Sunday, July 1, 2018

TRANSLATION "Deceased voters" by Dr. Farrukh Saleem

Deceased voters
متوفی ووٹرز

عام انتخابات 2018ء کے موقع پر ووٹ دینے کی اہلیت اُن پاکستانیوں کو بھی حاصل ہے‘ جو اَب اِس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ تمام پاکستانی ووٹرز جو کسی بھی وجہ سے دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں اور اب ہمارے درمیان نہیں لیکن اُن کے نام ’ووٹروں کی فہرست‘ میں موجود ہیں تو اِن متوفی ووٹرز کے بارے میں غور ہونا چاہئے۔

مئی 2013ء کے عام انتخابات کے لئے ’’8 کروڑ 57 لاکھ افراد‘‘ ووٹ دینے کے اہل تھے جبکہ 2018ء کے عام انتخابات کے لئے ’’2 کروڑ 20 لاکھ نئے ووٹرز‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اِس عرصے (مئی دوہزار تیرہ سے مئی دوہزار اٹھارہ) کے دوران 25 لاکھ ایسے افراد کے نام ووٹر لسٹوں سے نکالے گئے جو مر چکے تھے۔ اِس تبدیلی کے بعد مرتب کی گئی ووٹرز فہرست میں کل ووٹروں کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ سے زیادہ تھی۔

ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں آبادی بڑھنے کی سالانہ اوسط شرح آبادی 2.4 فیصد ہے۔ پہلا سوال: جن 2کروڑ 20 لاکھ نئے ووٹرز کا اضافہ کیا گیا یہ پانچ سال کے عرصے میں کہاں سے آئے؟ کیونکہ پاکستان کی سالانہ اوسط شرح آبادی تو قریب ڈھائی فیصد ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے دو کروڑ سے زائد ووٹرز کا اضافہ کیسے ممکن ہے؟

متوفی ووٹرز کے بارے میں غور ہونا چاہئے۔ پاکستان میں سالانہ شرح اموات 7.5 فیصد ہے یعنی ہر سال ہر ایک ہزار افراد میں سے 7.5 افراد فوت ہو جاتے ہیں۔ ووٹروں کی فہرست سے ’پچیس لاکھ‘ مرحومین کے نام منہا کئے گئے جو سرکاری طور پر فراہم کی جانے والی سالانہ شرح اموات کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ اگر سالانہ شرح اموات کو پیش نظر رکھیں تو پانچ سال کے عرصے میں 70 لاکھ سے زائد پاکستانی مر چکے ہیں جن کے نام ووٹر فہرستوں سے منہا ہونے چاہیءں تھے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ 50 لاکھ ایسے مرحومین ہیں جن کے نام 2018ء کی ووٹر فہرستوں میں درج ہیں۔ کیا مرحوم افراد کے نام ووٹر فہرستوں میں جان بوجھ کر رکھے گئے ہیں یا یہ ایک غیردانستہ غلطی ہے؟ کیا ہمارے ہاں قبرستانوں میں تدفین اور ہسپتالوں میں مرنے والوں کے اعدادوشمار رکھے جاتے ہیں؟

مرنے والے ووٹروں کے نام سے ووٹ بذریعہ ’پوسٹل بیلٹ‘ ڈالے جا سکتے ہیں اور یہ بھی اندیشہ نہیں کہ کوئی مرنے والا اپنی قبر سے اُٹھ کر کہہ سکے یا اعتراض کر سکے کہ اُس کا ووٹ جعل سازی سے ڈالا گیا ہے!

2018ء کے عام انتخابات کے لئے ووٹ دینے کے اہل افراد میں غیرملکی پاکستانی بھی شامل ہیں جن کی تعداد قریب 75لاکھ ہے۔ اپریل 2013ء میں چیئرمین ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ طارق ملک نے سپرئم کورٹ آف پاکستان کے سامنے ووٹ ڈالنے کا ایسا عملی تجربہ کیا تھا جس میں ووٹ ڈالنا‘ اُنگلیوں کے نشان کی فوری ’آن لائن‘ اُور حاضر وقت (real-time) تصدیق (بائیومیٹرک) کے ہی ممکن ہو سکتا تھا۔ اِس نظام کو وضع کرنے کا مقصد بیرون ملک پاکستانیوں کو اپنا حق رائے دہی کے استعمال کی صورت نکالنا تھی۔ نادرا کی جانب سے سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ برطانیہ‘ امریکہ اور کینیڈا میں تجرباتی ووٹر مراکز قائم کئے گئے۔ سال 2018ء میں سپرئم کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کا حق آئندہ عام انتخابات (پچیس جولائی دوہزاراٹھارہ کے روز) حاصل نہیں ہوگا۔
حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 10 کروڑ ساٹھ لاکھ مردوں اور 10 کروڑ دس لاکھ خواتین پر مشتمل ہے۔ حالیہ ووٹر فہرستوں میں 5 کروڑ92لاکھ مرد اور 4 کروڑ 67لاکھ خواتین ووٹرز ہیں جس کا مطلب ہے کہ چند لاکھ خواتین کے ووٹ رجسٹر نہیں۔

رواں ماہ (جولائی 2018ء) ہونے والے عام انتخابات میں ووٹروں کی تصدیق الیکٹرانک آلات و ذرائع (بائیومیٹرک) سے نہیں ہو سکے گی۔ پاکستان میں موبائل فون کنکشن (SIM) جاری کرنے کے لئے کوائف کی بائیومیٹرک تصدیق کی جاتی ہے اور یہ عمل اگست 2014ء سے جاری ہے۔

تصور کیجئے کہ 22لاکھ نئے ووٹروں کے نام ووٹرز فہرستوں میں درج کئے گئے ہیں۔

تصور کیجئے کہ کم سے کم 50 لاکھ ایسے افراد کے نام ووٹر فہرستوں میں درج ہیں‘ جو وفات پا چکے ہیں۔
تصور کیجئے کہ 75 لاکھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے نام ووٹر فہرستوں میں تو درج ہیں لیکن اُنہیں ووٹ دینے کا حق نہیں دیا گیا۔

یہ سبھی ووٹرز جن کے نام ووٹر فہرستوں میں تو درج ہیں لیکن وہ ووٹ دینے کے لئے موجود نہیں تو درحقیقت یہ دھاندلی کا ایک ایسا امکان ہے‘ جس کا استعمال ہو سکتا ہے۔ علاؤہ ازیں ووٹر فہرستوں میں اِس قسم کی سنجیدہ غلطیوں کی وجہ سے ووٹروں کا اعتماد عام انتخاب جیسے جمہوری عمل سے اُٹھ سکتا ہے اور ووٹروں کی نظر میں انتخابی عمل مشکوک ہو سکتا ہے۔

تصور کیجئے کہ لاکھوں کی تعداد میں خواتین کے نام ووٹر فہرستوں میں درج نہیں۔ جس کی دیگر کئی وجوہات میں وہ سماجی رجحانات اور دباؤ بھی ہیں کہ جن میں خواتین کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے الگ رکھا جاتا ہے لیکن عمومی اور روائتی فرق کے مقابلے لاکھوں کی تعداد میں خواتین کے ووٹ درج نہ ہونا غیرمعمولی ہے جبکہ خواتین کو یکساں مواقع فراہم کرنے کی تحاریک اور کوششیں بھی ماضی کے مقابلے کئی گنا بڑے پیمانے پر دیکھنے میں آتی رہیں ہیں۔ 

(بشکریہ: دِی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

No comments:

Post a Comment