Sunday, May 13, 2018

TRANSLATION: "Fundamental rights" by Dr. Farrukh Saleem

Fundamental rights
بنیادی حقوق
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو ’زندہ رہنے کا حق‘ دے لیکن اِس آئینی ذمہ داری سے عہدہ برآء ہونے کی بجائے سیاسی و غیرسیاسی (منتخب و غیرمنتخب) حکومتوں نے دیگر ایسے اَمور کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنایا جو کم اہم تھیں جیسا کہ ملک کے مختلف شہروں میں ’میٹرو بس‘ کے منصوبے جاری یا مکمل ہیں لیکن وہاں کے سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی خاطرخواہ سہولیات میسر نہیں!

آئین پاکستان یہ کہتا ہے کہ ’’ہر پاکستانی کو زندہ رہنے کا حق ہے لہٰذا کسی بھی شخص بشمول حکومت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کی زندگی ختم کرنے کی کوشش کرے۔‘‘ آئین کی اِس شق سے بھی یہ نتیجہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ حکومت کی ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ پاکستانیوں کی زندگی کو تحفظ دینے کے لئے خاطرخواہ اقدامات و انتظامات کرے۔

سوال: پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کتنی ہے جو آلودہ پانی پینے کی وجہ سے ہر سال اسہال یعنی ڈائریا (دستوں کی بیماری) کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں؟ جواب: اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں ہر سال 53 ہزار بچے ’ڈائریا‘ کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ تصور کیجئے کہ پاکستان میں سالانہ 53 ہزار ایسے والدین ہیں جو اپنے بچوں سے محروم ہو رہے ہیں کیونکہ اُنہیں پینے کے صاف پانی جیسی نعمت متروکہ میسر نہیں! اِس قدر بڑی تعداد میں بچوں کی ہلاکت لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ پاکستان میں دہشت گرد حملوں سے ’سال 2017ء‘ کے دوران 1 ہزار 260 افراد ہلاک ہوئے لیکن پینے کا صاف پانی نہ ملنے سے 53 ہزار بچے دیکھتے ہی دیکھتے موت کے منہ میں چلے گئے اُور یہ موت کا یہ تماشا جاری ہے!
عالمی بینک (ورلڈ بینک) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں آلودہ پانی کی وجہ سے ملک کی مجموعی خام آمدنی کا 4 فیصد یعنی سالانہ 12 ارب ڈالر خرچ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں آلودہ پانی پینے سے صرف بچے ہی متاثر نہیں ہو رہے بلکہ ہر عمر کے لوگ ٹائیفائیڈ‘ کلوریا‘ ہیپاٹائٹس (یرقان) اور قے و دست کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی سالانہ ہلاکتوں میں آلودہ پانی سے ہونے والی ہلاکتوں کا شمار 30 سے 40 فیصد ایک غیرمعمولی اور مختلف بیماریوں سے ہونے والی ’انتہائی بلند شرح اموات‘ ہے!
پاکستان حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی صحت و تندرستی کی ضمانت فراہم کرے۔ اُنہیں پینے کا صاف پانی مہیا کرے لیکن اگر حکومت ایسا نہیں کر رہی تو آخر یہ کام کون کرے گا؟ سوال: اقوام متحدہ (تنظیم) کے رکن ممالک کی تعداد 153 ہے جن وہ ملک کونسا ہے جہاں سب سے زیادہ نومولود بچے پیدائش کے چند ہفتوں بعد ہی مر جاتے ہیں؟ جواب: اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں ہر 22 میں سے ایک بچہ پیدائش کے چند ہفتوں بعد مر رہا ہے۔ اِس شرح کا موازنہ اگر جاپان سے کیا جائے تو وہاں ہر 1 ہزار 111 بچوں میں سے ایک نومولود بچے کی ہلاکت کا امکان ہوتا ہے۔ اگر حکومت پاکستان عوام کی جان اور صحت و تندرستی کی ضامن نہیں بنے گی تو پھر یہ آئینی ذمہ داری کون ادا کرے گا؟

صحت کی طرح تعلیم بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی جمہوریہ آئین کے آرٹیکل 25-A کے مطابق یہ ذمہ داری ریاست کی ہے کہ وہ پانچ سے سولہ سال کے ہر بچے کے لئے مفت اور لازماً تعلیم فراہم کرے لیکن برسرزمین (تلخ) حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کل 2 کروڑ 30 لاکھ بچوں میں سے 1 کروڑ 80 لاکھ تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں! ایک کروڑ اَسی لاکھ بچوں کی یہ تعداد دس سے سولہ سال کے درمیان ہے۔ اگر حکومت پاکستان عوام کی جان‘ صحت و تندرستی اور درس و تدریسکی ضامن نہیں بنے گی تو پھر یہ آئینی ذمہ داری کون ادا کرے گا؟

سوال: پاکستان میں زچگی کے دوران ہلاک ہونے والی خواتین کی تعداد کتنی ہے؟ جواب: عالمی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر سالانہ ہر ایک لاکھ خواتین میں سے 276 خواتین ہلاک ہو رہی ہیں اور بچے کی پیدائش کے عمل میں ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے اموات پسماندہ صوبے‘ اضلاع اور علاقوں میں زیادہ ہو رہی ہیں۔ کیوبا کی مثال لیں جہاں زچگی کے عمل سے گزرنے والی ہر ایک لاکھ خواتین میں سے 39 کی اموات ہوتی ہیں اور کیوبا حکومت نے ہر ایک ہزار باشندوں کے لئے 5.9 ڈاکٹر فراہم کئے ہیں جبکہ پاکستان میں ہر ایک ہزار افراد کے لئے 0.7 ڈاکٹرز دستیاب ہیں۔ حکومت پاکستان کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی جان‘ صحت و تندرستی اور تعلیم کی ضامن بنے لیکن اگر حکومت ہی اپنی اِس آئینی ذمہ داری کو اَدا نہیں کرے گی تو پھر یہ کون کرے گا؟ یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ پینے کا صاف پانی اُور صحت و تعلیم کی بنیادی سہولیات کے مقابلے ’میٹرو بسیں‘ فراہم کرنے سے کن آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی پوری ہوئی ہے اور کون کون سے ضروری کام باقی رہ گئے ہیں؟ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

No comments:

Post a Comment