ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
برن ہال: والدین کی تشویش!
قیام پاکستان (1947ء) کے بعد جہاں مسلمانوں نے ’مذہبی سیاسی سماجی اُور ثقافتی آزادی‘ کے لئے سفر (ہجرت) اختیار کیا وہیں غیرمسلموں کی ایک تعداد نے بھی ’اسلامی جمہوریہ‘ کو اپنے ’جان و مال اُور مذہبی حقوق و آزادی‘ لئے زیادہ محفوظ سمجھا۔ اِسلام کے پیروکاروں پر بھروسہ کرنے والے ایسے غیرمسلموں میں ’عیسائی مذہب‘ کے پیروکار بھی شامل تھے‘ جن کے ایک گروہ میں درس و تدریس کے ماہرین نے کشمیر (سرینگر) میں قائم تعلیمی ادارے ’برن ہال‘ کو پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے (حال خیبرپختونخوا) کے ضلع ’ایبٹ آباد‘ منتقل کیا اُور ایسا کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ برطانوی دور میں ’ایبٹ آباد‘ کی تعمیروترقی اور اِس وادی کو چھاؤنی کے علاؤہ باسہولت شہری علاقہ بنانے میں ’جنرل سر جیمز اِیبٹ (پیدائش 12 مارچ 1807ء: وفات 6 اکتوبر 1896ء)‘ نے خاص دلچسپی لی تھی‘ جس کی وجہ سے نہ صرف اِس شہر کا نام آج تک اُن سے منسوب ہے بلکہ انتظامی و شہری ترقی سے متعلق اُن کی مہارت کے چرچے برصغیر کے طول و عرض میں عام تھے۔ یہی وجہ رہی کہ مسیحی ماہرین تعلیم جن میں زندگی اِنسانی خدمت کے لئے وقف کرنے والی عبادت گزار (مشنری) خواتین بھی شامل تھیں‘ نے ایبٹ آباد کا اِنتخاب کیا اُور یہاں آ کر حکومت سے ’اِجارے (لیز)‘ پر زمین حاصل کی اُور ’برن ہال‘ کے نام سے اِدارہ قائم کیا‘ جس کی آج 2 شاخیں قدیمی ۔شاخ (برائے طالبات) اور نئی شاخ (برائے طلباء) فوج کے ’ایجوکیشن کور‘ کی زیرنگرانی فعال ہیں
قیام پاکستان کے وقت جان و مال سے قربانیاں دینے والے ’عیسائی مشنریوں‘ کی خدمات کو خراج تحسین اور تاحیات زندہ رکھنے کی بجائے ’برن ہال‘ نامی تعلیمی اداروں کو اجارے (لیز) کی مدت مکمل ہونے کے بعد ضبط کر لیا گیا۔ وہ مسیحی جو جنت نظیر کشمیر کو چھوڑ کر ’ایبٹ آباد‘ ’’سکون‘ اَمن اُور اپنائیت‘‘ کی تلاش میں آئے تھے‘ تاکہ خواندگی کے ذریعے ’’پاکستان کی خدمت‘‘ کر سکیں لیکن اُن کی نسلوں کو سال 1977ء میں بیدخل کر دیا گیا۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ’’1948ء سے سال 1977ء‘‘ تک کا عرصہ ایک ایسا ’سنہرا دور‘ تھا کہ پورے پاکستان سے بچوں کو اِس ’بورڈنگ سکول‘ میں بھیجا جاتا تھا۔ ’انگلش پبلک سکول لائنز‘ سے ’برن ہال‘ تک کے سفر میں ’مسیحی مشنریوں‘ نے پاکستان سے محبت اور خلوص کی ایسی ’’عملی مثالیں‘‘ پیش کیں جن پر جس قدر بھی فخر کیا جائے کم ہے۔
برطانیہ کے کیتھولک چرچ کا ذیلی فلاحی ادارہ ’سینٹ جوزف سوسائٹی فار فارن مشنز (Saint Joseph's Society for Foregin Missions)‘ جسے عرف عام میں ’مل ہل مشنیریز (Mill Hill Missionaries)‘ یا ’مل ہال فادرز (Mill Hill Fathers)‘ بھی کہا جاتا ہے آج سے قریب 152 سال قبل (1866ء) میں قائم ہوا‘ اُور اِس کی خدمات دنیا کے ’4 براعظموں‘ میں پھیلی ہوئی ہیں‘ جن میں ایشیائی ممالک (کمبوڈیا‘ چین‘ بھارت اُور پاکستان) بھی شامل ہیں لیکن افسوس جس نقشے پر کبھی ’ایبٹ آباد‘ لکھا (mark) ہوتا تھا اب نہیں رہا۔ مسیحی مشنری اقلیت ہونے کی وجہ سے خود کو اِس قدر ’بے بس‘ اور سیاسی طور پر اِس قدر ’بے یارومددگار‘ پایا کہ اُن سے برن ہال چھین لیا گیا لیکن وہ خاموش رہے اور ہنستے مسکراتے رخصت ہو گئے!
