Monday, August 20, 2018

Aug 2018: NEGLECTED sector, the "Social Security" in Pakistan!

شبیرحسین امام
نیاپاکستان: ریاست کا فلاحی کردار!
پاکستان میں غربت کے کئی پہلو ہیں اور اِس ناتوانی کا جائزہ جس کسی پہلو سے بھی لیا جائے زیادہ بھیانک و پرسرار چہرہ (محرک) سامنے آتا ہے۔ معاشرے کو طبقات میں تقسیم کرکے غربت سے دوچار رکھنے میں والوں میں سیاسی فیصلہ سازوں کے شانہ بشانہ ذمہ دار سرکاری ملازمین (افسرشاہی) بھی ہے جنہوں نے پاکستان سے وفاداری کا حلف تو اٹھایا لیکن اِس حلف کی پاسداری نہیں کی۔ پاکستان تحریک انصاف کے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ تبدیلی اور اصلاحات کے ’انقلابی لائحہ عمل (ایجنڈے)‘ متعارف کروائے لیکن اِس سے قبل ’بیوروکریسی‘ کا قبلہ درست کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کو حاصل مالی و انتظامی اختیارات میں کمی نہ لائے۔ حکومت ملازمتیں دینے والی ایجنسی کا نام نہیں ہوتا بلکہ عوام کے ٹیکسوں اور بہبود کے لئے مختص مالی وسائل سے ملازمین اِس لئے رکھے جاتے ہیں تاکہ وہ عوام کی خدمت کریں تو کیا عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے؟ سرکاری اداروں سے بدعنوانی اُس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک اِس بدعنوانی کے امکانات (صوابدیدی اختیارات) پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا‘ جب تک کارکردگی کو ملازمت سے مشروط نہیں کردیا جاتا جو کہ ’’ناگزیر ضروریات‘‘ ہیں۔

غربت کے بارے میں حکومت پاکستان کے مرتب کردہ اعدادوشمار کو مستند مان لیا جائے جنہیں ماہرین کم بتاتے ہوئے اختلاف رکھتے ہیں تب بھی صورتحال ناقابل یقین حد تک خراب ہے۔ حالیہ سالانہ اِقتصادی جائزہ ’اکنامک سروے آف پاکستان (2017-18ء)‘ کے مطابق ’’پاکستان کی ایک چوتھائی آبادی (5 کروڑ لوگ) خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں یعنی پاکستان میں پانچ کروڑ لوگ ایسے ہیں جنہیں صرف ایک وقت کا کھانا بمشکل میسرآتا ہے۔ اِس کے علاؤ ہ38.8 فیصد لوگ ایسے ہیں جنہیں مختلف پہلوؤں سے غربت کا سامنا ہے یعنی اُن کا رہن سہن ایسا ہے کہ اُس میں تعلیم و صحت اور سہولیات سمیت کچھ بھی معیاری نہیں۔ یوں مجموعی طور پر پاکستان کی ’’88.8 فیصد‘‘ آبادی کسی نہ کسی صورت غربت سے دوچار ہے۔ غربت زدہ اور غریب متوسط طبقات کی اکثریت دیہی علاقوں میں آباد ہے‘ جہاں کی معیشت و معاشرت کا انحصار زراعت پر ہے اور ایک عرصے سے زراعت وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ترجیح نہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں‘ پانی کی قلت اور پیداواری اخراجات میں اضافے کی وجہ سے زراعت منافع بخش بھی نہیں رہی!

اقوام متحدہ کی جانب سے سال 2030ء تک رکن ممالک سے جس ایک چیز کا ترجیحی بنیادوں پر خاتمہ کرنے کی حکمت عملی (ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز اور بعدازاں ساسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز) وضع کئے گئے اُن میں سرفہرست غربت کا خاتمہ ہے‘ جس کے لئے تجویز کیا گیا ہے کہ حکومتیں ’سماجی و اقتصادی بہبود (سوشل پروٹیکشن)‘ کے ذریعے غربت زدہ خاندانوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں‘ اُن کی روزمرہ ضروریات پوری کی جائیں اور تعلیم و صحت تک سب کو یکساں رسائی دی جائے۔ اِس سلسلے میں ریاست کے فلاحی کردار پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے اور اگر اقوام متحدہ کے وضع کردہ (پائیدار ترقی کے) اہداف کا یہ بنیادی نکتہ سمجھ لیا جائے تو باقی ماندہ کام آسان ہو جاتا ہے کہ ’’ریاست (حکومت) کا کام فلاح اور سماجی تحفظ ہونا چاہئے۔‘‘ کیا پاکستان میں کوئی ایک بھی حکومت عام آدمی (ہم عوام) کے ’’سماجی تحفظ‘‘ کے لئے فکرمند دکھائی دی؟ اور کیا تبدیلی و ترقی کا کارواں کسی بھی طرح منزل تک پہنچ پائے گا جبکہ آبادی کا بڑا حصہ بہت پیچھے رہ گیا ہے اور اُس میں قدم اٹھانے کی بھی سکت نہ رہی ہو!؟

