Street protest
اقتصادی مسائل: پائیدار حل!
تاریخ ماضی میں رونما ہونے والے واقعات و سانحات کے مطالعے کا نام ہے بالخصوص وہ سبھی امور کہ جن کا تعلق انسانی معاشرت و معمولات سے ہوتا ہے۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں ایسا کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ ملک کے بااثر سیاسی خاندانوں سے اُن کی پراسرار مالی حیثیت کے بارے میں سوال کیا گیا ہو۔ یوں لگتا ہے کہ جب احتساب اور قانون کی حکمرانی کا ذکر ہو تو پاکستان میں تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہو لیکن شاید اب پاکستان ماضی سے مختلف ثابت ہوگا اور 70 سال کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ عدالت نے اپنا طرزعمل تبدیل کیا ہے اور تاریخ کو نئے انداز میں لکھا ہے۔
بدعنوانی کسے کہا جاتا ہے؟ اگر کوئی شخص (مرد یا عورت) جہاں کہیں بھی فیصلہ سازی کے منصب پر فائز ہو۔ انتظامی معاملات اُس کے ہاتھ میں ہوں اور وہ ایسے فیصلے کرے کہ جس سے اُس کو ذاتی مالی فوائد ہو‘ تو ایسے طرزعمل کو ’بدعنوانی‘ کہا جاتا ہے۔ احتساب کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ کسی فرد یا ادارے کی جانب سے اِس بات کو ممکن بنایا جائے کہ بدعنوان عناصر اور طریقۂ کار کو روکا جائے۔ احتساب وقتی اور سطحی نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ ہمہ وقت جاری رہنا چاہئے اور بدعنوانوں کو معاشرے میں عزت و مرتبہ دیتے ہوئے اور قدر کی نگاہ سے نہیں بلکہ حقارت سے دیکھا جانا چاہئے۔
احتساب کسی ایک شخص کے خلاف کاروائی نہیں بلکہ ایک ایسا مرکزی نظام ہونا چاہئے جس میں بلاامتیاز بدعنوانوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ جب احتساب فرد واحد یا جماعتی بنیادوں پر ہوگا تو اُس سے بہتری نہیں بلکہ خرابی آئے گی۔ احتساب ملک و قوم کی مضبوطی کا باعث ہوتا ہے لیکن جہاں احتساب امتیازی ہو‘ وہاں بدعنوان عناصر کو شکوک و شبہات پیدا کرنے کا موقع ہاتھ آ جاتا ہے۔
ملائشیا کی مثال موجود ہے۔رواں برس 10 مئی کے روز مہاتیر محمد نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا۔ 22 مئی کو سابق وزیراعظم نجیب رزاق سے انسداد بدعنوانی کے ادارے نے چار گھنٹوں تک پوچھ گچھ کی۔ 24 مئی کو ملائیشین کی خصوصی فورس نے امریکی ادارۂ انصاف اور ایف بی آئی حکام سے ملاقاتیں کی۔ ملائشیا میں 6 بینک اکاونٹس منجمند کئے گئے کیونکہ اِن کے ذریعے 70 کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر ہوئی تھیں۔ اِسی طرح آٹھ ہفتوں کے اندر سنگاپور میں بھی 2 بینک اکاونٹ منجمند کئے گئے۔ بدعنوانی کے خلاف اِن اقدامات کے بعد مہاتیر نے اپنے ملک کی بہتری کی جانب توجہ مبذول کی۔
نائجیریا کی مثال موجود ہے جہاں حکومت لوٹے گئے 30کروڑ ڈالر وطن واپس لائی اور اِس رقم کو ہر تمام نائیجرین خاندانوں میں مساوی تقسیم کر دیا گیا۔ اِس طرح ہر خاندان کو 3 لاکھ 60 ہزار نائیجریا نائیر ملے۔
پاکستان کی مثال موجود ہے۔ اپریل 2016ء میں ’پانامہ پیپرز‘ کے نام سے دنیا کی بااثر سیاسی شخصیات کی مالی بدعنوانیوں سے متعلق تفصیلات عالمی سطح پر شائع ہوئیں۔ 27 مہینے تک ’پانامہ پیپرز‘ میں نامزد ایک پاکستانی سیاست دان اور اُن کے اہل خانہ کے بارے میں حکومت کے خرچ سے مقدمات چلے اور اگر گذشتہ 6 مہینوں کے معاشی و اقتصادی حالات کا جائزہ لیا جائے تو پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے اِس عرصے میں ہر پاکستانی خاندان قریب 20 فیصد غریب ہوا ہے۔ تلخ حقیقت ہے کہ اشیائے خوردونوش‘ بجلی‘ گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان برقرار ہے اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملکی وسائل لوٹنے والوں نے قومی خزانے کو اِس حد تک خالی کر دیا ہے کہ اب ملک کے جاری اخراجات کے لئے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔
