Saturday, June 23, 2018

Jun2018: Jaag Peshori Jaag

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سماج بمقابلہ اِنتخاب!
سیاست کا اعجاز یہ ہے کہ اِس میں ظاہری بیان‘ مدعا اور مافی الضمیر بالکل مختلف اور الگ الگ (متضاد) بھی ہو سکتے ہیں۔ متوقع عام اِنتخابات (پچیس جولائی) کے لئے جہاں ’تجربہ کار‘ اُور ’مجرب‘ سیاسی جماعتیں مدمقابل ہیں‘ وہیں ناراض سیاسی کارکن ’آزاد حیثیت‘ سے شکار کرنے نکل پڑے ہیں‘ تاہم آئندہ انتخابات کے لئے نہایت ہی کم تعداد میں ایسے نئے چہرے (تصورات) بھی متعارف ہوئے ہیں‘ جنہیں پذیرائی کی صورت ملنے والی ’سماجی کامیابیاں‘ انتخابی کامیابیوں‘ سے کئی گنا زیادہ بڑھ کر ہیں اور اِس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ ایک تو ’نئی سیاسی جماعتوں‘ اور بناء سہارے و انتخابی تجربے ووٹروں کی توجہ حاصل کرنا معمولی بات نہیں اور دوسرا‘ روائتی سیاسی جماعتوں کے مقابلے ’’مقامی مسائل کا مقامی حل تجویز‘‘ کرنے والوں کی دعوت و تبلیغ پر ’سوچ بچار اُور گفت و شنید‘ کا جاری عمل کیا رائیگاں جائے گا؟ ’حرکت میں برکت‘ کے سیدھے سادے اصول کی عملی تشریح کرنے والی جماعت ’ہندکووان پاکستان تحریک‘ نے ’جاگ پشاور جاگ‘ کی بجائے ’جاگ پشاوری جاگ‘ کے عنوان (نعرے) سے انتخابی جدوجہد کا آغاز کیا ہے‘ جو سنجیدہ غوروخوض کا متقاضی ہے لیکن بدقسمتی سے اِس تحریک کے اِردگرد اُور فیصلہ سازوں میں وہی ’نامی گرامی‘ کردار نظر آتے ہیں جو ماضی میں پشاور کو لوٹنے والوں کی تعریفوں کے عوض اپنی نوکریاں پکی کرنے اُور مراعات حاصل کرتے رہے اور آج بھی علمی ادبی اور نشری و نشریاتی اداروں (حلقوں) اور سرکاری محافل کی رونقوں میں اضافے کے لئے مدعو کئے جاتے ہیں‘ ملکی و غیرملکی سرکاری دوروں میں شامل ہو اہمیت پاتے ہیں اور اعزازات سے نوازے جاتے ہیں۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ’جاگ پشاوری جاگ‘ انجمن ستائش باہمی جیسی تنظیم سازی سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کر پائے گی کیونکہ تحریک میں ’زندگی کی رمق‘ تو موجود ہے لیکن وہ ’سپارک (spark)‘ نہیں جس سے انجن چل پڑے اور گاڑی رواں دواں ہو۔ کچھ عرصہ بعد سننے کو ملے گا کہ تحریک کے خالق اور روح رواں کا سرمایہ چند خوشامدیوں کی جیبوں میں منتقل ہو چکا ہے اور اُن سے حاصل ہونے والا ’بیش قیمت تجربہ‘ ایک ایسا حافظہ ہے‘ جس کے چھن جانے کے لئے خدا سے دعا کی جاتی ہے!

’جاگ پشوری جاگ‘ کو متعصبانہ قرار دینے والے اگر آنکھوں پر لگی ہوئی تعصب کی عینک اُتار کر زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو اُن پر (روز روشن کی طرح) عیاں ہو جائے گا کہ ۔۔۔ کس طرح پشاور پر کیا گزر رہی ہے۔ پشاور اُور بالخصوص پشاور کی ایک قدیمی زبان ’ہندکو‘ بولنے والے مقامی باشندے (ہندکووان) خود کو کس قدر ’راندۂ درگاہ‘ محسوس کر رہے ہیں۔ کس طرح پشاور میں تعمیروترقی کا عمل اِس شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کی ضروریات کے لئے کافی نہیں رہا۔ کس طرح سرکاری ملازمتوں میں ہندکووانوں کے حقوق غصب ہوئے ہیں اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ سیاسی ترجیحات کی وجہ سے ضلع پشاور سے تعلق رکھنے والوں پر دیگر اضلاع کو فوقیت کیوں حاصل ہے؟ 

