Thursday, July 12, 2018

July 2018: Is the Peshawar, a priority in GE2018?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
انتخابات: پشاورہے ترجیح!؟
قومی سیاست اُور عام انتخابات میں ’’پشاور شہر‘‘ نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا اور پشاور کی دلچسپی ہی عام انتخابات کو گرمجوش یا سرد بناتی ہے لیکن بدقسمتی سے حملہ آوروں کا نشانہ بننے والا یہ جنوب مشرق ایشیاء کا زندہ تاریخی شہر آج بھی خاطرخواہ توجہ اُور (حسب آبادی) ترقیاتی کاموں سے محروم ہے۔ 

پشاور کی سب سے بڑی ضرورت امن و امان کی بحالی ہے۔ آبادی کے تناسب سے پولیس اسٹیشنوں کی تعداد میں اضافے کا مسلسل مطالبہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا جاتا ہے کیونکہ پشاور ترجیح نہیں۔ تین اطراف قبائلی علاقوں میں گھرے پشاور میں سال 2013ء سے سال 2017ء کے درمیان مختلف دہشت گرد کاروائیوں میں 929 افراد جاں بحق جب کہ ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے‘ پشاور میں گزشتہ پانچ برس کے دوران 149بم دھماکے اور 22خودکش حملے ہو چکے ہیں! جس کا نشانہ بننے والے اُن زخمیوں کی زندگی کس کرب سے گزر رہی ہے جو محتاجی اور معذوری سے گزر رہے ہیں!

پشاور کے مسائل کا ذکر کرنے سے پہلے یہاں آبادی کی اُس تقسیم کو نہایت ہی باریک بینی سے سمجھنا ضروری ہے جس میں دانستہ طور پر شہری علاقوں کی اہمیت کم اور دیہی علاقوں کو بالادست رکھا گیا ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں قومی اسمبلی کے پانچ اِنتخابی حلقوں کی مجموعی آبادی ’’42 لاکھ (شہری ’19 لاکھ‘ دیہی ’23 لاکھ)‘‘ میں رجسٹرڈ ووٹرز 17 لاکھ (سات لاکھ خواتین اور 10 لاکھ مرد ووٹرز) ہیں۔ این اے 27 سے 31 اُور پی کے 66 سے 79 تک کے اِن حلقوں میں اکثریت دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ این اے ’29‘ سے ’31‘ تک تین قومی اسمبلی کے حلقوں کا بڑا حصہ دیہی آبادی ہونے کی وجہ سے پشاور شہر کے مسائل اور یہاں کے رہنے والوں کی پریشانیوں پر دیہی علاقے کی ترقیاتی ضروریات و ترجیحات حاوی دکھائی دیتی ہیں! پشاور کی حدود میں 30 نجی اور 20 سرکاری بڑی علاج گاہیں جبکہ 52ڈسپینسریاں ہیں اور اگر ہم 2013ء کے عام انتخابات سے 2018ء کا موازنہ کریں تو اِس عرصے کے دوران پشاور 2 نئے سرکاری ہسپتالوں کا اضافہ ہوا۔ اِسی طرح شعبۂ تعلیم کے لحاظ سے بھی پشاور کا معیار قدرے بہتر ہے اور قومی سطح پر 155 اضلاع میں پشاور 64ویں نمبر پر ہے!

کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) کو یکجا اور ٹھکانے لگانا نہایت ہی آسان لیکن اِسے اِس قدر پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ گندگی کے ڈھیر ہر علاقے میں یہاں وہاں نظر آتے ہیں۔ پینے کے پانی کی اندرون شہر (بوسیدہ) پائپ لائنوں سے ترسیل کا نظام نصف صدی پرانا ہے‘ جس میں جان ڈالنے کے لئے وقتاً فوقتاً ٹیوب ویلوں کا اضافہ آبادی کی ضروریات کے لئے نہیں بلکہ سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔ پشاور کی ضروریات کو سیاسی رنگ کس نے دیا اُور کیوں دیا‘ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ شہر کے بلندترین مقام ’’گورگٹھڑی (تحصیل)‘‘ کے گردوپیش میں 14ٹیوب ویل نصب کرنے والوں نے اگر متعلقہ ماہرین کی ’وارننگ‘ نظرانداز کی تو اِس کا مقصد گورگٹھڑی پر قبضہ کرنا تھا‘ جو محکمۂ آثار قدیمہ کی مستعدی سے نہیں ہونے دیا گیا۔ پشاور کے شہری علاقے پانی کی بدترین قلت اور شہری بے روزگاری سے پریشان ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ پشاور پر حکومت کرنے والے دیگر اضلاع کے لوگوں کو سرکاری ملازمتوں میں اِس حد تک مقررہ کوٹے سے زائد ملازمتیں دی گئیں کہ ہر صبح پشاور ملازمین کئی بسوں میں سوار آتے‘ جنہیں سیکرٹریٹ اور دیگر محکموں میں حاضری کرتے ہی واپسی کی فکر لاحق ہوتی اور وہ دفتری اوقات کا آغاز و اختتام اپنے گھروں سے کرتے ہیں! سرکاری محکموں میں بائیومیٹرک حاضری نہ ہونے کی بڑی وجہ بھی ایسے ہی ’سیاسی ملازمین‘ کو تحفظ دینا ہے جو دیگر اضلاع سے یومیہ آمدورفت کرتے ہیں!