نواز شریف کو اقتدار سے الگ ہوئے 1 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہم کب تک نواز شریف کو پاکستان کی موجودہ معاشی و اقتصادی خرابیوں کے لئے ذمہ دار ٹھہرائیں گے؟ سابق وزیرخرانہ اسحاق ڈار کو بھی اقتدار سے الگ ہوئے ایک سال ہو چکا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہم اسحاق ڈار کو کب تک پاکستان کی موجودہ معاشی و اقتصادی خرابیوں کے لئے ذمہ دار ٹھہرائیں گے؟ پاکستان کی کشتی بیچ سمندر طوفانوں میں گھری ہوئی ہے۔ نگران حکمران اِس صورتحال میں اپنے اِختیارات سے بڑھ کر اصلاحات لانے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن پاکستان کی معاشی و اقتصادی کشتی کو ڈوبنے سے کون بچائے گا؟
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح یعنی 9.6 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اُور اِس صورتحال میں پاکستان کے پاس سوائے اِس بات کے کوئی دوسری صورت نہیں رہی کہ وہ مزید قرض لینے کے لئے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پاس جائے۔ یہ بات ’آئی ایم ایف‘ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کو غیرملکی قرض کی کتنی اشد ضرورت ہے اور ایسی صورت میں وہ پاکستان سے اپنی شرائط کس حد تک منوا سکتے ہیں۔
پاکستان عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاکستان سخت شرائط پر ’آئی ایم ایف‘ سے قرض حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاکستان مزید مہنگائی کی طرف برھ رہا ہے۔ پاکستان سماجی انتشار کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاکستان اُس انتہاء کی طرف بڑھ رہا ہے جب عوام سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ آئی ایم ایف سے قرض لینا مسئلے کا وقتی حل تو ہے لیکن یہ پائیدار نہیں۔ اُردن کی حکومت نے ’آئی ایم ایف‘ سے 723 ملین ڈالر قرض لیا۔ 3 جون کو اردن کے عوام مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ اُنہوں نے وزیراعظم کی فوری برطرفی کا مطالبہ کیا۔ آئی ایم ایف نے ارجنٹینا کو ’50 ارب ڈالر‘ قرض دیا۔ 26مئی کو ہزاروں کی تعداد میں (اَرجنٹائنز) عوام سڑکوں پر نکلے اُور انہوں نے حکومت مخالف مظاہروں میں مہنگائی پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ عوام یہ پوچھنے پر حق بجانب ہیں کہ آخر ایسے معاشی و اقتصادی حالات کے لئے ذمہ دار کون ہوتا ہے کہ کوئی ملک ’آئی ایم ایف‘ سے قرض لینے پر مجبور ہو جائے؟
پاکستان کے پاس زیادہ سوچنے کا وقت نہیں رہا۔ ملک تیزی سے انتشار کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں مزید قرض لینے سے بھی مسائل ختم نہیں ہوں گے کیونکہ بدعنوانی کا عنصر موجود ہے۔ قومی وسائل کو اس قدر ترقی نہیں دی جا سکی کہ جس کی بنیاد پر آمدن کو بڑھایا جا سکے اور اِسی میں پائیدار حل پوشیدہ ہے کہ قومی بشمول انسانی وسائل کو ترقی دی جائے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
No comments:
Post a Comment