’برن ہال‘ کے نام سے تعلیمی اِداروں کی ’ماہانہ ٹیوشن فیسوں‘ میں ’25فیصد‘ غیرمعمولی اضافہ ’بنیادی خبر‘ ہے جس کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ یہ اضافہ صرف جاری مہینے کے لئے نہیں بلکہ گذشتہ دو ماہ (ماہ جولائی و اگست) کے لئے کیا گیا ہے اُور سکول کی ماہانہ فیسوں کے ساتھ گذشتہ دو ماہ کی فیسیں بطور ’بقایاجات‘ کی مد میں اِدا کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے‘ جس پر ’والدین کی جانب سے تشویش‘ منطقی امر ہے۔ یاد رہے کہ برن ہال سکولوں کے نگران (چیئرمین) کورکمانڈر راولپنڈی (ٹینکور) لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر (ہلال امتیاز ملٹری) جبکہ معاون نگران (ڈپٹی چیئرمین) میجر جنرل اختر نواز ستی کمانڈنٹ ’پاکستان ملٹری اکیڈمی (کاکول) ہیں اُور فیسوں میں حالیہ ’’25فیصد‘‘ اِضافے (ردوبدل) کی منظوری جس ’’نگران فیصلہ سازوں کے بورڈ‘‘ نے دی ہے‘ جس کی سربراہی مذکورہ 2 اہم عہدوں پر فائز جرنیلوں نے دی ہے۔ ایک سے زیادہ فوجی اِعزازات رکھنے والے اِن نفوس عالیہ کی پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت شک و شبے سے بالاتر ہونے کے ساتھ‘ مشروط بھی نہیں کہ وہ اُور اُن کے اہل خانہ چونکہ دفاعی مد سے تنخواہیں اور مراعات پاتے ہیں‘ اِس لئے مجبوراً پاکستان کے وفادار ہیں لیکن اُن کی پیشہ ورانہ صلاحیتیں اور ماضی (خدمات) اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ پاکستانیوں کے بارے میں بھی سوچتے ہیں اور فوج کو منافع بخش اِدارے کے طور پر نہیں بلکہ ’حفاظت و خدمت‘ جیسی ضروریات و تقاضوں کے تحت ’اِستوار‘ رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔
دردمندی سے غور (نظرثانی) کی ضرورت ہے کہ ۔۔۔
1: برن ہال کے نام سے تعلیمی اِداروں کی ماہانہ فیسوں میں ’25فیصد‘ (حالیہ) اضافے سے ’پہلی کلاس‘ کے فی طالب علم کی اوسط ’ماہانہ فیس 10 ہزار روپے‘ سے تجاوز کر گئی ہے‘ جس سے بڑی کلاسیز کے زیرتعلیم بچوں کی شرح فیس میں اضافے کا بلند تناسب حیران کن ہے۔ کسی پبلک سکول (سرکاری اَراضی پر قائم) سکول کی شرح فیس نجی اِداروں سے بھی بڑھ جائے تو اِس پر تشویش کا اِظہار‘ والدین کا حق ہے۔
