Tuesday, July 17, 2018

July 2018: What we need? Elections, Politics and [POLITICAL] Reconciliation!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
انتخابات: سیاست اُور مفاہمت!
پاکستان کی ’70 سالہ‘ سیاسی تاریخ میں جن ’مشکل اَدوار‘ کا ذکر ملتا ہے‘ اُن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ’قومی اِداروں‘ کے درمیان ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ’اِختلاف رائے‘ پایا جاتا ہے اُور جب تک یہ ’’اِختلاف رائے‘ اِتفاق رائے‘‘ میں تبدیل نہیں ہوتا‘ اُس وقت تک قومی مسائل کے حل کے لئے ترجیحات کے تعین اور اِن ترجیحات کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہوگا۔ سردست پاکستان کی ضروریات میں شامل ہے 1: عدالتی اِصلاحات (جوڈیشل ریفارمز) کے ذریعے کم سے کم وقت اُور خرچ میں اِنصاف تک رسائیاور بلاامتیاز احتساب کا عمل۔ 3: اِنتخابی اِصلاحات (اِلیکٹورل ریفارمز) جن کے ذریعے عملاً غیرمتنازعہ‘ شفاف اُور آزادانہ اِنتخابات کا اِنعقاد ممکن ہو۔ 3: مؤثر خارجہ اَمور (فارن پالیسی) جس کے ذریعے خطے اُور عالمی سطح پر پاکستان کے مفادات کو سفارتی طور پر اُجاگر کیا جائے۔ 4: دفاع (ڈیفنس)‘ دفاعی پیداوار و صلاحیت میں اِضافہ اُور داخلہ حفاظتی اَمور (ہوم لینڈ سیکورٹی) جن کے ذریعے اِنتہاء پسندی اُور دہشت گردی جیسے چیلنجز سے نمٹا جا سکے۔5: سیاسی قیادت جو ایک دوسرے کے پاؤں کھینچنے کی بجائے عوام کی ’نبض آشنا‘ ہو اُور 6: اِحساس ذمہ داری کے ساتھ ذرائع ابلاغ (الیکٹرانک اُور پرنٹ میڈیا) کا مثبت کردار۔ ہمیں اُس ’مستقل اِنکاری کیفیت‘ سے بھی باہر آنا ہے‘ جس میں فوج‘ عدلیہ بشمول اِنسداد بدعنوانی اسٹیبلشمنٹ‘سیاست دانوں‘ افسرشاہی اور ذرائع ابلاغ کے وجودکو تسلیم نہیں کیا جاتا اور جب تک اِن 6 شعبوں کے فیصلہ سازوں کے درمیان ’’قومی مفاہمت‘‘ نہیں ہوتی‘ جس میں مل بیٹھ کر ہر طاقت اپنے اپنے کردار اُور ذمہ داریوں کا تعین نہیں کر لیتے اُس وقت تک وقفوں سے ’عام اِنتخابات‘ کا اِنعقاد کروانا کافی نہیں ہوگا۔

کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن پاکستان کے ’’سیاسی کلچر‘‘ میں فوج کی حکمرانی اب ایک ’زندہ روایت‘ جیسی حقیقت حاصل کر چکی ہے۔ دوسری طرف سیاسی جماعتیں باہم بر سرِ پیکار ہوتی ہیں‘ سیاست دان ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کرنے سے انکاری ہیں‘ سول حکومتیں بدانتظامی‘ عدمِ استحکام اور اخلاقی انحطاط کا بدترین نمونہ پیش کر رہی ہیں۔ عوام الناس حکمرانوں کے آگے اپنے مسائل حل نہ ہونے کا رونا روتے ہیں۔ غیر مقبول مذہبی اور سیاسی گروہ فوج کو حکومت سنبھالنے کی پیشکش کرتے ہیں اور فوجی پوری آمادگیِ دل کے ساتھ اس صداے خوش نوا پر لبیک کہتے اور قوم کے مسیحا کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ وہ آئین کو بالائے طاق رکھ کر مسندِ اقتدار پر نہ صرف فائز ہوتے ہیں بلکہ اقتدار کے زیادہ سے زیادہ مظاہر کو اپنی ذات میں مرتکز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ استحکام حاصل کر لینے کے بعد اپنے اقتدار کے آئینی جواز کے لئے سرگرمِ عمل ہو جاتے ہیں۔ اقتدار کو طول دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور بالآخر عوام کی ناپسندیدگی کا داغ اپنے دامن پر سجا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔

اس روایت کا آغاز ’27 اکتوبر 1958ء‘ میں جنرل ایوب خان صاحب کے مارشل لاء سے ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سکندر مرزا نے سیاست دانوں کے پر زور ایماء پر ’مارچ 1959ء‘ میں عام انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کر رکھا تھا۔ سیاسی سرگرمیاں زور پکڑ رہی تھیں۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ اب سکندر مرزا کے لئے عام انتخابات سے گریز ممکن نہیں ہو گا اور عام انتخابات کے نتیجے میں اسے لازماً کرسیِ صدارت سے محروم ہونا پڑے گا۔ محرومی کے اس خدشے کے پیشِ نظر اُس نے جنرل ایوب خان کے ذریعے سے مارشل لاء نافذ کر دیا اور اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی اعتبار سے تین بڑے اقدامات کئے۔ 1: انہوں نے سکندر مرزا کو منصبِ صدارت سے اتارا اور خوداس پر فائز ہو گئے۔2: 1956ء کے آئین کو منسوخ کیا۔3: ایک موقع پرسیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی اور سیاست دانوں ہی کو سیاست کے لئے نااہل قرار دے دیا۔ ایوب خان ’25 مارچ 1969ء‘ کے روز رخصت ہوئے تو اس دوران میں انہوں نے جمہوریت کا نعرہ بھی لگایا‘ عام انتخابات بھی کرائے اور آئین بھی تشکیل دیا مگرتاریخ میں وہ ایک آمراورمخالفِ جمہوریت ہی کی حیثیت سے جانے گئے۔ 

عوام کی زور دار احتجاجی تحریک کے نتیجے میں ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔اس موقع پر انہی کے وضع کردہ آئین کا تقاضا تھا کہ اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کو منتقل کیا جائے مگر انہوں نے حکومت چیف آف آرمی سٹاف جنرل یحییٰ خان کے سپرد کی۔ جنرل یحییٰ نے دو سال حکومت کی‘ اس دوران میں ان کے اہم سیاسی اقدامات یہ تھے:1: مارشل لاء نافذ کیا۔2: عوام سے رائے لئے بغیر ’ون یونٹ‘ کو توڑ دیا۔3: انتخابات کے بعد اقتدار میں اپنی شرکت کی تگ و دو‘ منتخب نمائندوں کو انتقالِ اقتدار میں اِلتوأ اور مشرقی حصے میں فوجی کاروائی جیسے بعض ایسے معاملات کئے کہ جنہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک کوکامیاب بنانے میں حتمی کردار ادا کیا۔ یحییٰ خان کے بعد کچھ عرصہ تک جناب ذوالفقار علی بھٹو کی سول حکومت قائم رہی۔1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی بنیاد پر بھٹو حکومت کے خلاف ایک زوردار عوامی تحریک شروع ہوئی اور ملک سیاسی خلفشار کا شکار ہو گیا۔ اِس صورتحال کو بنیاد بنا کر’16 ستمبر 1978ء‘ کے روز جنرل ضیاء الحق نے عنانِ حکومت سنبھالی۔ اور اعلان کیا کہ وہ ’90 روز‘کے اندر انتخابات کرا کے رخصت ہو جائیں گے مگر وہ 10سال تک حکمرانی کے منصب پر فائز رہے اُور ’17 اگست 1988ء‘ فرشتۂ اجل ہی اُنہیں مسندِ اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہوا۔ اس دوران میں وہ بتدریج اپنے فوجی تشخص کو کم کرتے چلے گئے اور آہستہ آہستہ جمہوری اداروں کو بھی کسی حد تک بحال کر دیا مگر اقتدار سے علیحدگی کو وہ کسی لمحے بھی گوارا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔

