ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ایک ووٹ کا سوال!
طرزِ حکمرانی کے ثمرات شمار کیجئے۔ دہشت گردی‘ انتہاء پسندی‘ لوڈشیڈنگ‘ توانائی بحران‘ امتیازی قوانین‘ لاقانونیت‘ منظم جرائم‘ خوف‘ استحصال‘ سفارش‘ تھانہ کچہری کلچر‘ رشوت‘ مالی و انتظامی بدعنوانیاں‘ منتخب نمائندوں کے لئے مراعات‘ حکمرانوں کے شاہانہ طور طریقے‘ وی وی آئی پی کلچر اور اِس پر ’عوام کی خدمت‘ کا وعدہ‘ جو ہمیشہ ہی سے جھوٹ ثابت ہوتا آ رہا ہے‘ لیکن جھوٹ بک بھی رہا ہے اور یہی جھوٹ کسی ’نایاب جنس‘ کی طرح ہاتھوں ہاتھ خریدا بھی جا رہا ہے ! پاکستان کی سیاست کا سب سے زیادہ قابل یقین پہلو یہی ہے کہ یہاں ناقابل اعتبار کردار قابل اعتبار ہونے کے باوجود راندۂ درگاہ نہیں۔ سیاسی جماعتوں میں چہرے بدل بدل کر حکمراں خاندانوں کے سپوت‘ گھسے پٹے اور بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ انتخابی نعرے لگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے جنہیں ہر چند برس بعد عوام کو بے وقوف بنانے میں (سیاسی و انتخابی) مہارت حاصل ہے۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ ۔۔۔ پاکستان کے طرزحکمرانی‘ عام انتخابات اُور سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا پول کھل چکا ہے لیکن ظلم کی انتہاء نہیں تو کیا ہے کہ قومی وسائل لوٹنے والوں کو اپنے احتساب کا خوف تک نہیں!
مفاد پرستوں کو ایک مرتبہ عوام کے ووٹ کی ضرورت پڑ گئی ہے! ’گدھے کے سر سے سینگ‘ کی طرح غائب رہنے والے اور معاشرے میں نفرتوں‘ طبقات اور محرومیوں کے بیچ بونے والے پھر سے نمودار ہوئے ہیں۔ جب حکومت میں تھے تو اپنے اور عوام کے درمیان سیکورٹی کے حصار رکھتے تھے۔ آگے پیچھے کتوں کی طرح بھونکنے والی گاڑیوں کی قطاریں رکھنے والے عوام سے گھل مل رہے ہیں۔ اب تو کسی کی جان کو خطرہ نہیں۔ یہ مرحلہ ووٹ دینے سے قبل خود سے چند سوالات پوچھنے کا ہے ’سیاسی مفاد پرستوں‘ کو آئینہ دکھانے سے پہلے عام آدمی (ہم عوام) کو اپنے قول و فعل کا جائزہ لینا چاہئے۔
وجۂ ناکامئ وفا کیا ہے
آپ سے آخری سوال ہے یہ (حباب ترمذی)۔
پہلا سوال: ماضی میں کسے ووٹ دیا اور جن وعدوں پر یقین کرکے ووٹ دیا گیا تھا‘ کیا وہ پورے ہوئے؟ اس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ یکسو ہو کر سوچا جائے کہ جو نمائندے گزشتہ عام انتخابات میں قانون ساز ایوانوں تک پہنچے لیکن اُنہوں نے انتخابی وعدوں کو ایفاء کرنے کی ضرورت محسوس کی یا نہیں۔ عوام کے کمزور حافظے کا فائدہ کون کون اٹھا رہا ہے اور عوام کو ذات برادری‘ نسلی لسانی‘ گروہی‘ مذہبی اور اصول و فروع دین کی بنیاد پر ووٹ دینے سے کیا ملا ہے؟ انتخابی اُمیدواروں کے ماضی کو فراموش کرنے والوں کے لئے ’25 جولائی (متوقع عام انتخابات)‘ایک نادر موقع ہے کہ غلطیوں کا ازالہ (تلافی) کی جائے۔ ووٹ کا حقدار وہی ہونا چاہئے جس کا دُکھ سکھ‘ خوشی‘ غم اُور رہن سہن‘ عوام کے ساتھ (عام آدمی سے مطابقت نہ سہی کم سے کم مشابہت تو ضرور) رکھتا ہو۔ جن منتخب نمائندوں نے اقتدار و اختیارات نہ ہونے کے باوجود اپنی ہمت اُور اِستطاعت کے مطابق مسائل کے حل کے لئے کوششیں کیں‘ اُنہیں داد (بصورت ووٹ) ملنا چاہئے لیکن اگر ’وعدہ خلافی‘ کرنے والوں کو ہی ووٹ دیا گیا تو پھر عوام کو مظلومیت اور حق تلفی کی صدائیں لگانے کا حق نہیں رہے گا۔ معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں رہنماؤں‘ وزیروں اُور مشیروں نے عوام کو ہر پانچ سال بعد ووٹ ڈالنے کے لئے ’’پال‘‘ رکھا ہے اور عوام بھی ایسے سادہ ہیں کہ ’’پرانے لالی پاپ‘‘ کو نئی پیکنگ میں لے کر ووٹ ڈال دیتے ہیں جبکہ نئی سنہری پیکنگ میں لپٹا ’’لالی پاپ‘‘ کڑوے اور بدمزے پن کا احساس بھی دلا رہا ہوتا ہے لیکن احساس کرتے کرتے بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور ایک مرتبہ پھر ہاتھ ہو جاتا ہے‘ کیا پھر سے ہاتھ ہونے پر عوام ہاتھ ملتے رہ جائیں گے؟
