Sunday, July 15, 2018

TRANSLATION: We need dams? by Dr. Farrukh Saleem

?We need dams
ڈیموں کی ضرورت
دریاؤں کے ذریعے پاکستان کو ملنے والے پانی کی کل مقدار 145 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) ہے۔ اِن دریاؤں میں سندھ سے 89 ایم اے ایف‘ جہلم سے 22 ایم اے ایف‘ چناب سے 25 ایم اے ایف‘ اور مشرقی دریاؤں سے 9 ایم اے ایف پانی ملتا ہے جبکہ اِس دستیاب پانی کے مقابلے مانگ زیادہ ہے۔

’145 ایم اے ایف‘ میں سے ’104 ایم اے ایف‘ زراعت کی ضروریات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مقامی ضروریات کے لئے پانی کی دستیابی کا عالمی معیار یہ ہے کہ فی کس 35 گیلن دستیاب ہو۔ مردم شماری 2017ء کے مطابق پاکستان کی آبادی بیس کروڑ سے زیادہ ہے اور اِس آبادی کے تناسب سے 12 ایم اے ایف پانی درکار ہے۔ صنعتی استعمال کے لئے پاکستان کے زیراستعمال پانی 18 ایم اے ایف ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ پاکستان کے پاس دستیاب پانی اِس کی ضروریات کے لئے ناکافی ہے اور پانی کے دستیاب ذرائع بھی محفوظ نہیں۔

پاکستان کو دستیاب پانی کی بڑی مقدار میں تین وجوہات کی بناء پر ضائع ہو رہی ہے۔ 24ایم اے ایف پانی نہروں میں‘ 21ایم اے ایف آبی گزرگاہوں سے گزرگاہوں میں جبکہ 33 ایم اے ایف دیگر مقامات پر پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ یوں مجموعی طور پر 77 ایم اے ایف پانی ضائع ہوتا ہے۔

ڈیم کیوں ضروری ہیں۔ پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم تعمیر کئے جاتے ہیں لیکن ڈیموں کی تعمیر کے لئے پانی کی مسلسل فراہمی یقینی ہونی چاہئے۔ متعلقہ شعبے کے ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کو چونکہ پانی برفانی تودوں سے حاصل ہوتا ہے‘ اِس لئے پانی کی دستیابی کا انحصار موسمیاتی اثرات پر ہے جو کبھی زیادہ اور کبھی کم ہو جاتا ہے۔ آبی ذخائر سے دوسرا استفادہ ’پن بجلی‘ کی صورت حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن اس صلاحیت کے حصول پر کافی لاگت آتی ہے بالخصوص ایک ایسے دور میں جبکہ دیگر متبادل ذرائع سے بجلی کا حصول ممکن بھی ہو اور یہ بجلی فی یونٹ قیمت کے لحاظ سے بھی کم ہو تو پھر بجلی دیگر سستے ذرائع سے حاصل کرنے ہی میں دانشمندی ہے۔

کسی بھی ذریعے سے بجلی حاصل کرنے سے زیادہ یہ بات اہم ہوتی ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت کیا ہوگی۔ مثال کے طور پر اگر ہمیں نیلم جہلم سے حاصل ہونے والی بجلی ایک لاکھ روپے جبکہ اُسی مقدار کی بجلی شمسی توانائی سے پچاس روپے میں حاصل ہو تو بہتر کیا ہے؟ متعلقہ شعبے کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس کے مطابق ’’شمسی توانائی سے 20فیصد کم قیمت پر بجلی حاصل ہو سکتی ہے۔‘‘

بھاشا ڈیم کا جائزہ لیں۔ اِس ڈیم کی تعمیر پر 14 ارب ڈالر درکار ہیں جس کے بعد اِس میں 6 ایم اے ایف پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی اور اس مقدار میں پانی سے حاصل ہونے والے فوائد کو شمار کیا جائے تو 30 برس میں ڈیم کی تعمیر پر اُٹھنے والے اخراجات پورے ہوں گے۔ یہ ایک بہت طویل عرصہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی دریاؤں کے بہاؤ میں سال 2050ء تک کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔

پاکستان کی زرعی پیداوار 60 ارب ڈالر کے مساوی ہے جسے حاصل کرنے کے لئے 104 ایم اے ایف پانی استعمال ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں جو اِس سے کئی گنا زیادہ پیداوار کم پانی کے استعمال سے کرتے ہیں۔ آبپاشی کے متبادل ذرائع اور اِس شعبے میں ہونے والی تحقیق و ترقی سے پاکستانی کاشتکار آشنا نہیں اور اگر حکومت زرعی شعبے میں پانی کے بہترین استعمال کو متعارف کرے تو پانی کی زیراستعمال موجودہ مقدار سے مزید پچاس فیصد پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے۔

پاکستان کا اصل مسئلہ پانی کے موجود ذرائع سے دانشمندانہ استفادہ ہے۔ پانی کم نہیں لیکن پانی بڑی مقدار میں ضائع ہو رہا ہے۔ ڈیموں کی تعمیر پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے۔ ماضی میں ڈیموں پر انحصار کیا جاتا تھا لیکن اب چونکہ متبادل ذرائع سے بجلی کی پیداوار اور کم پانی میں فصل حاصل کی جاسکتی ہے‘ اس لئے پانی ذخیرہ کرکے استعمال کرنے کی بجائے اِس کا جدید خطوط پر محتاط استعمال ہی دانشمندی ہے۔ ڈیم دنیا کے اُن ممالک میں تعمیر کئے جاتے ہیں جہاں پانی کی دستیابی مسلسل اور یکساں رہے پاکستان میں پانی کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے اور ایسی صورت میں آبی ذخائر کی افادیت کم ہو جاتی ہے۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

No comments:

Post a Comment