Sunday, July 22, 2018

TRANSLATION: Who will be the PM? by Dr. Farrukh Saleem

?Who will be the PM
وزیراعظم کون ہوگا؟
عام انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے ’اراکین قومی اسمبلی‘ پاکستان کے لئے ’نئے وزیراعظم‘ کا چناؤ کریں گے۔ وہ ایک سوال جس کے بارے میں انتخابات سے قبل اکثر تبادلۂ خیال ہوتا ہے‘ یہ ہے کہ ’’پاکستان کا آئندہ وزیراعظم کون ہوگا؟‘‘ اِس سلسلے میں جو نام زیرگردش ہیں اُن میں عمران خان‘ شہباز شریف‘ آصف علی زرداری اُور سنجرانی شامل ہیں۔ سنجرانی سے مراد شخصیت نہیں بلکہ کوئی بھی سنجرانی جیسا شخص جو اچانک اِس اہم عہدے کے لئے حتمی اُمیدوار کے طور پر سامنے آئے اور پھر اُسی کا انتخاب بھی ہو جائے۔ میرے ذاتی خیال میں پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی کی قریب 100 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لے گی جبکہ مسلم لیگ نواز تحریک انصاف کی حاصل کردہ نشستوں کی تعداد سے نصف اور پیپلزپارٹی و آزاد اراکین 3 درجن نشستوں پر کامیاب ہو جائیں گے۔ نتیجۂ خیال یہ ہے کہ ’بلے‘ اور ’جیپ‘ کا نشان رکھنے والوں کے کندھوں پر سوار ہو کر ’عمران خان‘ وزارت عظمی تک پہنچ جائیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ 119 آزاد اُمیدواروں کی خواہش پر اُنہیں ’جیپ‘ کا انتخابی نشان دیا گیا ہے۔

نواز شریف پاکستان میں موجود ہیں تو کیا اُن کی یہ موجودگی ’عام انتخابات‘ میں اُن کی جماعت ’نوازلیگ‘ کے لئے سودمند ہو سکتی ہے؟ کیا پاکستان کی قوم انتخابات میں نوازشریف کی جانب سے عدلیہ اور فوج مخالف نکتۂ نظر سے اتفاق کریں گے؟

پاکستان کی ’قومی اسمبلی‘ کے لئے انتخابی معرکے میں کامیابی ’روال پنڈی سے ملتان‘ کے درمیان قومی اسمبلی کے 95 حلقوں پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ پانچ کم ایک سو نشستیں صوبہ پنجاب کے 25 اضلاع میں پھیلی ہوئی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ پنجاب کے شہری علاقوں میں رہنے والوں کے ووٹوں سے حکومتیں بنتی ہے لیکن حکومتوں کو گرانے میں فیصلہ کن کردار دیہی علاقوں سے حاصل ہونے والے ووٹوں سے ہوتا ہے۔ 95 حلقوں پر براہ راست انتخابی حلقوں کا تعلق ’بالائی پنجاب‘ کے قریب 6درجن ایسے حلقوں سے ہے جو دیہی علاقوں پر مشتمل ہیں۔ پاکستان میں گذشتہ 45 برس کے دوران 10مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے اور اِس پورے انتخابی عمل میں منتخب ہونے والوں کا ’ووٹروں کے رجحانات‘ پر اگر کنٹرول نہیں تو اِس کی بنیادی وجہ نااہلی اور بدعنوانی ہے۔ اگر عوام کی رائے سے منتخب ہونے والے اپنا تعلق عوام سے قائم رکھتے اور عوام کے مسائل کا حل اُن کی ترجیح ہوتا تو کسی 45 برس کا تعلق کسی ایک عدالتی فیصلے سے متاثر نہ ہوتا اُور ووٹروں کو ’’ووٹ کی مبینہ بے توقیری‘ کے بارے میں اطلاع دیتے ہوئے اکسانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی!

پاکستان کی انتخابی تاریخ کے گزشتہ 45 برس اور اِس عرصے میں 10 مرتبہ عام انتخابات کا مطالعہ کیا جائے تو 3 ایسے طاقتور محرکات فیصلہ سازی پر غالب نظر آتے ہیں‘ جن کی وجہ سے دیہی علاقوں میں ووٹروں کی توجہ حاصل کی جاتی ہے۔ اِن میں ’’1: تھانہ کچہری 2: ذات برادری اُور 3: عمومی اِنتخابی رائے عامہ (ماحول)‘‘ شامل ہیں۔ ڈاکٹر مغیث احمد (Dr. Mughees Ahmad) نے اپنے تحقیقی مقالے ’صوبہ پنجاب کے دیہی و شہری علاقوں میں ووٹروں کے رجحانات‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد نتیجہ پیش کیا ہے کہ جٹ‘ راجپوت‘ آرائیں‘ بلوچ‘ گجر اُور کھرل قبائل (ذات برادری) سے تعلق رکھنے والے انتخابی اُمیدوار ہی گزشتہ 45برس میں ہوئے 10مرتبہ عام انتخابات میں کامیاب ہوتے آئے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ذات برادری ہی کی بنیاد پر عام انتخابات کا ماحول تشکیل پاتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے اپنا ووٹ کسی ایسے اُمیدوار کے حق میں استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں جس کے بارے میں رائے عامہ کے جائزے اور عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہو کہ اُس کی انتخابی کامیابی ممکن نہیں یعنی پنجاب کے دیہی علاقوں میں رہنے والے اپنا ووٹ ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ اِسی طرح پنجاب کے دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی ترجیح یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ کسی ایسے انتخابی اُمیدوار کی کامیابی کا حصہ بنیں جو اُن کی بعدازاں تھانہ کچہری کے معاملات میں معاونت کرے یا پھر جائیداد و اراضی کے تنازعات میں اُن کے اور حکومت کے درمیان ضرورت پڑنے پر کام آئے۔ اگر پنجاب کے دیہی علاقوں کی بات کی جائے تو عمومی تاثر یہی ’تحریک انصاف‘ کی انتخابی کامیابی کے بارے میں ہے اور عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ 25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں تحریک انصاف ہی اکثریتی جماعت بن کر اُبھرے گی۔

