Friday, June 22, 2018

Jun2018: Electioneering NA21 Mardan - PTI vs ANP with much to show as performance!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اِنتخابی منظرنامہ: NA-21
خیبرپختونخوا کی سیاست میں ’عام انتخابات‘ کو ہمیشہ ہی سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے جس کا انتظار کرنے والے دیگر صوبوں کے مقابلے مثالی (روائتی) صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا ملک کا ایسا واحد صوبہ ہے جس کے ہاں ’نئے سیاسی نظریات‘ کو نہ صرف غور سے سنا جاتا ہے بلکہ کارکردگی دکھانے کا موقع بھی دیا جاتا ہے‘ جیسا کہ ’مئی 2013ء‘ کے عام انتخابات میں دیکھنے کو ملا جب سیاسی تجربہ کاروں کے مقابلے ’تحریک اِنصاف‘ کے مقامی اُور اکثر غیرمقامی اُمیدواروں کو اس قدر بھاری اکثریت سے انتخابی کامیابی کہ وہ خود بھی حیران و پریشان تھے کہ آخر اُن کے ساتھ ہوا کیا ہے! لیکن پھر حیرانی و پریشانی میں ’تبدیلی تبدیلی کرتے‘ پانچ سال کا عرصہ (آئینی مدت) گزر گئی۔ وہی عام انتخابات اُور وہی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے راگ کہ جن میں اُن کی اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی کارکردگی کو بطور نمونہ پیش کر کے ’ووٹروں کی توجہ (ہمدردیاں)‘ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا ماضی کی طرح خیبرپختونخوا کی سیاست کا یہ ڈھنگ برقرار رہے گا کہ یہاں ذات برادری‘ قوم پرستی اور تھانہ کچہری جیسی ترجیحات کی بجائے ’عملی کارکردگی‘ نہ دکھانے والے حکمرانوں کو ووٹ نہیں دیئے جاتے؟

آئندہ (متوقع) عام انتخابات (پچیس جولائی) میں متوقع کانٹے دار مقابلوں میں ’مردان‘ کا حلقہ ’این اے 21‘ بطور خاص دلچسپ نتائج کا حامل ہوگا جہاں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ رہے امیر حیدر خان ہوتی (عوامی نیشنل پارٹی) اور سابق وزیرتعلیم محمد عاطف خان (پاکستان تحریک انصاف) ایک دوسرے مدمقابل ہیں۔ ماضی میں یہ انتخابی حلقہ ’این اے نائن‘ سے پہچانا جاتا تھا۔ دونوں اُمیدواروں کی انتخابی حکمت عملی میں ’قدر مشترک‘ یہ ہے کہ اِن دونوں ہی نے ایک ایک قومی اور ایک ایک صوبائی اسمبلی حلقوں کا انتخاب کیا ہے لیکن جہاں اِن کا مقابلہ قومی اسمبلی کی ایک ہی نشست پر ہے وہیں صوبائی اسمبلی کے لئے الگ الگ حلقوں سے مدمقابل ہیں۔ دونوں رہنماؤں کی سیاسی طاقت (حمایت) کے مراکز ایک دوسرے سے جڑے اور الگ الگ ہیں اور دونوں ہی کی کامیابی کا دارومدار (انحصار) صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں اُن کی حمایت پر ہے۔ 

امیر حیدر خان ہوتی نے متبادل کے طور پر صوبائی اسمبلی کا حلقہ ’پی کے 50 (مردان ٹو)‘ جبکہ عاطف خان نے صوبائی اسمبلی کے حلقہ ’پی کے 53 (مردان فائیو)‘ سے ’ساکھ آزمائی‘ کا فیصلہ کیا ہے۔ اِن دونوں حلقوں پر نواز لیگ کی جانب سے اُمیدواروں کے اعلان میں تاخیر کی وجہ سے ’نواز لیگ‘ انتخابات سے قبل ہی بنیادی مقابلہ سے آؤٹ دکھائی دے رہی ہے۔ عجب ہے کہ جب سبھی سیاسی جماعتیں عام انتخابات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنے اپنے اُمیدواروں کو اعلان کر بیٹھی ہیں تو ’نواز لیگ‘ کا کئی ایک حلقوں پر تاحال مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ خیبرپختونخوا کی 39 میں سے 25 اُور صوبائی اسمبلی کی 99 میں سے 53 نشستوں پر نواز لیگ کے نامزد اُمیدوار سامنے آ چکے ہیں لیکن صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اِس مرتبہ دوہزارتیرہ کے عام انتخابات کے چمپئین ’تحریک انصاف‘ کا سخت مقابلہ صرف اور صرف ’عوامی نیشنل پارٹی‘ سے ہوگا جس کی قیادت حزب اختلاف کی جماعتوں سے مسلسل رابطے میں ہے تاکہ اپوزیشن کا ووٹ تقسیم نہ ہو اور ساتھ ہی تحریک انصاف کے ایسے ناراض کارکنوں کی پشت پناہی (حوصلہ افزائی) بھی جاری ہے جو تحریک کے ووٹ بینک کو تقسیم کر سکتے ہیں! 

