؟

آخر ہم نے بحریہ ٹاؤن کو کیوں واحد ادارہ سمجھ لیا ہے؟

عدالت نے ’نیب‘ کو تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے جن سرمایہ کاروں کے حقوق کو محفوظ بنانے کا حکم دیا ہے تو اِس سے عدالتی کاروائی بے معنی ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ اس طرح سے غیر قانونی طریقوں پر محیط بحریہ ٹاؤن کراچی کے منصوبے کو قانونی تحفظ اور جواز مل جائے گا۔ یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ جن مقامی افراد کو اُن کی اراضی سے بیدخل کیا گیا‘ جن کا زمین پر پہلا حق ہے تو اُنہیں اِس پورے معاملے سے کیا ملے گا؟

کیا پاکستانی ’نیب‘ کے ماضی (خراب ٹریک ریکارڈ) سے واقف نہیں مگر اس کے باوجود ایک بار پھر اس معاملے پر تحقیقات کا کام اُسی ادارے کو سونپا گیا ہے جو ریاست اور عوام کی بجائے بااثر افراد کے مفادات کا محافظ رہا ہے!

بحریہ ٹاؤن کراچی کا معاملہ صرف کراچی کی حد تک ہی محدود نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ’’ٹیسٹ کیس (کسوٹی)‘‘ ہے اُور پاکستان میں جائیداد کی خریدوفروخت کے کاروبار میں اربوں کی سرمایہ کاری کرکے کھربوں کمانے والوں کے ’’کاروباری طریقۂ واردات‘‘ پر ہاتھ ڈالا جائے۔ بحریہ ٹاؤن میں ریٹائرڈ فوجی اُور پولیس کے اعلیٰ عہدوں پر فائز اَفسروں کو لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ اُور پُرکشش دیگر مراعات کے عوض ملازم کیوں رکھا گیا؟ بحریہ ٹاؤن کے پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ نواز اُور تحریک اِنصاف کے سربراہ سمیت ملک کی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ذرائع ابلاغ کے لئے کام کرنے والوں سے قریبی تعلقات ہیں‘ جنہیں مالی مراعات کے علاؤہ پلاٹ اور گھر بھی دیئے گئے۔ حتی کہ پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس کے بیٹے کو بیرون ملک قیام و طعام اور خریداری کا معاملہ بھی سامنے آیا‘ جس کے اخراجات بحریہ ٹاؤن نے برداشت کئے تھے! بحریہ ٹاؤن کے معاملے پر میڈیا کا کردار اَفسوسناک ہے‘ جنہوں نے اپنا فرض نبھانے اُور عوامی مفاد کا محافظ بننے کی بجائے ’’بزنس ٹائیکون‘‘ سے مراسم بڑھائے اُور ذاتی فائدے اُٹھانے کو ترجیح دی! لیکن ’’عوامی اعتماد کو ٹھیس‘‘ صرف میڈیا ہی نے نہیں بلکہ سیاستدانوں اُور سرکاری اِداروں کے اعلیٰ انتظامی اِہلکاروں نے بھی پہنچائی ہے!

چونسٹھ سالہ ملک ریاض خالی ہاتھ ہیں‘ اُن کی دولت اور عزت داؤ پر لگی ہے۔ کاش وہ خود ہی سے پوچھیں کہ جس وسیع و عریض بدعنوانی کے ذریعے پیپلزپارٹی‘ نواز لیگ اُور تحریک اِنصاف کے سربراہوں کو وہ خوش کرتے رہے‘ جس طرح قومی اِداروں اُور ذرائع ابلاغ کی قیمت لگائی تو ذاتی طور پر اُنہیں کیا حاصل ہوا کیونکہ ذلت و رسوائی میں تو اُن کا کوئی بھی شراکت دار نہیں!؟

عدالت نے جہاں ملک ریاض کے ’بحریہ دسترخوان‘ کی تعریف کی ہے وہیں یہ بھی کہا ہے کہ ’’عوام کو لوٹنے اُور دو متضاد کردار رکھنے والے شخص کو معاف نہیں کیا جاسکتا!‘‘
۔

No comments:

Post a Comment