Thursday, July 12, 2018

July 2018: Reham Khan by Rehman Khan : BOOK REVIEW!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
کتاب: ریحام خان!
پاکستان تحریک اِنصاف کے سربراہ عمران خان کی دوسری شادی ’برطانوی شہریت‘ رکھنے والی خاتون ’ریحام خان‘ سے اُس ملاقات کا نتیجہ تھی‘ جو ایک پارٹی کے سربراہ اور صحافی کے درمیان (پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے لئے‘ طے شدہ مقام اور مقررہ وقت پر) ہوئی لیکن رسمی سوال و جواب کی نشست برخاست ہونے کے بعد دونوں نے ’غیررسمی طور پر‘ ایک دوسرے کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ انہیں تو ایک دوسرے کا ’شریک حیات‘ ہونا چاہئے۔ ریحام 2012ء میں پاکستان آئیں اور عمران خان سے اُن کی ملاقاتوں کا سلسلہ (نتیجہ) 2015ء میں شادی کی صورت سامنے آیا لیکن یہ شادی 2015ء ہی میں انجام (طلاق) کو پہنچی‘ جو شادی ہی کی طرح غیرمتوقع بات تھی۔ اطلاعات کے مطابق عمران خان کی جانب سے ریحام کو ’8 کروڑ روپے‘ ادا کئے گئے۔ یہ رقم اقساط میں ادا کی گئی اور عمران خان کے قریبی دوست ذوالفقار العمروف زلفی بخاری جو کہ برطانیہ میں کاروبار رکھتے ہیں اُنہوں نے ادائیگیاں کیں‘ البتہ ریحام نے ایسی کسی بھی ’لین دین (ادائیگی یا وصولی)‘ سے انکار کیا اور پہلی مرتبہ ’8 نومبر 2015ء‘ کے روز باضابطہ طور پر اعتراف کیا کہ اُن کے اور عمران خان کے درمیان طلاق واقع ہو چکی ہے۔‘ عمران خان کی جانب سے یہ اعلان اِس سے پہلے ہی کردیا گیا تھا۔

ریحام خان کی طلاق کے محرکات کیا تھے؟ باشعور اور تعلیم یافتہ جوڑے کی پسند سے ہونے والی ایک ایسی شادی جس کا جشن پورے پاکستان اور دنیا بھر میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے منایا‘ وہ چند ماہ میں کیسے ختم ہوئی؟ عمران خان کی نجی معمولات کیا ہیں؟ یہ سب اور بہت کچھ مزید جاننے کا تجسس رکھنے والوں میں ایک بڑی تعداد تحریک انصاف کے کارکنوں کی بھی ہے‘ جنہیں عمران خان کی سماجی و سیاسی خدمات اور عزائم کا تو علم ہے‘ وہ یقین بھی رکھتے ہیں لیکن عمران خان کے ’پراسرار معمولات زندگی‘ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کی اکثریت کو عمران خان کی نجی زندگی اور ریحام خان کی کتاب سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں بلکہ وہ اِس کتاب کو ’دل آزاری اُور سیاست میں الزام تراشیوں کے نئے باب کا اضافہ‘ قرار دیتے ہیں۔

پاکستان کے سبھی سیاست دان اپنی نجی زندگی کو سیاسی زندگی سے الگ کئے ہوئے ہیں اور اُن کے بارے میں عام آدمی (ہم عوام) کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سیاست دانوں کو اُن کی سیاسی زندگی‘ بیانات اور مخالف سیاسی جماعتوں پر تنقید کرنے کے حوالے سے دیکھا اور سمجھا (پرکھا) جاتا ہے لیکن بطور انسان اُن کی شخصیت کے کتنے ظاہری اور کتنے پوشیدہ پہلو ایسے بھی ہوں گے‘ کہ جنہیں سامنے رکھتے ہوئے اُن کی مستقل مزاجی اور بصیرت و کردار کو سمجھا جا سکے۔ 