2: برن ہال سکولوں میں فوجی ملازمین اور سویلینز سے تعلق رکھنے والے بچوں سے یکساں درس وتدریسی سہولیات کے عوض الگ الگ شرح سے فیسیں وصول کی جاتی ہیں جبکہ سویلین ذہین ترین اور جسمانی طور پر ’توانا‘ بچوں کو چن چن کر داخلہ دیا جاتا ہے جبکہ فوج سے وابستہ ملازمین کے لئے ہر قدم پر رعایت (گنجائش) موجود ہے۔ صرف ماہانہ فیسیں ہی نہیں دیگر اخراجات بھی قابل غور ہیں‘ جنہیں مستقل بنیادوں پر ’’ماہانہ فیس بل‘‘ کا حصہ بنا دیا گیا بلکہ سکول انتظامیہ کے ’اِمتیازی رویئے‘ پر بھی تشویش کا اظہار والدین کا حق ہے۔ اگر سب پاکستانی ہونے کے ناطے ’مساوی حقوق‘ رکھتے ہیں تو یہ ’ہتک آمیز‘ اِمتیازی سلوک کیوں؟
وزیراعظم عمران خان‘ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ (بوساطت انٹرسروسیز پبلک ریلیشنز) سے مؤدبانہ درخواست (اِستدعا) ہے کہ برن ہال کی فیسوں‘ معیار تعلیم اُور امتیازی روئیوں کا نوٹس لیں اُور اِس ’اخلاقی پہلو‘ پر بھی غور کریں کہ ’برن ہال‘ کی امانت اُس کے اصل وارث (کتھولک چرچ) کو واپس دے دینی چاہئے۔
دردمندی سے غور (نظرثانی) کی ضرورت ہے کہ ۔۔۔
1: برن ہال کے نام سے تعلیمی اِداروں کی ماہانہ فیسوں میں ’25فیصد‘ (حالیہ) اضافے سے ’پہلی کلاس‘ کے فی طالب علم کی اوسط ’ماہانہ فیس 10 ہزار روپے‘ سے تجاوز کر گئی ہے‘ جس سے بڑی کلاسیز کے زیرتعلیم بچوں کی شرح فیس میں اضافے کا بلند تناسب حیران کن ہے۔ کسی پبلک سکول (سرکاری اَراضی پر قائم) سکول کی شرح فیس نجی اِداروں سے بھی بڑھ جائے تو اِس پر تشویش کا اِظہار‘ والدین کا حق ہے۔
2: برن ہال سکولوں میں فوجی ملازمین اور سویلینز سے تعلق رکھنے والے بچوں سے یکساں درس وتدریسی سہولیات کے عوض الگ الگ شرح سے فیسیں وصول کی جاتی ہیں جبکہ سویلین ذہین ترین اور جسمانی طور پر ’توانا‘ بچوں کو چن چن کر داخلہ دیا جاتا ہے جبکہ فوج سے وابستہ ملازمین کے لئے ہر قدم پر رعایت (گنجائش) موجود ہے۔ صرف ماہانہ فیسیں ہی نہیں دیگر اخراجات بھی قابل غور ہیں‘ جنہیں مستقل بنیادوں پر ’’ماہانہ فیس بل‘‘ کا حصہ بنا دیا گیا بلکہ سکول انتظامیہ کے ’اِمتیازی رویئے‘ پر بھی تشویش کا اظہار والدین کا حق ہے۔ اگر سب پاکستانی ہونے کے ناطے ’مساوی حقوق‘ رکھتے ہیں تو یہ ’ہتک آمیز‘ اِمتیازی سلوک کیوں؟
وزیراعظم عمران خان‘ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ (بوساطت انٹرسروسیز پبلک ریلیشنز) سے مؤدبانہ درخواست (اِستدعا) ہے کہ برن ہال کی فیسوں‘ معیار تعلیم اُور امتیازی روئیوں کا نوٹس لیں اُور اِس ’اخلاقی پہلو‘ پر بھی غور کریں کہ ’برن ہال‘ کی امانت اُس کے اصل وارث (کتھولک چرچ) کو واپس دے دینی چاہئے۔
No comments:
Post a Comment