پشاور میں تجاوزات اور ٹریفک اپنی مثال آپ لیکن انتخابی نعرہ نہیں۔ سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے آج تک انسداد تجاوزات کی کاروائیاں مکمل نہ ہو سکیں۔ نئی حکومت کے لئے یہی سب سے بڑ چیلنج ہوگا۔ تین اطراف سے قبائلی علاقہ جات میں پھنسے پشاور کی سیاست پر تین پختون قبائل کی چھاپ واضح ہے۔ داود زئی‘ خلیل اور مومند قبیلے کے بااثر افراد اپنے نام کے ساتھ ارباب لگاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پشاور میں برادری سے تعلق رکھنے والا ووٹ اثر رکھتا ہے اور عمومی طور پر برادری کی نسبت سے نامزد افراد کو ووٹ دینا ہی پسند کیا جاتا ہے۔ شہری حدود میں ہندکو زبان بولنے والے افراد شہری نمائندوں کو ووٹ دیتے ہیں لیکن ایسے انتخابی اُمیدوار بھی ہیں‘ جو پختونوں اور شہریوں کے لئے یکساں قابل قبول ہیں۔ محمد زئی‘ یوسف زئی‘ اعوان (ملک)‘ مہمند‘ خواجہ‘ صدیقی‘ بخاری‘ گیلانی‘ قریشی اور دیگر برداریاں اپنے اپنے حلقوں میں محدود نفوس رکھتی ہیں۔

پشاور کا سب سے اہم انتخابی حلقہ این اے 31 (ماضی میں ’’این اے ون‘‘) پختونوں کی اکثریت کے ساتھ ہندکو زبان بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ لسانی بنیاد پر تقسیم اِس حلقے میں پختونوں کی حمایت کے بغیر ہندکووان اور ہندکووانوں کی حمایت کے بغیر پختون کامیاب نہیں ہو سکتے‘ تاہم اِس مرتبہ (دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات) میں ’پاکستان ہندکووان تحریک‘ نے کم سے کم ارتعاش تو پیدا کر ہی دیا ہے‘ جو ایک نپی تلی شعوری کوشش ہے۔ اگر دلچسپی برقرار رہی تو آنے والے دنوں میں ہندکوانوں کا یہ اتحاد تحریک انصاف کے ووٹ بینک کو متاثر کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ’اے این پی‘ ایسے تمام گروہوں کو پسند کرتی ہے‘ جو ہندکووانوں کے ووٹ بینک کو تقسیم کردے۔ اس حلقے میں سوائے عوامی نیشنل پارٹی کے کوئی دوسری پارٹی ایک سے زائد بار نہیں جیت سکی! 

دوہزارتیرہ کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان یہاں سے کامیاب لیکن ضمنی انتخاب میں غلام احمد بلور نے دیگر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے انتخابی اتحاد اور تحریک انصاف کے اندر گروپ بندی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مقابلہ جیت لیا‘ لیکن صرف انتخابی کامیابی (الیکشن منیجمنٹ) ہی کافی نہیں ہوتی۔ کسی حلقے کے ’ووٹ بینک‘ کا دلی تعلق پشاور سے جوڑنے اور پشاور کی ترقی کا چیلنج قبول کرنا بھی اہم ہوتا ہے۔ 

ایک موقع پر جب بشیر احمد بلور کا وزیراعلیٰ بننا ممکن بھی تھا اور قریب بھی‘ تب ’ولی باغ‘ نے ’بلور ہاؤس‘ کی قربانیوں کے مقابلے جوانسال عزیز کا انتخاب کیا‘ جس کا دکھ بشیربلور کو ہمیشہ رہا۔ 

اگر ’اے این پی‘ سے بلور خاندان کی مالی و سیاسی معاونت اور بالخصوص پشاور کی حمایت کو منہا کر دیا جائے تو باقی جو کچھ بھی بچتا ہے وہ کافی نہیں رہتا۔ دس جولائی کی شب خودکش حملے نے ’بلور خاندان‘ کو ایک مرتبہ پھر سوگوار کر دیا ہے‘ جنہیں ایام غم کے بعد سنجیدگی سے ’پشاور اتحاد‘ کے بارے میں سوچنا چاہئے کیونکہ اگر اُن کی پہچان پشاور ہے‘ اُنہوں نے اپنی عزیزوں کو پشاور کی خاک کے سپرد کیا ہے تو پھر ذاتی دلچسپی کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے سیاسی اور سماجی تعلق بھی پشاور ہی کے نام کردیں۔ پشاور کو ایک ایسے وسیع البنیاد اتحاد (نمائندگی و سرپرستی) کی ضرورت ہے‘ جس میں نسلی لسانی گروہی اور قبائلی حوالوں جیسی ترجیحات پر پشاور حاوی نظر آئے۔ ’’پشاور تھا خوشیاں: پشاور تھا سکھ ۔۔۔ نظر لگ گئی ہے‘ نظر لگ گئی ہے ۔۔۔ یہ دہشت‘ یہ صدمے‘ پشاور کے دکھ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments:

Post a Comment