ضیاء الحق کے سیاسی اقدامات میں 1: آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مارشل لاء کا نفاذ۔ 2: ریفرنڈم کے ذریعے سے اپنے اقتدار کو آئینی تحفظ دینے کی کوشش۔ 3: غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد۔4: گروہی‘ انتہاء پسندانہ اور فرقہ ورانہ سیاست (کلاشنکوف کلچر) کا فروغ شامل تھا۔ اُس وقت کی عدالت عظمیٰ نے حسبِ سابق انہیں سندِ جواز فراہم کر دی ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ جب کبھی اور جس کسی بھی ضرورت کے تحت فوج اقتدار پر قابض ہوتی ہے تو اِس سے پیدا ہونے والے چند مسائل میں سرفہرست ’دین کے مسلمات‘ کا مجروح ہونا شامل ہوتا ہے۔ اسلام نے اصول طے کردیا ہے کہ: ’وامرہم شوریٰ بینہم‘ یعنی ’’مسلمانوں کا نظام ان کے باہمی مشورے پر مبنی ہے۔‘‘ مسلمان جب بھی کوئی اجتماعی نظام قائم کریں گے‘ اس کا اصلِ اصول یہی قاعدہ ہو گا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ریاست کی سطح پر اجتماعی نوعیت کا کوئی فیصلہ مسلمانوں کی مشاورت کے بغیر نہیں ہوگا اور اس ضمن میں ان کی رائے کو حتمی حیثیت حاصل ہو گی۔ جب یہ اصول طے ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی اساس ’امرہم شوریٰ بینھم‘ ہے‘ اس لئے ان کے امرا و حکام کا انتخاب اور حکومت و امارت کا انعقاد مشورے ہی سے ہو گا اور امارت کا منصب سنبھال لینے کے بعد بھی وہ یہ اختیار نہیں رکھتے کہ اجتماعی معاملات میں مسلمانوں کے اجماع یا اکثریت کی رائے کو رد کر دیں۔ فوج کے بلواسطہ یا بلاواسطہ حکمرانی سے دوسرا مسئلہ ایسے اقدامات کی صورت ظاہرہوتا ہے‘ جو آئین کی خلاف ورزی پر منتج ہوتے ہیں۔ 

ہمارا آئین درحقیقت وہ دستور العمل ہے جس کے بارے میں قوم نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے اجتماعی امور کو اس کی روشنی میں انجام دے گی۔ اس میں ہم نے قومی سطح پر یہ طے کیا ہے کہ ہمارانظامِ حکومت کیا ہو گا؟ حکومت کس طریقے سے وجود میں آئے گی اور کس طریقے سے اسے تبدیل کیا جا سکے گا؟ سربراہانِ ریاست و حکومت کس طریقے سے منتخب ہوں گے‘ ان کے کیا ا ختیارات ہوں گے اور کس طرح ان کا مواخذہ کیا جا سکے گا؟ یہ اور اس نوعیت کے بے شمار امور جزئیات کی حد تک دستور میں طے ہیں صرف قومی مفاہمت کے ذریعے اُن کی حدود (دائرہ کار) وضع کرنا ہے۔ کسی بھی قوم کا سیاسی استحکام اس بات میں مضمر ہوتا ہے کہ وہاں کی تمام قوتیں (فوج‘ عدلیہ‘ انسداد بدعنوانی کے ادارے‘ سیاست دان‘ افسرشاہی اور ذرائع ابلاغ) آئین کے ہر ایک لفظ پر پوری دیانت داری سے عمل کریں‘ بصورت دیگر مسائل اور بحرانوں سے نکلنے کی کوئی دوسری صورت نہیں!

No comments:

Post a Comment