ملتان سے رحیم یار خان تک کے علاقے میں قومی اسمبلی کے انتخابی حلقوں کی تعداد 46 ہے جو مجموعی طور پر 11 اضلاع میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اِن علاقوں میں بھی ’تحریک انصاف‘ کی انتخابی کامیابی یقینی سمجھی جا رہی ہے۔ قابل ذکر ہے یہاں سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی اور 13 سابق اراکین صوبائی اسمبلی پہلے ہی تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کرچکے ہیں۔ اِس علاقے میں ووٹروں کی ترجیحات بالائی پنجاب کے علاقوں کے مقابلے مختلف بہت مختلف ہے۔ یہاں شرح خواندگی کم ہے۔ یہاں کے رہنے والوں کی آمدن کم اور آمدنی کے ذرائع محدود ہے اُور اِن علاقوں میں ذرائع ابلاغ کی پہنچ بھی شہری علاقوں کے مقابلے کم ہے۔ علاؤہ ازیں اِس خطے میں بسنے والے ووٹرز کی اکثریت اپنے فیصلوں میں ’آزاد‘ ہے کیونکہ وہ چھوٹے رقبوں کی زرعی اراضی کے مالک ہیں اور یہاں خواتین کی اکثریت گھرانے کے سربراہ کی خواہش پر اپنا ووٹ دیتی ہیں۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ ملتان اور رحیم یار خان کے درمیان خواتین رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد قریب 70 لاکھ ہے۔

1977ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے مجموعی طور پر پورے ملک میں ڈالے گئے ووٹوں میں سے 60فیصد ووٹ حاصل کئے تھے لیکن پیپلزپارٹی کی انتخابی مقبولیت اور کارکردگی میں اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ مئی 2013ء کے عام انتخابات کے نتائج کا موازنہ اگر 1977ء کے عام انتخابات سے کیا جائے تو پاکستان پیپلزپارٹی کے حاصل کردہ مجموعی قومی ووٹوں میں 15فیصد کمی آئی ہے اور پیپلزپارٹی جو کبھی ملک گیر انتخابی کامیابیاں حاصل کرنے والی جماعت ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ ٹھٹھہ اور سکھر کے درمیان پائی جانے والے قومی اسمبلی کے 40 حلقوں کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ پنجاب کے 141 انتخابی حلقوں کی صورتحال یہ ہے کہ آج 104 ایسے حلقے ہیں جہاں پیپلزپارٹی انتخابات کے لئے اپنے اُمیدوار بھی نامزد نہیں کر سکی! پاکستان کی سیاست میں انتخابی عروج اور زوال سب سے زیادہ پیپلزپارٹی نے دیکھا ہے!

پاکستان کو درپیش مسائل بحرانی ہیں۔ 
روپے کی قدر میں غیرمعمولی کمی آ چکی ہے۔ 
قومی خزانہ خالی پڑا ہے۔ 
ملکی اخراجات اور آمدن میں توازن نہیں رہا۔ 
قرض کی ادائیگی کے لئے قرض لینا پڑتا ہے اور
عوام میں قومی مسائل کے لئے ذمہ داروں کا تعین کرنے اور اِن مسائل کے حل کے لئے کسی ایک قائد کی ذات پر بڑے پیمانے پر اتفاق رائے بھی نہیں پایا جاتا۔ ایسی صورتحال میں حکمرانی (وزارت عظمیٰ) ملنا کانٹوں کا تاج ہوگا اور کون پسند کرے گا کہ وہ اپنے آپ کو مشکل میں ڈالے۔ کون پسند کرے گا کہ وہ دہکتے ہوئے انگاروں پر ننگے پاؤں چلے؟ 

کیا پاکستان کا آئندہ وزیراعظم عمران خان ہوگا یا کوئی ایسا کردار‘ جس کے وزیراعظم بننے کی آج کسی کو توقع بھی نہیں؟

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

No comments:

Post a Comment