ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
بریک ڈاؤن!
پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے ’مئی دوہزارتیرہ‘ کے عام اِنتخابات کے موقع پر بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا‘ لیکن عرصہ 5 سال (قریب) مکمل ہونے کے باوجود بھی طلب اُور رسد کے درمیان فرق بدستور (جوں کا توں) موجود ہے۔ علاؤہ ازیں بجلی کا پیداواری اُور ترسیلی نظام بھی قابل بھروسہ نہیں‘ جس پر دھند‘ بارش‘ گرمی یا شدید سردی جیسے بیرونی دباؤ ایک عرصے سے مسلسل اثرانداز ہو رہے ہیں۔ نواز لیگ سے تعلق رکھنے والے شاہد خاقان عباسی اور نواز لیگ ہی کے موجودہ تاحیات قائد نواز شریف نے اپنی اپنی وزارت عظمیٰ کے اَدوار میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کیا‘ لیکن اِس کے باوجود نہ صرف لوڈشیڈنگ برقرار رہی بلکہ آئے روز ’بریک ڈاؤنز‘ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران ایسے 3 بڑے ’بریک ڈاؤن‘ ہوئے ہیں‘ جن کی وجہ سے پاکستان کے دو یا دو سے زائد صوبوں میں گھریلو اُور صنعتی صارفین حتی کہ ہسپتال بھی بیک وقت متاثر ہوئے۔
چار نومبر دوہزار سترہ: حکومت کی جانب سے ’فرنس آئل‘ سے چلنے والے پیداواری پلانٹس کی بندش کے فیصلے کے بعد پنجاب اُور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ’بجلی کا طویل‘ غیرمعمولی اور خوفناک بریک ڈاؤن‘ ہوا۔ متاثرہ پاور پلانٹس میں حبکو پاور پلانٹ (950میگاواٹ)‘ مظفر گڑھ پاور پلانٹ(1000میگاواٹ)‘ جامشورو پاور پلانٹ (400میگاواٹ) اور کیپکو کا پاور پلانٹ (700میگاواٹ) شامل تھے۔ علاؤہ ازیں چھوٹے پاور پلانٹس نشاط پاور‘ نشاط چھنیاں پاور‘ لبرٹی‘ حبکو‘ ناروال‘ اٹلس اور کیل پاور پلانٹس جو مجموعی طور پر بارہ سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ اُن سے بھی بجلی حاصل ہونا بند ہوئی۔
یکم مئی دوہزار اٹھارہ: ’نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی‘ کی ٹرانسمیشن لائن ٹرپ کرنے سے ’چھ ہزار میگاواٹ‘ کی کمی سے ’بحران‘ پیدا ہوا‘ جس کی بنیادی وجہ صوبہ پنجاب میں حویلی بہادر شاہ‘ بلوکی اور بھکی میں موجود ’تین ہزار چھ سو میگاواٹ‘ کے تین ’ایل این جی‘ پاور پلانٹس تھے‘ جنہوں نے اچانک کام کرنا چھوڑ دیا۔ جس کے بعد لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ فیڈرز پر بھی چھ سے آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی گئی۔ بعداز تحقیق پتہ چلا کہ موسم کی تبدیلی اور درجۂ حرارت (گرمی) میں اِضافے کے باعث بجلی کی طلب اچانک بڑھ گئی تھی‘ جس کی وجہ سے بریک ڈاؤن ہوا۔
سولہ مئی دوہزار اٹھارہ:تربیلا‘ منگلا اُور دیگر پاور پلانٹس میں ’’فنی خرابی‘‘کے باعث ایک مرتبہ پھر ’بریک ڈاؤن‘ ہوا‘ جس سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور آزاد کشمیر کے متعدد علاقوں میں بجلی کی فراہمی اچانک منقطع ہوگئی۔ ماہ رمضان المبارک (1439ہجری) کے آغاز سے ایک روز قبل ہوئے اِس ’بریک ڈاؤن‘ نے عوام کو تشویش میں مبتلا کر دیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ رواں برس ماہ رمضان کے دوران بالخصوص خیبرپختونخوا کے صارفین تاریخ کی بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا کریں گے!