دنیا کے 149 ممالک میں سے صرف غریب ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی حکومتوں کی جانب سے کم آمدنی رکھنے والے طبقات کی ’’مالی مدد‘‘ کی جاتی ہے اور پاکستان میں ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ بھی اُنہیں عالمی کوششوں کا تسلسل ہے جس کے ذریعے انتہائی غریب اور کم آمدن والے طبقات کا معیار زندگی بلند کرنے کی محدود کوشش کی گئی۔ 

تحریک انصاف کے مقرر کردہ انتخابی اہداف (وعدوں) میں سماجی تحفظ کی فراہمی اور فلاحی ریاست کا قیام شامل رہا اور چیئرمین عمران خان انتخابی جلسوں میں جس ’مدینۃ المنورہ‘ کا ذکر کرتے رہے ہیں جس کی مثالیں آج کے ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ بڑھ چڑھ کر ہیں‘ جہاں ریاست کے پاس وسائل کی ہر پائی عوام کی بہبود پر خرچ ہوتی اُور حکمراں خود کو عوام کا خادم سمجھتے ہوئے ریاستی وسائل سے ’نمود و نمائش‘ اختیار نہ کرتے تھے۔ تحریک انصاف کے لئے ممکن ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو وسعت دے جو کہ انتظامی طور پر کم خرچ حل ہوگا لیکن اگر ایک نیا پروگرام شروع کیا گیا تو اِس کے انتظامی معاملات پر اٹھنے والے اخراجات اضافی بوجھ ہوں گے۔ 

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا 10 سالہ عرصہ کامیابیوں اور ناکامیوں کا مجموعہ ہے۔ سیاسی جماعتوں (پیپلزپارٹی اور نواز لیگ) نے اِس پروگرام سے انتخابی فوائد حاصل کرنے کو زیادہ اہم سمجھا۔ اراکین اسمبلیوں کے ذریعے کارڈ تقسیم کئے گئے جن کی ایک بڑی تعداد آج بھی انتہائی غریبوں یا مستحقین کے علاؤہ اُن لوگوں کے پاس ہے جہاں یہ نہیں ہونے چاہئے تھے۔ کیا تحریک انصاف ’بینظیرانکم سپورٹ پروگرام‘ کی مالی امداد میں اضافے سے پہلے ’کلب ممبروں‘ کا حساب کتاب کرے گا؟ 

یہی سبب رہا کہ قریب 2 کروڑ 70 لاکھ افراد کی مالی معاونت کرنے کے باوجود بھی مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو رہے اور نہ ہی خود حکومت کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 5 کروڑ ’’انتہائی غریب‘‘ اَفراد ہی اِس منصوبے سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اب تک کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ مالی معاونت و استعانت سے غربت کی دلدل میں پھنسے خاندانوں کو وقتی فائدہ تو ہوتا ہے لیکن وہ آمدنی کے لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا مالی وسائل بنیادی تعلیم سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک وسیع کرنا ہوں گے تاکہ غربت سے سمجھوتہ نہیں بلکہ اُسے شکست دی جا سکے۔ اِس سلسلے میں کئی ممالک کے تجربات اور اُن سے حاصل کردہ نتائج موجود ہیں کہ جہاں حکومتوں نے غریب اور کم آمدنی رکھنے والے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کی تعلیم میں سرمایہ کاری کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ نہ صرف غربت سے رہا ہوگئے بلکہ اُنہوں نے معاشرے کے دیگر غریبوں کے لئے بھی آسانیاں پیدا کیں۔ دراصل تعلیم میں سرمایہ کاری ہی ایک روشن مستقبل اور نئے پاکستان کی نوید بن سکتی ہے۔
۔
https://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=abbotabad&page=20&date=2018-08-20

https://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=abbotabad&page=20&date=2018-08-20

No comments:

Post a Comment