Sunday, October 21, 2018

TRANSLATION: Moving forward by Dr. Farrukh Saleem

Moving forward
اِرتقائی مراحل!
بُری خبر یہ ہے کہ ۔۔۔ پاکستان کا وہ مالی خسارہ جو سال 2013-14ء کے دوران ’3.1 ارب ڈالر‘ تھا بڑھ کر ’18 ارب ڈالر‘ ہو چکا ہے۔ بجلی کے شعبے میں ’گردشی قرضہ‘ 1200 ارب روپے سے زیادہ ہے جس میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں 500 ارب اور بعدازاں نواز لیگ حکومت 700 ارب روپے کرکے آنے والی حکومت کو تحفہ دے دیا گیا۔

اِن حقائق سے انکار نہیں کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار مہنگی ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی بجلی کی ایک غیرمعمولی مقدار چوری ہو جاتی ہے اور قومی اداروں کے لئے فیصلہ سازی کرنے والے اکثر ذاتی مفادات کے اسیر (عادی) ہیں!

تحریک انصاف کو فوری طور پر تمام خسارے کا بوجھ برداشت کرنے کے علاؤہ مراعات بھی دینا ہوں گی جس کی وجہ سے بجلی کے نرخ بڑھائے گئے ہیں اور اِس سے حاصل ہونے والی رقم سے اُن گناہوں کا کفارہ ادا کیا جائے گا‘ جو ماضی کے حکمرانوں سے سرزد ہوئے ہیں۔ وسط مدتی اور طویل مدتی حکمت عملیوں کے لئے اہداف یہ ہیں کہ 1: بجلی کی پیداواری لاگت (فی یونٹ بجلی کی قیمت) میں کمی لائی جائے۔ 2: بجلی کے ترسیلی نظام کی خرابیاں دور کی جائیں‘ جس کی وجہ سے بجلی کی ایک خاص مقدار ضائع ہو جاتی ہے اور 3: بجلی کی چوری کا سدباب کیا جائے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف وسط مدتی اور طویل المدتی تین اہداف حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے؟ اِس کا جواب تو وقت ہی بتائے گا کہ تحریک انصاف نے ورثے میں ملے گھمبیر مسائل کا حل نکالنے کے لئے کس کس محاذ پر کتنی سنجیدگی سے عملی کوششیں کیں۔

ایک اُور بُری خبر یہ بھی ہے کہ ۔۔۔ گردشی قرضے کا سامنا حکومت کو صرف بجلی ہی کے شعبے میں نہیں کرنا پڑ رہا بلکہ گیس کے شعبے میں بھی 370 ارب روپے جیسا بڑا مالیاتی بوجھ حکومت کے کندھوں پر ہے! لائق توجہ ہے کہ اِس گردشی قرضے کا بڑا حصہ ’پاکستان مسلم لیگ (نواز)‘ کے آخری دور حکومت میں اختیار کی گئی حکمت عملی اُور فیصلوں کا نتیجہ ہے!

گیس کے ترسیلی نظام میں بھی خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے سال 2001ء میں ہونے والی قومی پیداوار کا ’7 فیصد‘ ضائع ہو جاتا تھا جس میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتے ہوئے یہ خسارہ 15فیصد سالانہ تک جا پہنچا ہے۔ عالمی سطح پر گیس کے ترسیلی نظام میں ضائع ہونے کی شرح 3 فیصد ہے۔ اب یہ تحریک انصاف کی ذمہ داری ٹھہری ہے کہ وہ ماضی کی حکومتوں میں ہونے والی گیس چوری اور ترسیلی نظام کی خرابیوں کی قیمت بھی ادا کرے اور ایسا کرنے کے لئے اِس کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں لیکن گیس قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ’تحریک انصاف‘ گیس کے شعبے میں گردشی قرضے اور گیس کے ترسیلی نظام میں خرابیاں دور کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی یا منصوبہ بندی رکھتی ہے۔ اگر رکھتی ہے تو کیا اُس پر عمل درآمد ہو رہا ہے؟ اِن سوالات کے جوابات بھی آنے والا وقت ہی دے گا کہ ’تحریک انصاف‘ بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی‘ ترسیلی نظام کی خرابی اور بجلی چوری کی طرح گیس کے ترسیلی نظام کی خرابیوں بشمول گیس چوری کا سدباب کس حد تک کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔

اب تک 3 بُری خبریں سنائی گئیں جو پاکستان کا مالی اور بجلی و گیس کے شعبے میں خسارے سے متعلق تھیں۔ اب اچھی یہ ہے کہ حکومت نے مختلف پیداواری شعبوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے جامع اور سوچی سمجھی حکمت عملیاں وضع کی ہیں۔ پہلی ترجیح برآمدات میں اضافہ ہے۔ پاکستان ’ٹیکسٹائل‘ کے شعبے میں سب سے زیادہ (دو تہائی) برآمدات کرتا ہے اِس لئے حکومت نے ٹیکسٹائل کے شعبے کے لئے الگ گیس نرخوں کا اعلان کیا ہے۔ نئے نرخوں کا اطلاق ٹیکسٹائل کے علاؤہ قالین بافی‘ چمڑے کی صنعتوں‘ کھیلوں کا سامان بنانے کی صنعتوں اُور سرجری آلات کی صنعتوں پر ہوگا۔ اِن صنعتوں کو ترجیحی بنیادوں پر گیس کی فراہمی بھی کی جائے گی۔ اِس سلسلے میں ’آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن پنجاب‘ کے چیئرمین عادل بشیر کا یہ بیان لائق توجہ ہے جنہوں نے کہا کہ ’’حکومت کی جانب سے سستی اور مسلسل گیس کی فراہمی سے ٹیکسٹائل کا شعبہ فعال چھ ماہ کے اندر فعال ہو جائے گا۔‘‘