کیا وجہ ہے کہ سب سے زیادہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہونے کے باوجود بھی پشاور کو قانون ساز صوبائی اسمبلی کی قیادت (وزارت اعلیٰ) نہیں ملتی؟ 

عام انتخابات تو ایک بہانہ ہے درپردہ ’ہندکووان تحریک‘ کا (خالص و بنیادی) مقصد یہ ہے کہ پشاور اور بالخصوص سہل پسند‘ اپنے حال میں مست لیکن گردوپیش میں ہونے والی ’سیاسی سازشوں‘ سے بے خبر پشاوریوں (جنہیں عرف عام میں پشتو زبان کے لفظ (اصطلاح) ’خاریان‘ معنی ’شہری لوگ‘ کہا جاتا ہے) اُنہیں جھنجوڑ جھنجوڑ کر بیدار کیا جائے اور اُس تعصب کی موجودگی کا اِحساس دلایا جائے جس سے وہ مسلسل انکار کرتے کرتے اِس انتہاء کو پہنچ چکے ہیں کہ آج اُن کی نمائندگی‘ شناخت‘ ورثہ‘ ثقافت‘ تاریخ‘ ماضی و اثاثے حتی کہ سنجیدہ ’ہندکو زبان‘ تک کا وجود خطرے میں ہے بالخصوص جب ہندکو زبان کو ہنسی مذاق اور طنز و مزاح کے لئے مختص کیا جا رہا ہو۔ آج ہندکو زبان کا کوئی نجی ٹیلی ویژن چینل‘ ریڈیو اسٹیشن اور روزنامہ نہیں تو کیا یہ محض اتفاق ہے؟ 

کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن ’ہندکووان‘ کہیں ثقافتی‘ تو کہیں سماجی اُور سیاسی (انتخابی) طور پر متحد ہو رہے ہیں کیونکہ یہ اپنے تہذیبی ورثے اُور زبان و تاریخی اثاثے کی خاطرخواہ حفاظت نہیں کر پائے ہیں۔ ہندکووانوں نے ہمیشہ فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور اِسی ایک خوبی کو اُن کی سب سے بڑی کمزوری سمجھا گیا۔

حالات کی نزاکت کا تقاضا (احساس) اُور اِس بات کا اندیشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ ۔۔۔ اگر اپنے حقوق اُور شناخت کے لئے ’ہندکووان‘ جلد متحد نہ ہوئے تو اِن کی بقاء کو لاحق خطرات (کی تعداد اُور شدت) میں اِضافہ ہوتا چلے گا لیکن کسی علاج کی کامیابی (تاثیر) کا پہلا اَصول یہ ہوتا ہے کہ ’بیماری کی وجہ بننے والے سبب سے پرہیز کیا جائے یعنی خود کو دھوکہ دینے کی بجائے اُن تمام داخلی و خارجی اثرات کی شناخت کر لی جائے جن کی موجودگی میں علاج کی کوئی بھی صورت کارگر ثابت نہیں ہوگی بلکہ عارضہ بڑھتا چلا جائے گا۔ جملہ معلوم (سیاسی) کردار جنہوں نے پشاور کی تعمیروترقی کے نام پر اپنے اَثاثوں میں اِضافہ کیا‘ جنہوں نے پشاور کے نام پر پشاوریوں کو دھوکہ دیا‘ اُن سے اِظہار و اعلان بیزاری کے لئے ایک ’نعرۂ مستانہ‘ وقت کی ضرورت ہے۔ 
’’ملتے جلتے‘ ہرے بھرے چہرے: تازہ تازہ دُھلے ہوئے چہرے
دھوکہ کھانے سے یاد آیا ہے: پھر الیکشن‘ نکل پڑے چہرے!؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments:

Post a Comment