مغربی معاشروں میں اگر جمہوریت مضبوط دکھائی دیتی ہے تو اُس کی بنیاد ’سچ‘ پر ہے جبکہ ہمارے ہاں کی جمہوریت میں سیاسی رہنما بالخصوص سیاسی جماعتوں کے قائدین ’سچ‘ صرف اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں بولنا اُور سننا پسند کرتے ہیں۔ اِس تناظر (پس منظر) کو ذہن میں رکھتے ہوئے ’محترمہ ریحام خان‘ کی تحریر کردہ ’آپ بیتی (کتاب)‘ خاص اہمیت کی حامل ہے‘ جس میں لکھی ہوئی اگر ہر بات سچ نہیں ہو سکتی تو ہر بات کا انکار بھی ممکن نہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ ریحام خان کو یہ سب باتیں کتابی صورت میں مرتب کرنی چاہیئں تھیں یا نہیں۔ بیوی کی حیثیت یا اُس سے قبل ایک دوست کی حیثیت سے اُن کا جتنا بھی وقت عمران خان کی قربت میں گزرا‘ کیا اُس کے بارے میں لکھتے ہوئے پاکستانی معاشرے میں پردے اور اخلاقیات کے پیمانے‘ شرعی رشتے کی باریکیوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے تھا بالخصوص جہاں کہیں عمران خان کے علاؤہ دیگر افراد کے نام آئیں۔ مثال کے طور پر کتاب میں پلاسٹک کی 2 تھیلیوں کی ایک تصویر شائع کی گئی ہے‘ جن میں بھرے سفید رنگ کے پوڈر (powder) کو دیکھا جاسکتا ہے اور اِس کے نیچے تفصیل (کیپشن) میں لکھا ہے کہ یہ ’کوکین (نشہ آور مادہ)‘ عمران خان کی جیب میں موجود پائی گئی تھی لیکن یہ بات کس طرح ثابت کی جائے گی کہ یہ دونوں تھیلیاں عمران خان کے زیراستعمال تھیں؟ کیا ریحام خان کی بنی گالہ میں موجودگی بطور جاسوس تھی جو وہ عمران خان کی جیبوں کی تلاشی لینے اور اُن میں موجود اشیاء کے تصویری شواہد (ثبوت) جمع کرتی رہیں؟ کیا مزید ایسی تصاویر کا ذخیرہ بھی اُن کے پاس ہے جن کے مطالعے (مشاہدے) سے عمران خان کی نہایت ہی خلوت میں بسر ہونے والی زندگی کے بارے حقائق معلوم ہوسکیں؟ کیا ریحام خان اپنی ’آپ بیتی‘ کی دوسری اشاعت (نئے ایڈیشن) میں مزید تصاویر اور تفصیلات کو وضاحت سے بیان کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟

عمران خان کی نجی زندگی سے متعلق ریحام خان کی کتاب 365 صفحات پر مشتمل ہے‘ جو 30 ابواب پر مشتمل ہے۔ صفحہ 311 سے 365 تک کا حصہ تصاویر پر مشتمل ہے جو تحریری ابواب میں اضافہ ہے۔ یہ کتاب الیکٹرانک طور پر ایمازون (Amazon) نامی ادارے کے ذریعے فروخت کے لئے پیش کی گئی ہے جس کی قیمت قریب 10 امریکی ڈالر یعنی پاکستانی بارہ یا تیرہ سو روپے بنتی ہے۔ برطانیہ میں اِسے کتابی شکل (Hard Copy) میں بھی جاری کیا گیا ہے لیکن اِس کتاب نے پاکستانی سیاست میں جس قدر ہنگامہ برپا کرنا تھا‘ وہ نہیں کر سکی یعنی کتاب کی اشاعت سے جو مقصد حاصل ہونا تھا وہ نہیں ہوسکا کیونکہ 12جولائی کو ’آن لائن (منظرعام)‘ پر آنے والی اِس کتاب پر ’نواز شریف اور مریم نواز‘ کی وطن واپسی اور گرفتاری جیسے موضوعات حاوی ہیں۔ 

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریحام خان (مصنفہ) کی ’’ریحام خان‘‘ نامی کتاب تحریر کرنے اور اِسے عام انتخابات سے قبل شائع کرنے میں مسلم لیگ (نواز) کی دلچسپی و سرپرستی ’شامل حال‘ رہی ہے‘ جو اِن الزامات حتی کہ اپنی طلاق (عمران خان سے علیحدگی) کے عوض 8 کروڑ روپے کی وصولی سے بھی انکار کر چکی ہیں۔ 

کتاب کی سب سے خاص بات عمران خان کے بارے میں ریحام خان کے تجزیئے ہیں بلکہ پے در پے اور غیرمحتاط تجزئیات پریشان کن حد تک یک طرفہ ہیں۔ مثال کے طور پر ’’عمران خان ایک ایسا شخص ہے جس سے ہر کوئی (اپنے مقاصد کے لئے) استعمال کر چکا ہے۔ (صفحہ 294)‘‘ اِسی صفحے پر مزید لکھا ہے کہ ’’عمران خان وزیراعظم بننے کی حوص میں اندھا ہو چکا ہے۔‘‘ اور یہ کہنا کہ ’’عمران خان کی عادت ہے کہ وہ سنجیدہ نوعیت کی باتیں بھی اپنے ذاتی ٹیلی فون نمبر کے ذریعے کرتا ہے اور بار بار میرے سمجھانے کے باوجود بھی اپنی اِس عادت سے باز نہیں آتا۔‘‘ تو اِس کا جواب ’تحریک انصاف‘ کی جانب سے یہی آ سکتا ہے کہ عمران خان کوئی جاسوس نہیں اور نہ ہی اپنی نجی اور سیاسی زندگی میں کچھ بھی پوشیدہ رکھنے کی اُسے (دروغ گوئی کی) ضرورت ہے۔ یقینی بات ہے کہ عمران خان کا ماضی جو بھی تھا‘ اُس کا حال اُور مستقبل مختلف دکھائی دے رہے ہیں لیکن اِس پوری کہانی (کتاب و انتساب) کے بعد ریحام خان کہاں کھڑی ہے؟ ریحام خان نے عمران خان پر اُنگلیاں اٹھانے کی کوشش (شوق) میں اپنے آپ کو ہی مشکوک بنا دیا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment