ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
انتخابات: نوبہار عجبے!
تحریک (قیام) پاکستان اُور بعدازاں ملک کو فلاحی اِسلامی ریاست بنانے کے لئے پشاور کے سرتاج روحانی وعلمی ’’گیلانی خانوادے‘‘ کی کوششیں اُور قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اِس خانوادے کا سیاسی اُور غیرمشروط تعلق ’پاکستان کی خالق جماعت ’مسلم لیگ‘ سے اُس وقت تک استوار رہا جب تک کہ مسلم لیگ کئی شاخوں میں بٹ نہیں گئی اور یہی وہ صدمہ تھا‘ جس نے ’اندرون یکہ توت گیٹ‘ کے اِس ’سادات گھرانے‘ کو عملی سیاست سے آہستہ آہستہ الگ کر دیا۔ آج بھی اندرون پشاور میں اِن کی حمایت کے بغیر کسی کی انتخابی اُمیدوار کی یقینی کامیابی مشکل ہی نہیں ناممکن سمجھی جاتی ہے اُور بات اِس گھرانے کی صرف انتخابی حمایت کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
پشاور نے وہ درخشاں دور بھی دیکھا جب ’شاہ احمد نورانی‘ کی قیادت میں ملک بھر سے علماء و مشائخ نے فیصلہ کیا کہ ’’خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری‘ اَدا کی جائے۔ تب آستانہ عالیہ قادریہ حسنیہ‘ کوچہ آقا پیر جان پر ’گنبد خضریٰ‘ سے مزین سبز پرچم لہرانے لگا اور یوں 70ء کی دہائی (آئین پاکستان کی منظوری کے بعد ہوئے پہلے عام انتخابات) سے پیرطریقت سیّد محمد امیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ ’جمعیت علمائےپاکستان (نورانی) کا حصہ رہے‘ جن کے وصال کے بعد بھی ’شمال مغربی سرحدی صوبے‘ کی صدارت و مرکزی فیصلہ سازی میں پشاور کو کلیدی مقام حاصل رہا لیکن پھر ’جمعیت علمائے پاکستان‘ پر ’جمعیت سادات‘ (خاندانی مفادات) حاوی ہوتے چلے گئے۔ تقسیم در تقسیم ہو گئی! جس کے بارے خاموشی ہی بہتر ہے!
پانچ دینی جماعتوں کا اِتحاد ’متحدہ مجلس عمل‘ نومبر 2017ء میں بحال ہوا‘ جس کے بعد اُمید تھی کہ دینی جماعتوں کا ’’ووٹ بینک‘‘ تقسیم ہونے سے بچ جائے گا‘ لیکن جمعیت علمائے اِسلام (فضل الرحمن)‘ جماعت اِسلامی‘ جمعیت علمائے پاکستان (اِمام نورانی)‘ جماعت اِلحدیث اُور تحریک اِسلامی پر مشتمل اِس اتحاد میں شامل قوتوں کی ’’انتخابی توقعات اُور اُمیدیں‘‘ شاید پوری نہ ہوں کیونکہ ’ہوم ورک‘ نہیں کیا گیا۔ دنیاوی اہداف رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی طرح یہاں بھی داخلی اختلافات ختم کرنے کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی گئی۔ بہرحال سوال یہ نہیں کہ 2007ء سے 2017ء تک ’ایم ایم اے‘ کیوں غیرفعال رہی اور آخر عام انتخابات کے موقع پر ہی ہر طرف سے ’اتحاد اتحاد کی صدائیں‘ اٹھنا کیوں شروع ہو جاتی ہیں؟ بلکہ توجہ طلب امر یہ ہے کہ عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والے کاروباری گھرانے دینی جماعتوں کے اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں لیکن یہ بات دھڑے بندیوں پر فخر کرنے والوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی کہ اُن کی قیمت بالخصوص عقیدت مند حلقوں (مریدوں) کی وفاداریاں پیش نظر رکھتے ہوئے لگائی جاتی ہیں۔ (قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند)۔
قابل فہم ہے کہ غریب اور متوسط آمدنی رکھنے والے طبقات مالی و معاشی مجبوریوں کی وجہ سے اپنا ووٹ بیچ دیں لیکن گدی نشین بھی ’بہ صد سامان رسوائی سر بازار می رقصم‘ ہو جائیں گے‘ آنکھوں دیکھی اِس حقیقت کا یقین نہیں ہو رہا۔ یادش بخیر 2002ء میں ’ایم ایم اے‘ تخلیق کی گئی تو پہلی ہی مرتبہ اِس انتخابی اتحاد نے قومی اسمبلی کی 58 نشستیں جیت کر سب کو حیران کر دیا تھا‘ اور یہاں بھی بات ’حیرانی کی حد تک ہی محدود رہی‘ جس کے بارے میں مزید کچھ کہنے سے خاموشی بہتر ہے!