پاکستان میں ہنگامی حالات (ایمرجنسی) سے نمٹنے کی کوئی ایسی جامع حکمت عملی موجود نہیں‘ جس کے ذریعے عوام کو فوری طور پر اصل حقائق سے آگاہ کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر اگر بجلی کا ’بریک ڈاؤن‘ ہوتا ہے تو ایسی صورتحال میں ’ایف ایم ریڈیو‘ عوام کو اصل صورتحال سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ قومی یا صوبائی ’ڈیزاسٹر مینجمنٹ‘ کے ادارے موبائل فون کے مختصر پیغامات (ایس ایم ایس) جاری کر کے عوام کی تشویش میں کمی لا سکتے ہیں۔ ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے)‘ کے ذریعے فوری طور پر ہر موبائل نمبر پر پیغام ارسال کر کے بھی تشویش میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اگر عوام کو معلومات فراہم کرکے اور اعتماد میں لیکر درپیش بحرانوں کا حل تلاش کیا جائے تو یہ زیادہ پائیدار اور مفید عمل ثابت ہوگا۔ بجلی کی پیداوار اور فراہمی وفاقی حکومت نے اپنے ذمے لے رکھی ہے تو کسی بھی وجہ سے ہونے والے بریک ڈاؤن سے پیدا ہونے والی ’ہنگامی صورتحال کی وضاحت‘ بھی وفاق ہی کو کرنی ہے۔ شرپسند عناصر اور بناء تحقیق افواہوں کو آگے پھیلانے (شیئر کرنے والے) ایسے مواقعوں کا فائدہ اٹھا کر انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تو حکومت کی جانب سے برق رفتار ’ذرائع ابلاغ‘ کے جملہ وسائل سے بھرپور اِستفادہ ہونا چاہئے۔
بجلی کی کمی سے پاکستان میں معمولات زندگی اُور بالخصوص کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ اِس سلسلے میں صرف ایک مثال سے پوری صورتحال کو سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح بجلی بحران اُن صنعتوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے جو روزگار کی فراہمی اُور پاکستانی برآمدات میں ریڑھ کی ہڈی جیسی کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ ’’آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن‘‘ کے رہنماؤں نے ہنگامی پریس کانفرنس میں ماہ رمضان المبارک کے دوران صنعتوں کے لئے جاری کئے گئے بجلی اُور گیس کی فراہمی کے اُوقات کار (شیڈول) بارے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ ۔۔۔ ’’اگر صنعتوں کے لئے روزانہ دس گھنٹے بجلی بند ہوئی اور ہفتے میں صرف دو روز گیس فراہم کی گئی تو اِس سے ’’10لاکھ افراد‘‘ بے روزگار ہو جائیں گے۔‘‘
کون نہیں جانتا کہ ’وافر مقدار‘ میں بجلی و گیس کی فراہمی صنعتوں کی فعالیت (باالفاظ دیگر بے روزگاری میں کمی) کے لئے ضروری ہے لیکن پاکستان نہ تو بجلی و گیس کی اپنی پیداوار میں خاطرخواہ اضافہ کر سکا ہے اور نہ ہی ہمسایہ ملک جمہوری اسلامی ایران سے بجلی اور گیس حاصل کی گئی‘ جبکہ حالات موافق تھے اور ایران پر عالمی اقتصادی پابندیاں قدرے نرم (لچکدار) تھیں! فیصلہ سازوں کے ’تجاہل عارفانہ‘ کی بدولت بجلی میں کمی اُور توانائی کا بحران شدت اِختیار کر کے اُس انتہاء کو پہنچ چکا ہے کہ جہاں اب حکومتوں کا بننا اُور مٹنا (عام انتخابات کے نتائج) اِس سے جڑ گئے ہیں۔ ’سال دوہزارتیرہ‘ کا عام انتخاب ’’لوڈشیڈنگ خاتمے‘‘ کے نعرے پر لڑا گیا اور بجلی کی طلب اور رسد میں فرق صفر پر لانے‘ پیداواری لاگت میں کمی (سستی بجلی)‘ ترسیل اُور تقسیم کے عمل میں ہونے والے نقصانات‘ بجلی چوری کم کرنے جیسے بلند بانگ دعوے کئے گئے۔ اقتدار میں آنے کے بعد نواز لیگ کی قیادت نے متعدد مواقعوں پر ملک میں وافر بجلی موجود ہونے کی نوید بھی سنائی لیکن ایک طرف طلب سے زائد (سرپلس) بجلی کی پیداوار کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو دوسری طرف رمضان المبارک میں صنعتوں کے لئے بجلی اور گیس کی فراہمی کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے‘ جو کہ حکومتی دعوؤں کی سراسر نفی اور قول و فعل کا ’’کھلا تضاد‘‘ ہے۔
رستہ مرا تضاد کی تصویر ہو گیا
دریا بھی بہہ رہا تھا‘ جہاں پر تضاد تھا (یاسمین حمید)۔
۔۔۔
No comments:
Post a Comment