Monday, August 20, 2018

Aug 2018: FYI: Honorable "Speaker National Assembly!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اسپیکر قومی اسمبلی کے نام!
انتخابات بعدازانتخابات کامیابیوں کے علاؤہ خیبرپختونخوا‘ اسمبلی سے اسپیکر قومی اسمبلی تک کے سفر میں 48 سالہ ’اَسد قیصر (پیدائش: 15نومبر1969ء)‘ نے جس مثالی ’’کردار اور کارکردگی (سمجھ بوجھ)‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے‘ اُسے مدنظر رکھتے ہوئے اُمید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی وہ ’نئی ذمہ داریاں‘ حسب سابق ’’خوش اسلوبی‘‘ کے ساتھ سرانجام دیں گے اُور بطور اسپیکر خیبرپختونخوا‘ اسمبلی بطور خاص جس طرح اُنہوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اُن کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سہولیات فراہم کیں اُور جس طرح شفقت کا مظاہرہ کیا‘ اُسے جاری اور رہی سہی کسر نکالتے ہوئے 

1: خیبرپختونخوا و ملک کے دیگر حصوں سے صحافیوں کو مدعو کریں گے تاکہ وہ قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹیوں اجلاسوں میں بطور مبصر شریک ہو سکیں۔ 
2: طلباء و طالبات کے لئے مستقل بنیادوں پر قومی اسمبلی اجلاسوں کے مطالعاتی دورے ترتیب دیئے جائیں گے‘ تاکہ جمہوری پارلیمان کے طریقۂ کار اور قانون سازی کے عمل سے متعلق نئی نسل کے تصورات واضح ہوں اُور 
3: پارلیمینٹ ٹیلی ویژن چینل کا بوساطت ’پی ٹی وی‘ سیٹلائٹ یا انٹرنیٹ پر فوری اجرأ کریں گے۔ اِن تین اصلاحاتی اقدامات سے عوام کے لئے قانون ساز ایوان میں سیاسی جماعتوں کی کارکردگی جاننے کا موقع میسر آئے گا۔ 

ایسا کرنا بالخصوص موجودہ حالات میں اِس لئے بھی ضروری ہیں کیونکہ آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کے مقابلے میں حزب اختلاف (پیپلزپارٹی اور نواز لیگ) اِرادہ (عزائم) رکھتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں ’بھرپور احتجاج‘ کی صورت حکومت کے اصلاحاتی و تبدیلی کو عملی جامہ پہنانے کے کام کاج میں رکاوٹ بنے گی اور اگر اِس موقع پر عام آدمی (ہم عوام) کو ’عینی شاہد‘ بنا لیا جائے تو اِس سے آئندہ عام انتخابات کے موقع پر تحریک انصاف کو اپنی کارکردگی کے دفاع میں زیادہ کچھ کہنا نہیں پڑے گا اور خاطرخواہ آسانیاں پیدا ہوں گی۔

پاکستان کی 15ویں قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں ’تین بنیادی‘ کام ہوئے۔ نومنتخب اَراکین نے بطور رکن اسمبلی حلف لیا۔ اراکین نے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کیا اور قائد ایوان کا انتخاب عمل میں آیا۔ اِن تینوں کاموں کے لئے الگ الگ دن مقرر تھے‘ جس کے لئے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے مہمانوں کے لئے طے شدہ طریقے کے مطابق کارڈز جاری کئے لیکن چونکہ کارڈز جاری کرنے کا عمل ’اسپیکر آفس‘ کے ماتحت ہوتا ہے اور ’تحریک انصاف‘ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کی انتظامی نگرانی (اسپیکر) مقرر ہوئی ہے‘ اِس لئے حسب توقع ’نئے مہمانوں‘ کو اجازت نامے حاصل کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔ 

لمحۂ فکریہ ہے کہ قومی اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے کے لئے اجازت نامے (Passes) حاصل کرنے والوں کے کوائف (ڈیٹابیس) نہیں کئے جاتے‘ بس وقتی طور پر کام چلایا جا رہا ہے۔ اصولی طور پر یہ عمل ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ سے منسلک ہونا چاہئے جس طرح بینک اکاونٹ کھلوانے کے لئے نجی بینکوں اور مالیاتی اداروں کو نادرا سے کوائف کی جانچ پڑتال کا اختیار و سہولت دی گئی ہے‘ یہی سہولت قومی اسمبلی کو حاصل ہے لیکن اِس کا استعمال ’وزیٹرز گیلریز‘ کے لئے اجازت ناموں کے لئے نہیں کیا جاتا۔ اِس پورے نظام کو مربوط کرنے کی ضرورت ہے اور کسی بھی نشست پر کسی کا حق نہ ہو بلکہ ہر خاص و عام کو آن لائن درخواست دینے کے ترجیحی طریقۂ کار کے مطابق کارڈ جاری ہونے چاہیءں۔ جس طرح چند حکمراں خاندانوں نے پورے ملک کے وسائل اپنے لئے مخصوص کر رکھے ہیں بالکل اُسی طرح ’خودساختہ وی آئی پیز‘ نے قانون ساز ایوانوں کی مہمان گیلریوں پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ 

وقت ہے کہ قومی اسمبلی سے تجاوزات کا خاتمہ کرتے ہوئے آن لائن ’ڈیٹابیس‘ کے ذریعے مہمانوں کی گیلریوں کے اجازت نامے جاری کئے جائیں‘ جس کے لئے ’اسمبلی سیکرٹریٹ‘ ذرائع ابلاغ اور اپنی ویب سائٹ (na.gov.pk) پر تاریخوں کا اعلان کر سکتا ہے اور قومی اسمبلی کی اپنی موبائل ایپ (mobile app) لانچ کرنے کا اعزاز بھی ’اسپیکر اسد قیصر‘ ہی کو ملنا چاہئے۔ چونکہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ’حاضر سروس ملازمین‘ کی بڑی تعداد گذشتہ 30 سال میں بھرتی ہوئی ہے اور اُن کی سیاسی وابستگی اور ہمدردیاں اِن تین دہائیوں کے حکمراں ’’نواز لیگ و پیپلزپارٹی‘‘ کے ساتھ ہیں‘ اِس لئے نئی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں شرکت کے لئے اجازت ناموں میں امتیاز برتا گیا۔ گراؤنڈ فلور کی گیلریاں مختلف عہدیداروں کے نام سے مخصوص ہیں‘ جن کے پاسیز ’وی آئی پی‘ اراکین کی مرضی سے جاری ہوتے ہیں۔ 

اصولی طور پر قومی اسمبلی ایوان کی ہر گیلری اور مہمانوں کی ہر نشست ’بحق عوام‘ محفوظ ہونی چاہیءں‘ جن پر اسپیکر‘ ڈپٹی اسپیکر‘ قائد حزب اختلاف‘ پارلیمانی پارٹیوں کے لیڈروں اور دیگر کا صوابدیدی استحقاق ختم کر دیا جائے۔ موجودہ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں جس طرح اسمبلی عملے نے اپنے ماضی کے آقاؤں کو خوش کیا اُس کی تحقیقات ضروری ہیں۔ کارڈز جاری کرنے والے عملے میں ردوبدل بھی ناگزیر حد تک ضروری ہے۔ قومی اسمبلی ملازمین کی کل تعداد کتنی ہے؟ 

قومی اسمبلی کے اخراجات کا حساب کتاب (آڈٹ) جو گذشتہ کئی سال سے نہیں ہوا‘ لیکن یہ لازماً ہونا چاہئے تاکہ تحریک انصاف کے دور میں اختیار کی گئی سادگی کا موازنہ ماضی سے کیا جا سکے۔ جب ہمیں یہ معلوم ہیں نہیں ہوگا کہ ماضی میں قومی اسمبلی کے اخراجات کیا تھے اور اُن میں ہر سال کس شرح سے اضافہ کیا جاتا رہا‘ تو پھر کس بنیاد پر کہا جائے گا کہ تحریک انصاف نے قومی وسائل کی بچت کی؟ 

پی آئی اے کی طرح اِسمبلی ملازمین بھی ادارے پر بوجھ ہیں‘ ہر کونے اور ہر سیڑھی پر رہنمائی کرنے کے لئے ملازمین تعینات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں جبکہ جا بجا بورڈز لگے ہوئے ہیں۔ مہمانوں کو جاری کئے جانے والے کارڈز کے رنگ اور اُن رنگوں کی زمین پر پٹیاں لگا کر باآسانی رہنمائی کی جا سکتی ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ قومی اسمبلی ایوان کے ملازمین کی تعداد فی رکن کی تعداد سے زیادہ نہ ہو لیکن اگر ایسا ممکن نہیں تو فی رکن 2 ملازمین سے زیادہ کسی بھی صورت نہیں ہونے چاہیئں۔ چائے پانی تقسیم کرنے والے ملازمین کی تو قطعی گنجائش موجود نہیں اور 
قومی اسمبلی ایوان میں نجی بینک کی بجائے قومی ’نیشنل بینک‘ کی شاخ قائم ہونی چاہئے۔ اراکین اسمبلی کے بینک اکاونٹس اُوراُنہیں دی جانے والی جملہ ادائیگیاں بذریعہ ’نیشنل بینک‘ ہونی چاہیئں۔ اسپیکر ’اسد قیصر‘ اگر کام کرنا چاہیں تو وہ ’قومی اسمبلی‘ کی تاریخ میں ’’ایک ہیرو‘‘ کا مقام حاصل کر لیں گے اور عمران خان کو ایسے ’ستاروں‘ کی ضرورت ہے جو اپنے اپنے محاذ پر اُن کی تبدیلی اور اصلاح کے پروگرام کو عملاً لاگو کریں۔
۔
https://epaper.dailyaaj.com.pk/epaper/pages/1534694162_201808192814.gif 
https://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=abbotabad&page=20&date=2018-08-20



No comments:

Post a Comment