خیبرپختونخوا کا انتخابی منظرنامہ یہ ہے کہ (متوقع) عام انتخابات میں تحریک انصاف کو کم و بیش ہر حلقے میں کسی بھی دوسری جماعت سے زیادہ خود اپنی ہی جماعت کے انتخابی اُمیدواروں سے زیادہ نقصان پہنچے گا‘ جس کے واضح امکان کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

دیگر انتخابی حلقوں کی طرح ’این اے 21‘ پر انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ تحریک اِنصاف اُور عوامی نیشنل پارٹی کے ایک دوسرے پر ’تابڑ توڑ‘ حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ جس میں نہ صرف سیاسی و نظریاتی اختلاف رائے بیان کیا جاتا ہے بلکہ اُمیدوار ایک دوسرے کی ذات‘ خاندان‘ سیاسی ماضی‘ کردار اُور کمزوریوں کو کہیں مزاحیہ تو کہیں سنجیدہ پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ دوہزارتیرہ کے مقابلے ’عوامی نیشنل پارٹی‘ کے رہنما اِس مرتبہ انتخابی حلقوں میں آزادانہ گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں اُور اِس کے لئے اِنہیں ’تحریک انصاف‘ کا شکریہ اَدا کرنا چاہئے‘ جنہوں نے پانچ سال کے اقتدار میں کم سے کم ’امن و امان‘ کی صورتحال کو اِس درجے تو بہتر کر دیا ہے کہ اب رابطہ عوام مہمات کرنے والوں کو خوف نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ تحریک اِنصاف کے دور حکومت میں خیبرپختونخوا پولیس میں سب سے کم سیاسی مداخلت ہوئی تو غلط نہیں ہوگا لیکن اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال اُٹھے کہ وہ کونسا دور تھا‘ جب خیبرپختونخوا پولیس میں سب سے زیادہ مداخلت ہوتی تھی تو جواب ’عوامی نیشنل پارٹی‘ ہو گا‘ جس کے ساتھ شریک ’پیپلزپارٹی‘ نے اپنے سمیت اِس جاندار قوم پرست جماعت کا بھی خانہ خراب کیا لیکن چونکہ سرمایہ دار‘ جاگیردار اور بڑے زمیندار عوامی نیشنل پارٹی کی مرکزی قیادت کو اپنے ہاتھوں میں لے چکے ہیں‘ اِس لئے اُن کا ’’حسب حال جواب‘‘ قدرے مختلف اَنداز سے دینے والی تحریک انصاف نے بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی سب سے مہنگی انتخابی مہم جاری ہے‘ جس میں قیمتی گاڑیوں اور سرمائے کا استعمال ’الیکشن کے قواعد و ضوابط‘ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے لیکن تعجب کیوں‘ قانون تو اندھا ہوتا ہے!؟ 

عوامی نیشنل پارٹی کے لئے تحریک انصاف سے زیادہ اپنی حمایت والے علاقوں بشمول ضلع مردان میں انتخابی پوزیشن ناقابل تسخیر بنانا اِس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ آنے والے دنوں میں ’کالا باغ ڈیم کی تعمیر‘ جیسا معاملہ اُٹھے گا‘ جس پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے ساتھ سختی کا معاملہ کرنے کا فیصلہ بھی ہو سکتا ہے۔ ’اے این پی‘ کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی اپنے مؤقف پر لچک دکھاتے ہوئے دستبردار ہونا چاہتی ہے۔ اگر تھوڑے لکھے کو بہت سمجھا جائے تو ’’کالا باغ ڈیم منصوبے کو بنانے کی حمایت کرنے والی طاقتیں بھی آئندہ عام انتخابات پر اثرانداز ہونے کی ’’پوری تیاری‘‘ کئے بیٹھی ہیں‘ جن کی نظریں اور دلچسپی ’این اے 21‘ میں بالخصوص دیکھی جا سکتی ہیں۔ 

عوام کا حافظہ چونکہ کمزور ہوتا ہے‘ اِس لئے اُنہیں دوہزارتیرہ سے قبل ’عوامی نیشنل پارٹی‘ کی کارکردگی یاد نہیں۔ ضلع مردان میں ہوئے ترقیاتی کام کہیں ضرورت سے بہت زیادہ اور کہیں بہت ہی کم دکھائی دیتے ہیں‘ جس کی بنیادی وجہ ترقیاتی و سیاسی ترجیحات کا واضح نہ ہونا ہے۔ یہی غلطی تحریک انصاف سے بھی سرزد ہوئی‘ جب اُنہوں نے اِنتخابی حلقوں کی سیاست کو کمزور بنیادوں پر آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ ’این اے 21‘ پر دو انتخابی اُمیدوار نہیں بلکہ دو سیاسی جماعتیں مدمقابل ہیں اور دونوں ہی خالی ہاتھ ’میلہ لوٹنا چاہتی ہیں۔‘ 

No comments:

Post a Comment