دوسرا سوال: ووٹ کا حقدار کون اُور بطور حزب اقتدار یا حزب اختلاف ماضی میں عوامی نمائندوں کا کردار کیا رہا؟ مئی دوہزارتیرہ میں مسلم لیگ (نواز) نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تحریک انصاف بھی وعدے کرنے میں ثانی نہیں رکھتی جو ’خیبر پختونخوا کو بدل کر رکھنے کے وعدے سے منکر تو نہیں لیکن اِس کی کارکردگی قابل بیان بھی نہیں ہے۔ شہید بھٹو کے نام پر دہائیوں سے سندھ میں برسرِ اقتدار پیپلز پارٹی نے ’’روٹی کپڑے اُور مکان‘‘ کے ساتھ ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن 70سال بعد بھی ملک اور عوام ’وہیں کے وہیں‘ (خالی ہاتھ) کھڑے ہیں‘ جہاں سے بذریعہ سیاست قومی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے سفر کا آغاز کیا تھا!
تیسرا سوال: کیا ایک ووٹ عام آدمی (ہم عوام) اپنے آپ کو نہیں دے سکتے؟ ووٹ کسی بھی شخص کی ’بیعت‘ کرنا ہوتا ہے۔ کیا عام آدمی (ہم عوام) کسی ظالم اُور غاصب کے ہاتھ پر ایک مرتبہ پھر بیعت کرنا پسند کریں گے؟ کیا بذریعہ ووٹ اپنے نفس کا اختیار کسی ایسے شخص کو سونپا جائے گا‘ جو اجتماعی مفاد کے لئے فیصلہ سازی کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہو۔ اگر عام آدمی (ہم عوام) کو اِس بات پر ’یقین بلکہ کامل یقین‘ ہے کہ تبدیلی بذریعہ ووٹ ہی آسکتی ہے تو پھر ووٹ ہر کس و ناکس (ایرے غیرے نتھو خیرے) کی بجائے سوچ سمجھ کر دینے ہی میں دانشمندی ہے۔ بار بار عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی بجائے اِس مرتبہ (پچیس جولائی دوہزار اٹھارہ) اپنا ووٹ کسی ایسے اُمیدوار کو دیجئے‘ جو ووٹ کی عزت و حرمت آشنا ہو۔ جو ووٹ کا وقار ثابت ہو۔ جو ووٹ کے تقدس کا پاسبان ثابت ہو۔ فیصلہ کرنے کے لئے آسان کسوٹی یہی ہے کہ ’دوہزارتیرہ‘ کے عام انتخابات میں‘ جس سیاسی جماعت یا اُمیدوار کو ووٹ دیا گیا‘ اُس کی پانچ سالہ کارکردگی کو دیکھیں۔
نواز لیگ ’’بھاشا ڈیم اُور کراچی کے لئے میٹرو بس پر مبنی ایک ایسا انتخابی منشور رکھتی ہے‘ جس کی عملاً تکمیل گذشتہ تین دہائیوں میں اُس سے نہیں ہو سکی! تحریک انصاف کے لئے وفاقی حکومت بنانے کا اِس سے زیادہ نادر اُور آسان موقع کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا جبکہ اُس کے مدمقابل بڑی جماعتیں (نواز لیگ اور پیپلزپارٹی) تاریخ کی کم ترین مقبولیت پر ہیں اور احتساب کے جاری عمل کی گرفت میں اپنے مستقبل کو لیکر خوفزدہ (بے یقینی کا شکار) ہیں!
تحریک انصاف وفاق میں حکومت ملنے کے بعد پہلے ’’100 دن‘‘ میں ملک کی قسمت بدلنے کے لئے پرعزم ہے لیکن یہی کام اُس سے پختونخوا میں 5 سال تک برسراقتدار رہتے ہوئے نہیں ہو سکا۔کیا ایک ووٹ‘ صرف ایک ووٹ‘ ذات برادری‘ تھانہ کچہری اور ذاتی پسند و مفادات کو سامنے رکھنے کی بجائے پاکستان کے لئے نہیں دیا جاسکتا۔ زیادہ نہیں بلکہ ایک ووٹ یعنی صرف ایک ووٹ کا سوال ہے!
زندگی تشنۂ مجال جواب
لمحہ لمحہ سوال آمادہ! (حنیف کیفی)
زندگی تشنۂ مجال جواب
لمحہ لمحہ سوال آمادہ! (حنیف کیفی)
No comments:
Post a Comment