برآمدات میں اضافے کے لئے اقدامات کے بعد حکومت کی دوسری ترجیح ’ہاؤسنگ سیکٹر‘ کو ترقی دینا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں سالانہ 1 کروڑ نئے گھروں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن خاطرخواہ گھر تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے گھروں کی کمی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گھروں کی تعمیر کے باعث کم سے کم تین درج صنعتوں سے جڑے شعبوں میں ترقی ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں مصر‘ کینیا‘ نائیجریا اور جنوبی افریقہ کی مثالیں موجود ہیں۔ تصور کیجئے کہ بینکوں سے قرض لیکر گھروں کی خرید (مورگیج) کی پاکستان میں شرح ’’صفر اعشاریہ پچیس فیصد‘‘ جبکہ بھارت میں 11 فیصد‘ ملائیشیا میں 33 فیصڈ‘ امریکہ میں 80فیصد ہے۔ اگر دنیا میں ہر جگہ بالخصوص ہمارے ہمسایہ ملک میں ’مورگیج‘ کامیابی سے چل سکتا ہے تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ ورلڈ بینک نے پاکستان میں ’مورگیج‘ کے لئے ایک ارب ڈالر دینے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

برآمدات میں اضافے کے لئے صنعتوں کے لئے مراعات‘ ہاؤسنگ سیکٹر کی سرپرستی کے بعد ’تحریک انصاف حکومت‘ کی ترجیحات کا تیسرا جز ملک ایسی سرمایہ کاری کا فروغ ہے جو براہ راست کی جائے اور جس کا تعلق قرضوں سے نہ ہو۔ اِس حکمت عملی میں بیرون ملک پاکستانیوں سے بینکاری کے ذریعے (قانونی ذرائع سے) زیادہ مقدار بیس ارب ڈالر ترسیلات زر کا حصول اور سیاحتی شعبے کی ترقی شامل ہے۔ مسلم لیگ (نواز) کی آخری حکومت (2013-18ء) کے پانچ سالہ دور میں قرضوں پر منحصر سرمایہ کاری لانے پر زیادہ توجہ دی گئی جس کے مقابلے ’تحریک انصاف‘ حکومت بناء قرض پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات سے استفادہ کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

2 comments:

  1. First the bad news: our current deficit has risen from $3.1 billion in 2013-14 to over $18 billion. The circular debt in the electricity sector stands at over Rs1,200 billion, of which Rs500 billion is a carry-over from the PPP government and the remaining came from the PML-N government.
    Yes, the cost of generating electricity is high. Yes, the transmission and distribution losses are high. Yes, electricity theft is rampant. And yes, there have been massive kickbacks.

    Over the short term, the PTI government would now have to pay for all the losses plus the kickbacks. And for that to happen, electricity rates would have to rise. This essentially amounts to paying for past sins. Over the medium-to-long term, the challenges include: reducing the cost of generating electricity; reducing transmission and distribution losses; and bringing down theft. Question: Is the PTI government up to it? Answer: Only time will tell.

    Another piece of bad news: the circular debt in the gas sector now stands at around Rs370 billion, most of which has come up during the five years of the PML-N government. Unaccounted for gas (UFG) – a euphemism for theft, plunder, leakages and metering errors – used to be seven percent back in 2001. UFG has since shot up to over 15 percent or 500 million cubic feet of gas per day every day of the year (the internationally acceptable level for UFG is around three percent).

    ReplyDelete
  2. Over the short term, the PTI government would have to pay for all the past theft, plunder, leakages and metering errors. And for that to happen, gas tariff has already been raised. This essentially amounts to paying for past sins. Over the medium-to-long term, there are serious challenges. Question: Is the PTI government up to it? Answer: Only time will tell.

    Now the good news: moving forward there’s a comprehensive, well-thought-out strategy in place. The first component of that strategy is the focus on exports. Since two-thirds of our exports are cotton-related, the government has decided to introduce a separate gas tariff for the textile value chain. The Economic Coordination Committee of the cabinet has amended the natural gas load management policy for five zero-rated export sectors (textile, carpets, leather, sports and surgical goods). In return, Adil Bashir, the newly-elected chairman of the All Pakistan Textile Mills Association Punjab, has assured that the “textile industry’s closed capacity would be revived within six months”.

    The second component of the strategy is the use of the housing sector as a growth-driver. According to the World Bank’s ‘Pakistan Housing Finance Project’, “the estimated housing shortage in Pakistan is up to 10 million units and the deficit continues to grow”. This massive pent-up demand for housing has the potential of unleashing a potent growth-driver in at least three-dozen other related industrial sectors. This is happening in Egypt, Kenya, Nigeria and South Africa. Imagine: the mortgage-to-GDP ratio in Pakistan is 0.25 percent while in India it stands at 11 percent, in Malaysia it amounts to 33 percent and in the US it stands at 80 percent. If it can happen in India, then why not in Pakistan? The World Bank has already shown interest in a billion-dollar mortgage liquidity facility.

    The third component of the strategy is to attract non-debt creating capital inflows – including foreign direct investment, channelling around $20 billion in remittances through banking channels and tourism. Where we went wrong over the past five years is that the PML-N government relied almost exclusively on debt-creating capital inflows.

    ReplyDelete