پچیس جولائی کے (متوقع) عام انتخابات کے لئے ’ایم ایم اے‘ نے 12 نکاتی انتخابی منشور کا اعلان کیا‘ جس کے بنیادی نکات میں ’شریعت کا نفاذ‘ اور عالمی سطح پر مسلمان ممالک کا ایک ایسا اتحاد تشکیل دینا شامل ہے‘ جو مسلم اُمہ کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی آمادگی‘ بیداری اور تیاری کر سکے۔ یہ اہداف کیسے حاصل ہو سکیں گے جبکہ ’سنی مکتب فکر‘ کے پاس انقلاب اسلامی ایران جیسی ایک کامیابی عملی مثال بھی نہیں!؟ اگر بات پشاور کے تناظر اور ’گیلانی سادات گھرانے‘ کی عام انتخابات کے حوالے سے حکمت عملی کے حوالے سے کی جائے تو پشاور ’شاہ احمد نورانی مرحوم و مغفور‘ کے وارث گروپ ’اِمام نورانی‘ کی بجائے ’صاحبزادہ ابوالخیر‘ کے ساتھ کھڑا ہے‘ جنہوں نے 2014ء میں اپنا الگ دھڑا بنا لیا تھا۔ اب جمعیت علمائے پاکستان کے اِس گروہ کو ’نورانی‘ کے لقب سے پہچانا جاتا ہے جبکہ ’اِمام نورانی‘ گروپ ’ایم ایم اے‘ کا حصہ ہے۔
رواں ماہ ہونے والے عام انتخابات کے لئے ’’بریلوی مکتبۂ فکر‘ سے تعلق رکھنے والے ’’جمعیت علمائے پاکستان‘ نورانی گروپ‘‘ نے ’متحدہ نفاذ نظام مصطفی محاذ‘ کا حصہ بننے کو ترجیح دی‘ لیکن چونکہ اِس اتحاد کی الیکشن کمشن میں بطور سیاسی پارٹی باضابطہ رکنیت حاصل نہیں‘ اِس لئے اِن کے تمام نامزد اُمیدوار آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ جمعیت علمائے پاکستان ’امام نورانی‘ نے الیکشن کمشن کے ساتھ رجسٹریشن نہ ہونے کی کمی ’ایم ایم اے‘ کے انتخابی نشان کے ذریعے پوری کر لی جو زیادہ دانشمندانہ فیصلہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ ’’موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔‘‘ پشاور کی سطح پر ’جمعیت علمائے پاکستان ’نورانی‘ اور ’اِمام نورانی‘ اقلیتی گروپوں کی سوچ اور پسند الگ الگ ہے۔ نورانی گروپ کے مرکزی نائب صدر سیّد محمد سبطین گیلانی (تاج آغا) نے اندرون پشاور سے پیپلزپارٹی کی صوبائی نشست کے لئے حمایت کا اعلان کردیا ہے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کی آئندہ چند روز میں حمایت کا اعلان متوقع ہے۔ یوں 2 مختلف النظریات جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد اُس گھرانے کا عکاس بن گیا ہے‘ جس کو اِس حد تک ناتواں کر دیا گیا ہے کہ اُس کا اثرورسوخ 2 انتخابی نشستوں کی حد تک محدود ہو گیا ہے!
لمحۂ فکریہ بھی ہے کہ صرف پشاور ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ہونے والے عام انتخابات پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اگر عام انتخابات کا انعقاد ہو بھی جاتا ہے تو اِن کا قابل یقین حد تک شفاف ہونا بھی ضروری ہے جبکہ دہشت گردی کے باعث بڑی جماعتوں نے سیاسی سرگرمیاں پہلے ہی محدود کر دی ہیں تاہم ایک جماعت (تحریک انصاف) کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت کو دیگر اپنے لئے مشکلات قرار دے رہے ہیں! کسی ایک سیاسی جماعت کو چھوڑ کر دیگر سبھی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک ہی نوعیت کی شکایت اور بیانات‘ محض حسن اتفاق اور گٹھ جوڑ یا سازش کا نتیجہ نہیں۔ جب ساری جماعتیں ایک ہی قسم کے حالات سے دوچار ہو جائیں تو پھر ذمہ داروں‘ بالخصوص الیکشن کمشن اور نگران حکومتوں کو سوچنا پڑے گا کہ ایک آدھ کے سوأ سبھی تحفظات کا اظہار کیوں کررہی ہیں اُور چاروں طرف سے ایک ہی آواز کیوں اُٹھ رہی ہے؟ کہیں یہ انتخابات (جمہوری عمل) کے خلاف سازش تو نہیں؟
۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment